مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بھارتی قدم کو ہم نے تو مسترد کیا ہی لیکن اس حوالے سے دنیا میں معاشی مفادات کو ترجیح ملنا بھی واضح ہوتا گیا۔ پاکستانی عوام اور خواص کو حیرت کا شدید جھٹکا اس وقت لگا جب متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نے اسے امت مسلمہ کا خصوصی مسئلہ سمجھتے ہوئے اس کی واضح الفاظ میں مذمت کرنے کے بجائے اسے پاکستان اور بھارت کا داخلی معاملہ قرار دے دیا۔ سونے پہ سہاگا یہ ہوا کہ ہمارے گھر آ کے ہمیں ہماری اوقات یاد دلائی گئی، کہ تم تو وہی ہو نا وسعت اللہ خان کے کالم والے بخشو۔ تم ہم سے ساتھ کی توقع کیے بیٹھے ہو؟ـ حیرت اور دُکھ کی ملی جلی کیفیت ابھی طاری تھی کہ آرامکو آئل ریفائنری پہ حملہ ہوگیا۔ بس یہاں سے لہجے بھی بدلنا شروع ہو گئے، اور رویے میں بھی فرق محسوس کیا جانے لگا۔ اسلحے کے انبار، کثیر الملکی اسلامی فوجی اتحاد، سپر پاؤر جیسا حمایتی، بہترین دفاعی نظام ہونے کے باوجود جب میزائل یا ڈرون ملک کی بڑی آئل ریفائنری کو نشانہ بنا گئے تو پھر ذہن میں خیال آیا کہ ہم تو اسلحہ خرید خرید کے تھک گئے، لیکن سب کسی کام نہ آیا۔ دنیا میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ معیشت ایک مرتبہ ہل کے رہ گئی۔ اب مسکراہٹ ہمارے لیے بھی بحال ہوگئی۔ خصوصی طیارے دیے گئے، ہمیں اپنا ثالث مانا گیا، ہمیں وسعت اللہ خان والے بخشو سے دوبارہ بھائی کا درجہ دے دیا گیا۔
اب ہم ثالث بن چکے ہیں، لیکن کیا ثالثی ہمیں ہماری قابلیت پہ ملی ہے؟ (کیا ہمیں ثالث بنانے والوں نے ایک لمحہ بھی نہیں سوچا کہ ہم تو اپنے گھر میں اپوزیشن سے باہم دست و گریباں ہیں، اور معاملات سلجھا نہیں پا رہے، تو عالمی معاملات میں ٹانگ کیسے اڑا سکتے ہیں؟) یا اس ثالثی میں مفادات کو مقدم رکھا گیا ہے؟ ہمیں اختیار مل گیا کہ تم ثالث ہو جاؤ بات کرو۔ یہ ہماری قابلیت پہ عہدہ نہیں تفویض ہوا، بلکہ اربوں ڈالر کے اسلحے کے انبار، کثیر الملکی اسلامی فوجی اتحاد، اور اتحادیوں کے ساتھ کے باوجود گھٹنے ٹیک دینے کے بعد ہمیں ثالث بنا لیا گیا۔ کیوں کہ ایک لمحہ سوچیے اس کے علاوہ چارہ اب کیا باقی تھا؟ ہم نے بطورِ ثالث دورے بھی کر ڈالے۔ ثالث کو یقینی طور پر حرکت کے تمام اصولوں پہ کاربند ہونا چاہیے، لیکن عرض اتنی سی ہے کہ جن میں ہم ثالثی کروا رہے ہیں، ان دونوں کے معاشی مفادات وہاں وابستہ ہیں جو ہمارے لیے ایسے ہی ہے جیسے پتھر کوئے کے لیے۔ ہم توجنگ کے دہانے پہ کھڑے ہیں۔ اور ثالثی ان میں کروا رہے ہیں جو اب بھی ہمارے ٹیکسٹ بک دشمن سے بغل گیر ہیں۔ اور مزید حیرت یہ کہ ترکی، ایران، ملائشیا وغیرہ کی جانب سے تو ہلکا پھلکا نعرۂ مستانہ ہماری حمایت میں آ ہی گیا تھا (بے شک وہ کافی نہیں ہے، لیکن بہرحال آیا ضرور)۔ لیکن جنہوں نے ہمیں اپنا ثالث بنایا ان کی جانب سے اب تک کشمیر پہ کوئی واضح پالیسی سامنے نہیں آ رہی؟ شائد انہیں یاد نہیں رہا بیان دینا؟ یا ہو سکتا ہے جس آرامکو پہ ہونے والے حملہ کے بعد رویے بدلے، وہی بھارت میں سرمایہ کاری کی بنیاد ہے، تو واضح بیان دینا شائد سرمایہ کاری کے لیے نقصان دہ ہو جائے۔ اور اس بات میں شک رہا نہیں کہ دنیا بھائی چارے، امت کارڈ، خاندانوں کے مراسم سے نکل کے معاشی مفادات کی مٹی میں گندھتی جا رہی ہے، اور دن بدن ایک دوسرے سے وابستہ باہمی سرمایہ کاری اہم ہوتی جا رہی ہے۔
ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی بہتری نہ صرف خطے کے لیے اہم ہے، بلکہ یہ دنیا کے لیے بھی اہم ہے۔ امریکہ و ایران ایک دوسرے کو شیطان سمجھتے ہیں۔ سعودی عرب اور ایران کا ویر تو کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ یہ ویر ہی تو پورے خطے کو آگ میں دھکیل گیا ہے۔ یہ جو کثیر الملکی اسلامی فوجی اتحاد بنا تھا، کیا یہ امت مسلمہ کے مفادات کے تحفظ کے لیے بنا تھا؟ ایسا ہوتا، تو ایران کیوں شامل نہیں؟ اور اب تک یہ اتحاد کیا فسلطین، کشمیر، برما میں استعمال ہوا جہاں مسلمانوں پہ ظلم و ستم جاری ہے؟ ہرگز نہیں! یہ اُمّت کے بجائے فقہی اتحاد تھا۔ تھا اس لیے کہ اس کی اِفادیت ہم یمن تنازعے میں دیکھ چکے ہیں۔
کوئی شک نہیں کہ ہمیں ثالثی کروانی چاہیے، لیکن اس ثالثی سے اپنے مفادات کا تحفظ بہر حال اہم جانیے۔ ضرورت میں اپنا معاملہ ہونے کا طعنہ دینے والوں کو جتلائیے۔ اور ہمارے دشمن سے پیار کی پینگیں بڑھاتے ایران کو بھی یاد کروائیے کہ اسلامی بھائی چارہ بھی کتنا اہم تھا چند دہائیاں قبل ہم میں۔ صرف اسی پہ خوش نہ ہوں کہ ثالث بن گئے(جب کہ قوی امید ہے کہ اپنے مفادات پہ ضرب لگنے سے ہی دونوں ممالک مذاکرات کی میز پہ آئیں گے، صرف ہمارے کہنے سے نہیں) بلکہ اپنے معاملات بھی درست کیجیے۔ پاکستان میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے دونوں ممالک کا کردار کیا رہاہے؟ یہ ایک ایسا راز ہے جو زباں زدِ عام ہے۔ سعودی عرب کو یقین دلائیے کہ ہم ثالث ہیں، لیکن ضرورت پڑنے پہ منھ پھیر لینے والوں سے ہمارا مستقبل میں واسطہ نہ رہے گا۔ اس ثالثی میں ایران کو بھی یقین دلائیے کہ ہم آپ دونوں کے معاملات بہتر کروانے میں کردار ادا کر رہے ہیں۔ آپ بھی ذرا اپنے سرحدی معاملات، ہمارے دشمن سے مسکراہٹوں کے تبادلے پہ تھوڑا غور کیجیے۔
کاش بیل منڈھے چڑھ جائے، سعودی عرب و ایران کے تعلقات کی۔ تو اس کے اثرات جاری شام خانہ جنگی، یمن تنازعے، عراق کے اندرونی مسائل، خطۂ عرب، فلسطین کے مسئلے پہ بھی پڑیں گے۔ اور یہ اثرات یقینا امتِ مسلمہ کے لیے مثبت ہی ہوں گے، لیکن اس بیل کے منڈھے چڑھنے میں سب سے اہم کردار ایران و سعودی عرب کی نیت کا خلوص ہے۔
اگر ظاہری اور عارضی نقصان کی بنیاد پہ ہی طوعاً و کرہاً مذاکرات کی میز پہ آ بھی گئے، اور ’’پراکسیز‘‘ کی منافقت کا لبادہ اوڑھے رکھا، تو پھر نہ ان دونوں فریقین کو کوئی فائدہ ہوگا، نہ ’’ثالث صاحب‘‘ کی ثالثی ہی پھر کچھ کر پائے گی۔
…………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔