یہ ایک بڑا میدان تھا جس میں درجن بھر نقاب پوش افراد ہاتھوں میں جدید اسلحہ لیے کھڑے تھے۔ میدان کے درمیان میں دو نقاب پوش افراد نے ایک نوجوان کو اپنے شکنجے میں جکڑ کر زمین پر الٹا لٹایا ہوا تھا۔ ایک نقاب پوش اس نوجوان پر کوڑے برسا رہا تھا۔ سیکڑوں کی تعداد میں لوگ گویا کسی مداری کے تماشے کی طرح اس منظر کو دیکھ رہے تھے۔کسی میں ہمت نہیں تھی کہ ان نقاب پوشوں سے پوچھے کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ ایک دوسرا نقاب پوش شخض جس نے ہاتھ میں جدید بندوق لے رکھی تھی، قرآنی آیات پڑھ رہا تھا۔ تلاوت سے فارغ ہو کر اس نے علانیہ انداز میں مجمع کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:ـ’’ہم نے شریعت کے مطابق اس شخص کو سزا دی ہے، جس نے لوگوں کو خراب گوشت فروخت کیا تھا۔‘‘
پھر اس نے دھمکی دی کہ اگر کسی نے بھی کوئی جرم کیا، تو اس کو شریعت کے مطابق سزا دی جائے گی۔ مجمع خاموش رہا۔ اس نے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے سوال پوچھا: ’’تم لوگوں کو شریعت کے مطابق انصاف چاہیے؟‘‘ سب نے جواباًکہا، ’’ہاں!‘‘ اس نے پھر کہا، ’’ہم اس ملک میں یہی نظام چاہتے ہیں۔‘‘
بطورِ صحافی یہ میر ا آنکھوں دیکھا حال ہے۔ یہ ان درجنوں واقعات میں سے ایک ہے جو سوات میں 2007-9ء کی شورش کے دور ا ن اس وقت پیش آءٗ جب طالبان نامی عسکریت پسندگروہ نے ضلع سوات میں اسلحے کے زور پر قبضہ جما رکھا تھا۔ ان لوگوں کے مطابق حکومت عوام کو سستا اور فوری انصاف دینے میں ناکام رہی تھی، اور وہ مذکورہ کمی پورا کرنے آئے تھے۔ ہزاروں کی تعداد میں یہ اسلحہ بردار ملا فضل اللہ کی سربراہی میں سوات کے طول وعرض میں شرعی نظام کے لیے مسلح جد و جہد کر رہے تھے۔
اس سے ٹھیک پندرہ سال قبل ملا فضل اللہ کے سسر مولانا صوفی محمد نے بھی سوات میں شرعی نظامِ عدل کے نام پر حکومتِ وقت کو چیلنج کیاتھا، اورسرکاری مشینری کو کچھ وقت کے لیے منجمد کردیا تھا۔ اس وقت کی حکومت نے صوفی محمد کی تحریکِ نفاذِ شریعتِ محمدی کو خاموش کرنے کے لیے عدالتوں میں کچھ اصلاحات کردی تھیں، اور قاضی عدالتوں کا بھی اعلان کیاتھا۔ سوا ت میں انصاف اور پھر شرعی نظام کے لیے باقاعدہ جوتحریکیں چلی ہیں، ان میں مسلح تحریکِ ِطالبان نے پور ے علاقے پر قبضہ کیا تھا۔ بعد میں حکومت کی طرف سے فوج کے ذریعے ایک بہت بڑا آپریشن کیاگیا جس میں سوات کے 22 لاکھ لوگ نقلِ مکانی پر مجبور ہوئے تھے۔ ہزاروں بے گناہ لوگ مارے گئے تھے۔ ہزاروں کی تعداد میں زخمی اور اپاہج ہوئے تھے۔ اربوں روپے کی املاک کو نقصان پہنچا تھا۔گو اس شورش اور اس سے پیدا ہونے والے تنازعہ کی وجوہات متعدد اور پیچیدہ ہیں،لیکن سوات میں اس کی ایک وجہ عدالتوں میں بروقت انصاف نہ ملنے کو بھی گردانا جاتاہے۔
مینگورہ کے رہائشی 48 سالہ خورشید احمد باچا 22 سال کی عمر سے عدالتوں میں مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق ان کے داد ا کی دو بیویاں تھی جس میں ایک بیوی نے ان کی تمام جائیداد پر قبضہ جما رکھا تھا۔ انہوں نے اپنی والدہ، نو بھائیوں اور دو بہنوں کے لیے وراثت کا مقدمہ مقامی عدالت میں درج کیا تھا جو کہ مسلسل نو سال تک عدالتوں میں چلتا رہا۔ان نوسالوں میں خورشید کی جیب سے 25 لاکھ سے زائد رقم وکیلوں کی فیسوں، آمد و رفت، گواہوں کو عدالتوں میں پیش کرنے، ان کے کرایوں اور آؤ بھگت کی مد میں خرچ ہوئی۔ یہ رقم شائد اس جائیداد میں ان کو ملنے والے حصے کی آدھی سے زائد رقم بنتی ہے۔ اس طرح خورشید کے مخالف فریق جوکہ ان کے رشتہ دار ہی تھے، ان کے بھی اتنے ہی اخراجات ہوئے بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ خورشید کے بقول، ـ’’آخر میں تھک ہارکر ہم دونوں فریق آمنے سامنے ہوئے اور جرگے کے ذریعے جائیداد کا تنازعہ حل کیا۔ پاکستانی عدالتوں میں مجھ جیسے غریب شخص کو انصاف ملنا بہت مشکل ہے۔‘‘
خورشید نے مزید بتایا کہ غریب شخص کے خاندان سے اگر کوئی قتل ہوجائے، تو کوئی بھی گواہی دینے کو تیار نہیں ہوتا۔ وکیل بغیر بھاری فیس کے مقدمے میں دلچسپی نہیں لیتا، بے بس او رلاچار لوگ خاموش ہو کر صبر کرلیتے ہیں۔ ’’مَیں نے ان نوسالوں میں سیکڑوں لوگوں کو عدالت کے چکر کاٹتے ہوئے دیکھا ہے۔ انصاف نہ ملنے پر بے بس لوگ خودکُشی کرلیتے ہیں، یاقانون کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں۔ عدالت کے اندر میرے سامنے کئی قتل ہوئے ہیں۔‘‘ خورشید کے مطابق پاکستان کے عدالتی نظام میں جھوٹ پر جھوٹ چلتاہے۔ ’’مقدمات میں ملوث تمام لوگوں سے باقاعدہ بیان ریکارڈ کرنے سے قبل قرآن شریف پر حلف لیا جاتا ہے، مگر میرے علم کے مطابق زیادہ ترلوگ اپنے بیانات سے مکر جاتے ہیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ جھوٹ پرجھوٹ بولا جاتا ہے، وکیلوں کے عجیب سوالات ان کو الجھن میں ڈالتے ہیں۔ عدالتی نظام میں بہت ساری پیچیدگیاں ہیں۔ مقدمات کو طول دینے کے عجیب عجیب طریقے ہوتے ہیں۔ کبھی ایک وکیل موجود نہیں، کبھی ہڑتال، کبھی میڈیکل کا مسئلہ، کبھی مقدمے کے دوران درخواست دی جاتی ہے جس پر تمام کارروائی روک کر بحث ہوتی ہے۔ مقدمے پرحکم جاری ہونے کے باوجود دوسری عدالت میں اپیل کردی جاتی ہے۔ یوں ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ مقدمہ بازی میں ملوث افراد ذہنی مریض بن جاتے ہیں۔کبھی مزاروں میں بابوں سے دم کرواتے ہیں، کبھی تعویذ گنڈوں کا سہارا لیا جاتا ہے۔’’مشورہ بس یہی ہے کہ پاکستان کی کسی بھی عدالت میں مقدمہ بازی نہ کی جائے، اس میں سکون اور خیر ہے۔‘‘
اس حوالہ سے سوات بار ایسوسی ایشن کے صدر حضرت معاذ کا کہنا ہے کہ سوات 1969ء تک ایک الگ اور آزاد ریاست تھا۔ اس وقت سوات میں لکھاہوا باقاعدہ آئین نہیں تھا، مگر لوگوں کے تنازعات کے فیصلے روایتی طریقوں، جرگوں اور پشتون روایات کے مطابق کیے جاتے تھے۔’’لوگ اس وقت کی عدالت سے مطمٔن تھے۔ کیوں کہ ایک سادہ کاغذپر حکومت کو درخواست لکھی جاتی تھی اور چند ہی دنوں میں قتل سے لے کر معمولی تنازعات کے فیصلے ہوجایا کرتے تھے۔‘‘
حضرتِ معاذ نے مزید بتایا کہ جب ریاستِ سوات پاکستان میں شامل ہوئی، تو اس وقت کے حکمرانوں نے حکومتِ پاکستان کو کچھ شرائط پیش کیں جس میں کچھ قوانین فوری طورپر ریاست سوات میں نافذ نہیں ہوئے۔ مجسٹریٹی نظام رائج ہوا۔ اس کے بعد سوات انصاف کے حوالے سے ایک تجربہ گاہ بن گیا۔ لوگوں کو انصاف کے لیے دھکے کھانے پڑے۔ اس وجہ سے لوگوں میں اشتعال پیدا ہوا، اور انصاف کے لیے آواز اٹھانے والوں کا ساتھ دیناوقت کی ضرورت بن گیا۔
حضرتِ معاذ نے اس بات کی بھی تائید کی کہ سوات میں تین بڑی تحریکیں انصاف کے لیے چلیں، جن میں لوگوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ مولانا صوفی محمد، ملا فضل اللہ کی طالبانائزیشن تحریک اور آخر میں سیاسی عمل کے ذریعے برسرِ اقتدار تحریکِ انصاف بھی اس میں شامل ہے۔
مگر انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان تینوں تحریکوں نے سوات کے عوام کو انصاف دینے میں کوئی مدد نہیں کی، بلکہ لوگوں کے جذبات کو مجروح کیا اور صرف ان کو کھوکھلے نعروں سے اپنے ساتھ ملایا۔ ’’ضلع سوات میں بھی پاکستان کے دیگر علاقوں کی طرح عدالتیں کام کرتی ہیں۔ ان کے کچھ قواعد و ضوابط ہیں۔ سوات کے لوگ چوں کہ تیزترین فیصلوں کے عادی تھے۔ ان کو پاکستانی عدالتوں کے پیچیدہ قوانین کا علم نہیں تھا،اس وجہ سے یہ لوگ ان عدالتوں سے بدظن تھے، اور تاحال صورتحال جوں کی توں ہے۔‘‘
حضرتِ معاذ کے بقول، موجودہ عدالتیں عوام کو تیز انصاف دینے میں ناکام ہیں۔ اس کی بڑی وجہ عدالتوں کا پیچیدہ نظام اور اس کے ساتھ عدالتوں پر کیسوں کا حد سے زیادہ بوجھ ہے۔ ’’ ایک عدالت میں ہزاروں کیس ہوتے ہیں جن میں سے ہر ایک کے لیے تاریخ پر تاریخ دی جاتی ہے۔ اس وجہ سے فیصلوں میں تاخیر ہوجاتی ہے۔ عدالتوں میں اضافہ اس کا حل ہے۔‘‘
قارئین، اب حکومت نے 2016ئسے پورے صوبے کے اضلاع میں تنازعات کے حل کے لیے ’’جرگہ سسٹم‘‘ سے مماثلت رکھنے والا ’’ڈی آر سی‘‘ یعنی ’’ڈسپوٹ ریزولوشن کونسل‘‘ کا نظام قائم کیا ہے۔ یہ ’’ڈی آر سی‘‘ خیبر پختونخوا کے عدالتی نظام کا حصہ ہے۔ اس کے ذریعے کورٹ جانے سے پہلے لوگوں کے تنازعات کوباہمی افہام وتفہیم سے حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس میں فریقین کے درمیان مصالحت کی جاتی ہے۔
سوات سے تعلق رکھنے والے 70 سالہ حاجی رسول خان نے ریاستِ سوات سے لے کر موجودہ نظام تک تقریباً ہر دور دیکھا ہے۔ حاجی رسول خان مینگورہ تھانے میں ’’ڈی آرسی‘‘ یعنی مقامی جرگے کے سربراہ ہیں، اور لوگوں کے درمیان تنازعات حل کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پختونوں نے اپنے سخت سے سخت اور بڑے سے بڑے مسائل اور تنازعات کو ہمیشہ جرگوں کے ذریعے حل کیا ہے۔ ریاستِ سوات میں بھی جرگوں کے ذریعے تنازعات حل کیے جاتے تھے۔ حاجی رسول خان کے مطابق یہ سسٹم انتہائی کامیابی سے جاری ہے۔ ایک جرگہ اکیس افرادپرمشتمل ہوتا ہے جس میں علاقے کے نیک نام عمائدین شامل ہوتے ہیں۔ ’’روزانہ تین افراد متاثرہ لوگوں کو سنتے ہیں۔ فریقین کے درمیان صلح کراتے ہیں، اور تنازعات کے لیے قابلِ حل تصفیہ کراتے ہیں۔’’
حاجی رسول خان کے مطابق اس طرح سالانہ ہزاروں کی تعداد میں فیصلے کیے جاتے ہیں جوکہ عدالتوں پر بوجھ کم کرنے کی ایک بڑی کوشش ہے۔ ان فیصلوں کے خلاف لوگ عدالتوں میں جاسکتے ہیں، مگریہ فیصلے عدالتوں میں ججوں کو بھی فیصلہ کرتے وقت انتہائی مفیدثابت ہوتے ہیں۔ کیوں کہ ’’ڈی آر سی‘‘ یا مقامی جرگہ تمام تنازعات کو باقاعدہ تحریری شکل میں ڈھالتا ہے۔
’’ڈی آرسی‘‘ میں قرضے کا کیس لانے والے محمد زبیرکا تعلق سوات کے علاقے شموز و سے ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنی والدہ کے ساتھ عمرے کے لیے جانا چاہتے تھے۔ اس کے لیے مقامی ’’ریکروٹینگ ایجنسی‘‘ کو دولاکھ سے زائد رقم ادا کی، مگر اس ادارے میں ایک شخص نے ان کے ساتھ دھوکا کیا اور عمرے پربھیجنے کی بجائے وہ رقم ہتھیالی:’’ دوستوں کے ساتھ مشورے کے بعد مَیں نے ’’ڈی آر سی‘‘ میں درخواست دی جس پر متعلقہ شخص کو بلایاگیاـ‘‘
زبیر نے آگے کہا کہ ہمار ا مسٔلہ چند دنوں میں ڈی آرسی میں موجود اہلکاروں نے حل کیا۔‘‘
زبیر نے یہ بھی بتایا کہ اس شحص کے پاس رقم نہیں تھی۔ اس سے ’’ڈی آر سی‘‘ کے ارکان نے ضمانت لے لی، اور قسطوں میں رقم ادا کرنے کا پابند بنالیا جب کہ کچھ رقم انہیں اسی وقت اد کردی گئی۔انہوں نے کہا کہ مَیں اس فیصلے سے مطمٔن ہوں۔ ’’مَیں نے خود ایم فل کیا ہواہے۔ میرے کئی دوست وکیل ہیں۔ ان سے میں عدالت کے واقعات سنتاہوں۔ اس کیس میں وکیلوں کی فیسوں سے بچ گیا۔ اس طرح عدالت میں منشیوں اور اسٹام پیپرز فروشوں کے اخراجات سے بھی نجات ملی۔ مَیں نے خود اپنا مقدمہ ڈی آرسی ممبران کے سامنے پیش کیا۔ انہوں نے غور سے سنا اور بغیر کسی اضافی رقم اور وقت ضائع کیے میرا مسئلہ حل ہوا۔مَیں یہ سمجھتا ہوں یہ ایک معیاری کونسل ہے، جس میں عوام کو سستا انصاف مل جاتا ہے۔‘‘
قارئین، محمد زبیر ان ہزاروں لوگوں میں سے ایک ہے جن کا مسئلہ ’’ڈی آر سی مینگورہ پولیس سٹیشن‘‘ میں حل ہوا۔ سوات پولیس کے ریکارڈ کے مطابق ضلع سوات میں پندرہ ’’ڈی آر سی‘‘ مختلف تھانوں میں لوگوں کے تنازعات حل کر رہے ہیں۔ سال 2019ء میں ان سنٹروں میں 3 ہزار 7 سو 62 کیس رجسٹر ہوئے تھے، جن میں 3 ہزار 2سو 10 پرفیصلے ہوئے۔ اس میں 354 مقدمات قانونی کارروائی کے لیے عدالتوں کو بھیج دیے گئے، جب کہ 198 تنازعات التوا کا شکار ہیں۔
اس کے برعکس سوات میں لوئر عدالتوں کی تعداد چونتیس ہے۔ ان عدالتوں میں سال 2019ء میں مقدمات کی تعداد 22 ہزار 4 سو 60تھی، جب کہ 10 ہزار سے زائد کیس پچھلے سالوں سے الگ زیرِ التوا تھے۔ سال بھر میں 22 ہزار 3 سو 80 کیس عدالتوں میں چلتے رہے۔ اس طرح سال کے اختتام پر 10 ہزار 8 سو 32 کیس زیرِ التوا رہے۔ عدالت سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق 10 ہزار سے زائد کیسوں کا فیصلہ سنایا گیا ہے، مگر دوسری جانب فیصلہ شدہ مقدمات میں 80 فیصد سے زائد کو دیگر عدالتوں میں چیلنج کیا گیاہے۔
ضلع سوات کی عدالتوں سے حاصل شدہ مقدمات کی تفصیل کچھ یوں ہے: 2018ء سے زیرِ التوا مقدمات 10775، 2019ء میں نئے مقدمات 11685، 2019ء میں حل شدہ مقدمات 11548، 2019ء میں زیرِ التوا مقدمات 10832، 2019ء میں کل مقدمات 22380 تھے۔
ضلع سوات ڈی آر سی کے ذریعے تنازعات کی تفصیل، سال 2019ء میں کل تنازعات 3762، حل شدہ تنازعات 3210، عدالتوں کو بھیجے گئے تنازعات 354 اور زیرِ التوا تنازعات 198 تھے۔ اس طرح سال 2018ء میں کل تنازعات 2528، حل شدہ تنازعات 1967، عدالتوں کو بھیجے گئے تنازعات 261 اور زیرِ التوا تنازعات 300 تھے جب کہ سال 2017ء میں کل تنازعات 2394، حل شدہ تنازعات 1904، عدالتوں کو بھیجے گئے تنازعات 252 اور زیرِ التوا تنازعات 238 تھے۔
خیبر پختونخوا اور خصوصاً ضلع سوات میں لوگوں کو انصاف دلانے کے بارے میں عدلیہ سے مؤقف لینے کی باربار کوشش کی گئی، مگر انہوں نے معذرت کرلی ۔
سوات بار ایسوسی ایشن کے سینئر ممبر عطاء اللہ جان ایڈوکیٹ کا ڈی آرسی کے ذریعے تنازعات حل کرنے کے بارے میں رائے ہے کہ ہم بطورِ وکلا بھی یہ چاہتے ہیں کہ عوام کو سستا، جلد اور مؤثر انصاف مل جائے۔ ان کا خیال ہے کہ ڈی آرسی، عدالتوں کے ساتھ ایک متوازی نظام ہے جس کے فیصلے علاقے کے عمائدین کرتے ہیں، جن کے پاس قانون بارے آگاہی نہیں ہوتی۔ جب کہ ان کے ذریعے راضی نامے قانونی طورپر مستحکم بھی نہیں ہوتے اور تنازعہ ایک مرتبہ پھر عدالتوں میں لایا جاتا ہے۔ حکومت اور جو لوگ تنازعات اور مقدمات کو جلد حل کرنا چاہتے ہیں، تو موجودہ عدالتی نظامی میں اصلاحات لا ئیں۔ ڈی آر سی کے کچھ وقتی فواعد ضرور ہیں، مگران کے فیصلے یا راضی نامے دیرپا اور مؤ ثر نہیں ہیں۔
ضلع سوات کے مرکزی شہر مینگورہ کے پولیس انچارج ڈی ایس پی دیدار غنی کے مطابق ڈی آر سی کی کارکرگی اب اتنی اچھی جا رہی ہے کہ لوگ از خود اپنے تنازاعات ڈی آر سی لاتے ہیں، جب کہ پولیس اہلکار ان دیوانی مقدمات کو ڈی آرسی بھجواتے ہیں جوکہ معمولی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ اس میں خاندانی تنازعات، محلے داروں کے درمیان معمولی جھگڑے اور قرضہ جات وغیرہ شامل ہیں۔ تنازعات کو حل کرنے میں ڈی آر سی نظام بہت ہی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس سے پولیس پر بھی بوجھ کم ہوجاتاہے۔ کیوں کہ پولیس اہلکار اس کی وجہ سے سنجیدہ اور سنگین قسم کے جرائم ی روک تھام پر توجہ دیتے ہیں۔
ڈی ایس پی اس بات کو یکسر مسترد کرتے ہیں کہ ڈی آ رسی کے ممبران کو قانون اور علاقے کی روایات کا زیادہ علم نہیں ہوتا۔ ’’مینگورہ ڈی آر سی میں تجربہ کار وکیل، علاقے کے معزز مشران اور تعلیم یافتہ لوگ شامل ہیں۔ ڈی آر سی کے حل کردہ تنازعات اتنے مؤثر ہوتے ہیں کہ بہت ہی کم لوگ دوبارہ عدالت سے رجوع کرتے ہیں۔‘‘
سوات سے دو بار منتخب ہونے والے صوبائی اسمبلی کے رکن اور پاکستان تحریک انصاف ملاکنڈ ڈویژن کے صدر فضل حکیم سے عدالتی نظام کے متعلق شکایات کے بارے میں سوال پوچھا گیا، تو انہوں نے بتایاکہ بالکل تحریک انصاف نے عوام کو کرپشن فری پاکستان اور انصاف دینے کا وعدہ کیا تھا۔ ’’ہم نے پورے صوبے میں سب سے پہلے معاشرتی انصاف کو یقینی بنا دیا ہے۔‘‘
فضل حکیم جو کہ سوات ڈسٹرکٹ ڈیولپمنٹ اینڈ ایڈوائزری کمیٹی (ڈیڈیک) کے چیئرمین بھی ہیں ، نے مزید بتایا۔’’کسی بھی محکمے میں عوامی حق تلفی نہیں ہورہی۔ تمام بھرتیاں میرٹ پر کی جارہی ہیں۔ محکمۂ پولیس جو کہ انصاف دلانے میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے، اس کو بااختیار بنادیاہے، مگراس پر باقاعدہ چیک ہے۔ سیاسی مداخلت سے آزاد ہے، مگر جو پولیس اہلکار عوام کو انصاف فراہم نہیں کرتا، اس کے خلاف سخت کارروائی کی جاتی ہے۔ اس طرح تقریباً تمام محکموں میں سیاسی مداخلت نہ ہونے کے برابر ہے۔ مَیں مانتا ہوں کہ انصاف دینے کی رفتار سست ہے۔ لوگوں کو اس سے شکایات ہیں جس پر صوبائی حکومت وقتاً فوقتاً نوٹس لیتی ہے، اور قانون سازی بھی کرتی ہے، مگر سب سے بڑی ذمہ داری وکلا برادری پر عائد ہوتی ہے۔ وکلا کو معلوم ہوتاہے کہ ظالم کون ہے اور مظلوم کون، اگر وکلا ظالم کا ساتھ نہ دیں اور مظلوموں کا ساتھ دیں، مقدمات کو بے جاطوالت نہ دیں، تو عدالتوں میں انصاف کا حصول آسان بھی ہوجائے گا اور مظلوم کوا ن کا حق بھی مل جائے گا۔‘‘
………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔