موٹر وے پر ایک خاتون مسافر کے ساتھ جو گزری سو گزری، لیکن اس سانحہ نے دنیا بھر میں پاکستان کو بری طرح رسوا کیا۔
دنیا کا کوئی بڑا اخبار یا چینل نہیں جہاں اس حادثے کی بازگشت سنائی نہ دی ہو۔ اہلِ پاکستان رنجیدہ اور شرمندہ ہیں۔ یہ کوئی پہلا یا آخری واقعہ نہیں۔ ہوس کے بھوکے، گھٹن زدہ اور قانون سے عاری معاشرے میں یہ ہر روز یہی ہوتا ہے۔
فرق صرف اتنا ہے کہ موٹر وے پر حادثے کا شکار ہونے والی خاتون فرانسیسی شہری ہیں۔ مغربی معاشرے میں تربیت پانے والی خاتون نے جرأت کا مظاہرہ کیا۔ اپنے اوپر گزرنے والی قیامت کو بیان کرکے حشر اٹھا دیا۔ درجنوں ایسے واقعات روزانہ رونما ہوتے ہیں۔ بدنامی کے خوف سے اکثر چھپا لیے جاتے ہیں۔ اسی نوع کے حادثات کا شکار ہونے والی کتنی ہی عورتیں ہیں جو خاموشی سے موت کی چادر اوڑ ھ لیتی ہیں۔ قاضی القضا کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے کوئی اور نہ حاکم شہر کے در پر دستک دیتا ہے۔ زنجیرِ عدل سات دہائیوں سے ہلنا بند ہوچکی۔ اس کی جگہ ظالم کوتوال نے سنبھال لی، جو انصاف اور عدل کی بھیک مانگنے کی جازت بھی نہیں دیتا۔مقدمہ درج بھی ہوجائے، تو فیصلہ آ نے تک مدعی مالی طور پر دیوالیہ ہوچکا ہوتا ہے یا پھر تھک چکا ہوتا ہے۔
ایک دوسرے پہلو سے دیکھیں تو یہ واقعہ ایک موقع بھی فراہم کرتاہے کہ ہم بطورِ ریاست اور سماج عورتوں کے بارے میں اجتماعی طرزِ فکر اور ان کے کردار کے بارے میں زیادہ گہرائی کے ساتھ اور حقیقت پسندانہ جائزہ لیں، تاکہ قومی سطح پر ایسے حادثات کی روک تھام کے لیے ٹھوس اقدامات کرسکیں۔ محض قوانین بنانے سے کچھ حاصل نہ ہوتا۔
پاکستان نے صنفی مساوات اور خواتین کے انسانی حقوق سے متعلق متعدد بین الاقوامی قوانین اور معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔ مثال کے طور پر انسانی حقوق کا عالمی چارٹر، بیجنگ پلیٹ فارم فار ایکشن، خواتین کے خلاف ہر طرح کے امتیازی سلوک کے خاتمے کے کنونشن اور پائیدار ترقیاتی اہداف۔
قومی سطح پر بھی خواتین کی ترقی اور ان کو بااختیار بنانے کے لیے ایک قومی پالیسی موجود ہے۔ ملازمت کی جگہ پر خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف تحفظ کا قانو ن موجود ہے۔
عالم یہ ہے کہ قومی اسمبلی میں 60 نشستیں خواتین کے لیے مختص کی گئی ہیں۔ یہ چوتھی پارلیمنٹ ہے جس میں 60 خواتین موجود ہوتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ گذشتہ سترہ برسوں میں 240 خواتین محض قومی اسمبلی کی رکن رہ چکی ہیں۔ صوبائی اسمبلیوں کا بھی حساب کتاب کریں، تو یہ تعداد اور بڑھ جاتی ہے۔ اس کے باوجود خواتین کے حوالے سے سماجی رویہ میں کوئی جوہری تبدیلی نہیں آئی۔ افسوس! پارلیمنٹ میں موجود خواتین قانون سازی میں حصہ لیتی ہیں اور نہ سیاسی سرگرمیوں میں۔
ان کا انتخاب عمومی طور پر پارٹی کے لیے خدمات اور تعلیمی قابلیت کی بنا پر نہیں ہوتا، بلکہ مختلف شخصیات یا بااثر خاندانوں کی سیاسی حمایت حاصل کرنے کے لیے یہ نشستیں دان کی جاتی ہیں۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ آپ جو بھی نظام بنائیں یا قانون پاس کریں، خواتین کو بااختیار بنانے کے حوالے سے کوئی حقیقی پیش رفت نہیں ہوپاتی۔ کیوں کہ ہمارا سماجی اور سیاسی ڈھانچا کسی تبدیلی کو آسانی سے قبول ہی نہیں کرتا۔ گذشتہ برس کا خواتین کی سلامتی کا عالمی انڈیکس بتاتا ہے کہ پاکستان سے برا سلوک عورتوں کے ساتھ صرف شام، افغانستان اور یمن میں روا رکھا جاتا ہے ۔
موبائل فون تک رسائی، مالی شمولیت اور خواتین کے لیے امتیازی سلوک کے بارے میں 9 جنوبی ایشیائی ممالک میں پاکستان کو بدترین قرار دیا جاتا ہے۔ یہ وہ اعداد و شمار ہیں جنہیں پڑھ اور سن کر کان سرخ ہوجاتے ہیں اور سر شرم سے جھک جاتے ہیں۔ افغانستان، یمن اور شام میں جنگ اگر نہ ہوتی، تو غالباً ان کا درجہ بھی ہم سے بہتر ہوتا۔ پاکستان کی 21 ملین آباد ی میں 13 ملین خواتین محض گھریلو کام کاج کرتی ہیں۔ سادہ الفاظ میں ان خواتین کو پیداواری وسائل تک رسائی نہیں۔
وہ دوسروں کے رحم وکر م پر ہیں۔ خواتین کے جائیداد کے مالک ہونے کے قانونی حق کے باوجود ان کے اہل خانہ سے جائیداد، وراثت میں حصہ پانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ 70 فی صد عورتیں غربت کی چکی میں پسی ہوئی ہیں۔ ان کے پاس کوئی جائیداد ہے اور نہ نقد رقم۔ 80 فی صد عورتوں کے بارے میں کہا جاتاہے کہ وہ گھریلو تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔ بقولِ شاعر حال یہ ہے کہ
جب جی چاہا مسلا کچلا جب جی چاہا دھتکار دیا
وزیرِ اعظم پاکستان عورتوں کے حوالے سے اسی طرح کا قائدانہ کردار ادا کریں جس طرح انہوں نے اقلیتوں کے تحفظ کے لیے دوٹوک مؤقف اپنایا۔ فرقہ پرستوں پر ریاستی اداروں نے نکیل ڈالی۔ اجتماعی ریپ جیسے واقعات محض مذمتوں سے کم نہیں ہوسکتے۔ ملک کے اندر سماجی سطح پر بھی اور خاص کر تعلیمی اداروں میں آگاہی مہم چلانے کی ضرورت ہے، تاکہ ہم بحیثیتِ قوم عورتوں کے بارے میں مثبت اندازِ فکر اختیار کرسکیں۔ علما اور میڈیا بہت اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ آخری بات یہ ہے کہ گھر میں صاحبزادیوں اور بہنوں کے ساتھ اس طرح کے معاملات پر گفتگو سے گریز نہ کریں۔ خود ان کی تربیت نہیں کریں گے، تو کون کرے گا!
انہیں اعتمادا ور حوصلہ دیں۔ ملکی قوانین سے بھی انہیں آگاہ کریں، تاکہ وہ مشکل کے وقت مدد کے لیے کسی ادارے سے رجوع کرسکیں۔ عمومی طور پر انہیں معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ریاست ان کی مدد کرنے کی پابند ہے اور مجرموں کو عبرت ناک سزا دلانا زیادہ مشکل نہیں، صرف عزم اور ہمت کی ضرورت ہے۔ جسمانی طور پر عورتوں کو بہت سارے ممالک میں اپنے تحفظ کے لیے ضروری بنیادی تربیت دی جاتی ہے۔ پاکستان میں بھی اس بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیسے سکولوں ہی سے طالبات کو اپنی حفاظت کا طریقۂ کار سکھایا جائے۔
یوٹیوب اور انٹرنیٹ پر ان موضوعات پر بے شمار لوازمہ موجود ہے جس سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔
…………………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔