مار بر گنج

دولت کے پجاری ہر دور میں پائے جاتے ہیں اور پائے جائیں گے۔ آج کل اسے ایک بڑی طاقت سمجھا جا رہا ہے۔ لکشمی دیوی کا چرچا گھر گھر ہے۔ یہ درست ہے کہ دولت انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر زندگی کی گاڑی ایسے چلتی ہے جیسے ہماری عدالتوں میں عام آدمی کا کیس۔ کچھ تو مزید آگے بڑھتے ہوئے کہتے ہیں: ’’باپ بڑا نہ بھیا سب سے بڑا روپیا۔‘‘ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ دولت سب کچھ نہیں ہوتی۔ میرے ایک دوست ہیں اُن کی کوئی اولاد نہیں۔ کروڑوں کی جائیداد کے مالک ہیں۔ بہت علاج کروایا مگر گھر کا آنگن بچوں کی کلکاریوں سے ہنوز خالی اور سونا سونا ہے۔
پنجاب میں شیخوں کا ایک قبیلہ ہے جو اپنی کنجوسی کی وجہ سے ملک بھر میں مشہور ہے۔ ایک شیخ دریا میں بہتا چلا جارہا تھا۔ ایک پڑوسی نے جھٹ ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے کہا: ’’ہاتھ دو میں تمہیں نکالتا ہوں۔‘‘ شیخ کی ہچکچاہٹ دیکھ کر ایک بوڑھے نے کہا: ’’بھئی، پکا شیخ ہے۔ ہاتھ نہیں دے گا۔ اُسے کہو ’’ہاتھ لو‘‘ تو کام چلے گا۔‘‘ یہ تو مذاق کی بات تھی مگر یہ حقیقت ہے کہ کچھ لوگ دولت کے گنج یا خزانے پر سانپ بن کر بیٹھ جاتے ہیں۔
ہمارے ایک بہت بڑے سیاست دان مع اپنی پوری فیملی ’’گنجِ پاکستان‘‘ پر ’’مار‘‘ بن کر ایسے چمٹے بیٹھے ہیں کہ الگ ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ یہاں پر اکثر مرکر ہی ایسے موذی مار، خزانوں کی جان چھوڑتے ہیں۔
باہر کے ملکوں میں شادی بیاہ کے موقعوں پر لوگ تازہ پھولوں کے ہار لے کر جاتے ہیں اور دولہا کو پہناتے ہیں۔ یہاں لوگ دولت کے ہار لے کر دولہا کے گلے میں ڈالتے ہیں۔ نوٹوں کے ایک ہار میں تو ناچیز نے ایک بار دیواری وال کلاک بھی معلق دیکھا تھا۔ اس کی نفسیاتی توجیہہ یہی کی جاسکتی ہے کہ جیب میں زر ہے، تو نر ہے، نہیں تو خر ہے۔ یعنی یہاں دولت کو انسان کی مجبوری یا ایک ایسی بے انتہا بھوک اور ضرورت بنایا گیا ہے کہ وہ مایا کے چکر سے نکلتا ہی نہیں۔ اسے انسانی اعصاب پر سوار کردیا گیا ہے۔
جب ہر جگہ رشوت مانگی جا رہی ہو۔ عدالت میں کیس دولت کے پہیوں پر آگے بڑھتا ہو۔ آپ اپنے جائز حق کے حصول کے لیے بھی کلرک برادری کے ہاتھ گرم کرنے پر مجبور ہوں، تو ایسے معاشرے میں تو پھر ایسا ہی ہوتا ہے۔ سب ہی اس سوچ میں پڑے رہتے ہیں ’’ایک توے کی روٹی، کیا چھوٹی کیا موٹی‘‘ کے مصداق ہر کوئی لکشمی دیوی کے چرن چھونے کے لیے دھکم پیل کو اپنا فرض سمجھتا ہے۔
ہمارے ہاں ایک تصور یہ بھی جما ہوا ہے کہ دولت، دولت کو جنم دیتی ہے یعنی مایا کو مایا ملے کر کر لمبے ہاتھ، غریب کی کوئی نہ پوچھے بات۔ بس اسی لیے ایک دوڑ لگی ہوئی ہے کہ کیسے اس نایاب پرندے کو اپنی جیب اور تجوری میں پابندِ سلاسل کیا جائے۔ چلتے چلتے اُس کنجوس باپ کا بھی ذکر ہوجائے جس نے گھی کا کنستر الماری میں چھپا رکھا تھا۔ جب وہ گھر سے باہر تھا، تو بچوں نے خشک روٹی کو الماری کے اوپر گھسیٹا اور جب والد کو خبر ہوئی، تو بچوں سے کہا: ’’حرام زادو! کبھی بغیر گھی کے بھی روکھی سوکھی کھا لیا کرو۔‘‘
ہمارا مذہب ہمیں کنجوسی اور اسراف کا درمیانی راستہ بتاتا ہے کہ نہ تو اتنے کنجوس بنو کہ ہاتھ گریبان سے بندھا ہوا ہو اور اسراف کرنے والے کو شیطان کا بھائی کہا گیا ہے۔ اپنے بچوں پر خرچ کرنا صدقے کے زمرے میں ٹھہرایا گیا ہے۔ سادگی اور کفایت شعاری کو مستحسن ٹھہرایا گیا ہے۔ دولت کی بے جا حرص کبھی ختم نہیں ہوتی۔ حرص کے اس سرپٹ دوڑتے گھوڑے کو قناعت کی لگام سے روکا جاسکتا ہے۔ بے جا نمود و نمائش اور اسراف جو ہمارے معاشرے کی پہچان بن چکا ہے، سے معاشرے میں احساسِ محرومی پیدا ہو رہا ہے۔ غریب آدمی اپنے بچوں کے لیے سوکھی روٹی کے لیے ترس رہا ہے۔
دوسری طرف ہمارے معاشرے میں گاڑیوں کے لیے مکانات، لباس اور دیگر چیزوں میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کا جنون سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ شو بازی اپنے عروج پر ہے۔ ہمارا میڈیا بھی اس احساسِ محرومی کا بیچ بونے میں آگے آگے ہے۔ ہمارے ڈراموں اور فلموں میں کیا دکھایا جاتا ہے؟ ٹی وی کے اشتہارات میں کیا ہوتا ہے؟ لمبی گاڑیاں، آسمان کو چھوتے بنگلے، مہنگے ریستوران، قیمتی ملبوسات میں ملبوس جسم، مشروبات اور موبائل کے مہنگے سے مہنگے ماڈلز، یہ سب عوام میں اس کے حصول کے لیے تحریک پیدا کرتے ہیں اور جب وہ ان کے حصول کے لیے کوئی جائز راستہ نہیں دیکھتا، تو پھر چور گلی کی طرف نکل جاتا ہے۔ جب تک اوپر سے سادگی اور انصاف کا مظاہرہ نہیں ہوگا۔ اُس وقت تک احساسِ محرومی کے سنپولیے اس معاشرے کو ڈستے رہیں گے۔
……………………………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔