پختونخوا کے ایک طاقتور بزرگ اور حکمران، احمد خان یوسف زیٔ کو ماہرین تاریخ ایک اہم شخص مانتے ہیں۔ یہ اس لئے کہ انہوں نے پختونوں کے لئے ایک الگ ملک اور حیثیت حاصل کرنے کی خاطر کوششیں کیں۔ موصوف کے اختیار کے وقت الگ الگ قوموں میں زمین کی تقسیم (ویش) بہت اچھے طریقے سے ہونے کے ساتھ ساتھ خونی جنگوں کا راستہ بھی روکا گیا تھا۔ موصوف کی صحیح تاریخ پیدائش معلوم نہیں لیکن محققین کہتے ہیں کہ انہوں نے اندازاً 1470ء کو قندھار میں آنکھ کھولی ہوگی۔
صوابی کے ایک لکھاری اور محقق نورالامین یوسف زیٔ، ملک احمد خان یوسف زیٔ کے گھرانے اور ابتدائی زندگی کے حوالے سے کہتے ہیں: ’’دنیا کے کم عمر قومی سربراہ جرنیل ملک احمد خان، یوسف زیٔ قبیلہ کے سربراہ ملک شیر زمان شاہ کے بھتیجے تھے۔ اللہ بخش یوسفی کہتے ہیں کہ ملک احمد خان 1530ء کے آس پاس وفات پاگئے ہیں، لیکن فہیم سرحدی جنہوں نے بڑی تعداد میں کتابوں کا مطالعہ کیا ہے اور اپنی بصیرت سے بھی کام لیا ہے، اپنے غیر مطبوعہ کتاب ’’روسیوں کے سفیر‘‘ میں لکھا ہے کہ ملک احمد خان 1470ء کو پیدا ہوئے تھے اور 1515ء میں ان کی حکمرانی میں یوسف زیٔ قبیلہ سوات میں آباد ہوگیا تھا۔‘‘
خیبر پختونخوا کے ولی خان یونیورسٹی کے استاد اور تاریخ کے لکھاری فرہاد علی خاور لکھتے ہیں کہ ملک احمد خان، مغلوں کے الغ بیگ کی حکمرانی کے وقت اولاً قندھار اور ثانیاً کابل سے ہجرت پر مجبور ہوئے تھے۔ فرہاد علی خاور کے بقول جب مغلوں نے ایک سازش کے پیش نظر یوسف زیٔ قبیلہ کے بعض افراد کو کابل میں قتل کر ڈالا اور دیگر بعض کو اپنے علاقوں سے نکال دیا، تو پختون قوم ملک احمد کی سربراہی میں آج کے دور کے خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں آباد ہوئی۔ خاور اس حوالے سے کہتے ہیں: ’’1490ء کو یوسف زیٔ اور گگیانڑو (قبیلہ) کے درمیان ایک خاتون کی وجہ سے تنازعہ کھڑا ہوا، جس میں الغ بیگ نے گگیانڑو کا ساتھ دیا۔ اس لڑائی میں یوسف زیٔ قبیلہ کے سات سو افراد شہید اور ملک احمد خان قید ہوئے۔ اس کے بعد ملک احمد خان کے چچا ملک سلیمان نے الغ بیگ سے ان کو رہا کرنے کی درخواست کی۔ بدلے میں ملک سلیمان نے اپنے آپ کو ان کے حوالہ کردیا، جن کو بعد میں شہید کر دیا گیا۔ اس وقت ملک احمد خان، جلال آباد میں تھے۔ وہ جلال آباد سے سوات کی طرف اس عزم کے ساتھ روانہ ہوئے کہ پختونوں کے لئے ایک الگ ملک کی بنیاد رکھیں گے۔ جب وہ یہاں آئے، تو دلہ زاک (قبیلہ) نے انہیں دوآبہ کے مقام پر رہنے کے لئے جگہ دی۔ ملک احمد خان نے یہاں وقتاً فوقتاً اپنا قبیلہ متحد کرنے کا عمل شروع کیا۔ اس کے ساتھ ہشت نگر کا علاقہ تھا، جو سواتی سلطان اویس کی جاگیر تھا۔ وہ مغل حکمرانوں کو ٹیکس دیا کرتا تھا۔ ملک احمد خان نے ہشت نگر پر حملہ کیا۔ 1510ء کو ملاکنڈ تک کے علاقے فتح کرلئے اور سوات کی طرف روانہ ہوئے۔ اس کے بعد 1515ء کو ملاکنڈ کے علاقہ تھانہ میں یوسف زیٔ قبیلہ اور سواتیوں کے درمیان جنگ چھڑ گئی، جس میں سلطان اویس سواتی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اور یوسف زیٔ قبیلہ نے سوات بھی قبضہ کرلیا۔‘‘
ملک احمد خان اپنی دور اندیشی کی وجہ سے مشہور تھے۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے بڑی ہوشیاری کے ساتھ اپنے لوگوں کو مختلف جگہوں میں تعینات کیا۔ لکھاری اور محقق، نورالامین یوسف زیٔ اس حوالہ سے کہتے ہیں: ’’ملک احمد خان کے بارے میں اس زمانے کے تمام تذکرہ کرنے والوں چاہے وہ اپنے ہوں یا غیر، لکھا ہے کہ اس کی پیشانی پر سربراہی کے آثار نمایاں تھے۔ اس کے ساتھ وہ فصیح و بلیغ مقرر تھے۔ قابل انسان تھے اور آپ وہ پختون ہستی تھے، جنہوں نے تسبیح کے دانوں کی طرح پختونوں کے منتشر قبیلوں کو ایک لڑی میں پرویا۔ انہیں ایک مٹھی کی شکل دی اور پھر بسنے کی خاطر ان کے لئے ایسی زرخیز مٹی تلاشی کہ اب پانچ سو سال گزرنے کے بعد بھی وہاں مستقل طور پر رہائش پذیر ہیں اور اپنی ثقافت اور روایات کے امین ہیں۔ میں تو یہ کہتا ہوں کہ اکثر و بیشتر پشتون قبائل نے تہذیبی اور تمدنی زندگی کی طرف بحیثیت قوم ملک احمد خان کے دور سے اپنے سفر کا آغاز کیا۔ ایسا تو ہم نہیں کہہ سکتے کہ سب کچھ انہوں نے اپنے دور میں مکمل کیا ہے، لیکن یہ کہہ سکتے ہیں کہ ابتدا انہوں نے ہی کی تھی۔ تاریخ کے صفحات میں ہمیں یہ دکھائی دیتا ہے کہ جب گگیانڑی اور محمد زیٔ (قبیلے) کو الغ بیگ نے تنگ کیا اور وہ یہاں آئے، تو ملک احمد خان نے اپنے یوسف زیٔ قبیلہ سے کہا کہ آپ مردان اور صوابی کی طرف ہجرت کر جائیں یعنی اباسین کے کنارے کی طرف جائیں اور آباد زمینیں محمد زیٔ اور گگیانڑوں کے لئے چھوڑ دیں۔‘‘
ملک احمد خان نے نہ صرف پختونوں کے منتشر قبیلوں کو یکجا کیا بلکہ ان کی ایک الگ شناخت کے لئے بھی کام کیا۔ تاریخ لکھنے والے فرہاد علی خاور کہتے ہیں کہ سب سے بڑا کام جو ملک احمد خان یوسف زیٔ نے کیا ہے، وہ پختونخوا ریاست کا اعلان کرنا تھا: ’’1520ء کو ملک احمد خان نے پختونخوا ریاست کا اعلان کردیا۔ ملک احمد خان اس کے رہبر تھے اور شیخ ملی بابا وزیر اعظم اور قاضی القضات تھے۔ پختونخوا کی اس وقت کی ریاست میں صوابی، مردان، ہشت نگر، ملاکنڈ، سوات، بونیر، اور باجوڑ کے علاقے شامل تھے۔ اس وقت ملک احمد خان نے ایک بڑی تدبیر سے کام لیا اور وہ یہ کہ ریاست کو یوسف زیٔ نام دیا، بلکہ اسے پختونخوا نام دیا۔ افغانستان میں جتنے قبیلے تھے، وہاں سے تھوڑے تھوڑے لوگوں کو بلواتے، انہیں یہاں مختلف علاقوں میں جگہیں دیتے۔ جہاں یوسف زیٔ قبیلہ کے پانچ ہزار افراد بستے، تو افغانستان سے جن پختونوں کو بلواتے، دو دو سو افراد ان کے ساتھ جمع کرتے۔ اس سے ان کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ پختونخوا کا انحصار افغانستان پر ہو۔‘‘
پانچ سو سال پہلے ہر قبیلہ اس کوشش میں تھا کہ ایک پورے علاقہ پر قبضہ کرلیا جائے، جس میں زرعی اراضی کے ساتھ رہائشی زمین بھی ہو۔ ملک احمد خان یوسف زیٔ کے دور میں بھی پختونخوا میں زمینوں پر جھگڑے جاری تھے، لیکن اُن کے ساتھی، مشیر اور وزیر شیخ ملی بابا، موصوف کے ساتھ تمام مسائل کے حل کے سلسلے میں مکمل تعاون کرتے تھے۔ محقق اور لکھاری نورالامین یوسف زیٔ اس حوالے سے کہتے ہیں: ’’ملک احمد خود بھی بہت زیرک اور ہوشیار آدمی تھے، لیکن جو کام ان کی ریاست میں شیخ ملی نے کیا ہے، وہ اس کے حوالے سے کم جانتے تھے اور وہ کام تھا زمینوں کی تقسیم (یعنی ویش)۔ قبیلوں کے نام بھی انہوں (شیخ ملی بابا) نے رکھے ہیں۔ ملک احمد بھی زمینوں کی تقسیم کے حوالہ سے شد بد رکھتے تھے مگر شیخ ملی جتنی پرکھ ان کی نہیں تھی۔ یہ جو اَب ہمارے ساتھ پٹوار سسٹم ہے، مغلوں کے بعد فرنگیوں نے بھی اسے جاری رکھا۔ اس لئے یہ بات اپنی جگہ ٹھیک ہے کہ شیخ ملی کافی ہوشیار آدمی تھے۔ خدا نے انہیں عمرِ دراز عطا کی تھی۔ وہ گجو خان دور تک مشورے دیا کرتے تھے۔ ظاہری بات ہے کہ مشیر ہونے کی اپنی ایک اہمیت اور حیثیت ہوتی ہے۔ مَیں بذات خود پختونوں کی تاریخ میں شیخ ملی کے مصالحت آمیز کردار کا بڑی حد تک قائل ہوں۔‘‘
نورالامین یوسف زیٔ آگے کہتے ہیں کہ ملک احمد خان اس بات پر یقین نہیں رکھتے تھے کہ بادشاہوں کی طرح اختیار ایک ہی خاندان کے پاس رہے۔ موصوف نورالامین یوسف زیٔ کے کہنے کے مطابق اس سے پہلے کہ وہ (ملک احمد خان) دارِ فانی سے کوچ کرجاتے، گجو خان کو قوم کی رہبری کے لئے خود چن لیا۔ گجو خان پختونوں کی تاریخ میں ایک روشن دماغ، تعلیم یافتہ اور اچھے حکمران گزرے ہیں: ’’ملک احمد خان نے ایک اور کمال یہ کیا ہے کہ اپنے بیٹے یا قریبی رشتہ دار کے بجائے مندنڑ ملک گجو خان کو سرداری کے لئے چن لیا۔ انہوں نے شیخ ملی کے ساتھ اس حوالہ سے مشورہ کیا کہ یہ شخص (گجو خان) بہادر بھی ہے اور ہوشیار بھی۔ جب گجو خان سے اس حوالہ سے بات کی گئی، تو انہوں (گجو خان) نے کہا کہ آپ کے جیتے جی میں زمامِ اقتدار نہیں سنبھال سکتا۔ لیکن جب ملک احمد خان انتقال کرگئے، تو پھر جرگہ بلوایا گیا اور جمہوری طریقہ سے گجو خان پختونوں کے سردار بن گئے۔ ملک احمد خان کی شخصیت کے کئی رُخ ہیں۔ دوسری بات یہ کہ ملک گجو خان کی سرداری میں پختونخوا ریاست اور بھی پھیل گئی۔‘‘
مؤرخین کی قیاس آرائی کے پیش نظر ملک احمد خان یوسف زیٔ سنہ 1530ء کو وفات پاگئے ہیں۔
(نوٹ:۔ یہ تحریر مشال ریڈیو کی شائع کردہ کتاب ’’اتلان‘‘ (پختو) کے مضمون ’’ملک احمد خان یوسف زیٔ‘‘ کا ترجمہ ہے، جس میں جہانزیب کالج کے پختو سانگہ کے پروفیسر عطاء الرحمان عطاءؔ نے مترجم کی معاونت فرمائی۔)