کھوسہ قبیلہ تاریخ کے آئینہ میں

کھوسہ ایک بہت اہم بلوچ قبیلہ جو دو الگ الگ تُمنوں میں منقسم ہے۔ ایک بالائی دریائے سندھ کے کنارے پر جیکب آباد کے قریب اور دوسرا ڈیرہ غازی خان کے قریب باتل کے مقام پر۔ انہیں نسلاً ہوت بتایا جاتا ہے۔
کہتے ہیں کہ اصل میں وہ کیچ میں آباد ہوئے تھے لیکن جہاں تک پنجاب کا تعلق ہے، تو بہاولپور کی ایک مخصوص تعداد کو چھوڑ کر وہ صرف ڈیرہ غازی خان میں پائے گئے۔ تاہم، سندھ میں ان کے پاس وسیع اراضی ہے جو ہمایوں نے انہیں فوجی خدمات کے صلہ میں عطا کی تھی۔ وہ سرحد کے نہایت طاقتور قبائل میں سے ایک ہیں اور اپنے سردار کے مطیع نہیں۔ انہیں ’’بہادر ترین بلوچی‘‘ تسلیم کیا جاتا ہے۔ وہ حقیقی رِند اور چھے قبیلچوں میں تقسیم ہیں۔ ببیلانی (یا بلیلانی) اور عیسانی اہم ترین ہیں۔ مؤخر الذکر کھیتران تخم سے ہے جو کھوسہ کے ساتھ منسلک ہے۔ دیگر چار میں جگیل، جندانی، جروار اور مہروانی شامل ہیں۔ سردار کا تعلق باتیل قبیلچہ سے ہے۔ منظم قبائل میں کھوسہ سب سے زیادہ محنتی اور اس کے ساتھ ساتھ ایک بدترین غیر قانونی کردار کا حال قبیلچہ بھی ہے جس کا نمبر گورچانی کے بعد آتا ہے۔ 1859ء میں میجر پولاک (Pollack)لکھتے ہیں: ’’کوئی ایسا کھوسہ شاذ و نادر ہی ملتا ہے جو مویشی چوری کے جر م میں جیل نہ کاٹ چکا ہو، یا اس کا مستحق نہ ہو۔ اور کوئی ایسا کھوسہ جس نے قتل نہیں کیا، یا اپنے ہمسائے کی بیوی کو ورغلایا نہیں، یا ہمسانے کے گھر کی حدود کو تباہ و برباد نہیں کیا وہ فیصلہ کن طور پر ایک زبردست نمونہ ہے۔‘‘یہ بیان اب بھی زیادہ مبالغہ آمیز نہیں لگتا۔
شوران کے رِندوں اور تِبی کے لُنڈوں کا ایک قبیلہ بھی کھوسہ ہے۔
جٹوں کا ایک قبیلہ جس کا ماخذ تور راجپوت بتایا جاتا ہے اور جنہیں چوہانوں نے دہلی سے باہر نکالا تھا۔ اس طرح لوٹے کھسوٹے لوگ کھوسے کہلائے۔ پنجابی میں کھُس جانے کا مطلب ’’چھِن جانا‘‘ ہے۔ وہ مقدس دھاگا جنیو پہنا کرتے تھے لیکن جٹوں سے تعلق داریاں بننے کے بعد اسے ترک کر دیا۔ وہ فیروز پور کی موگا تحصیل میں ملتے ہیں۔ ("ذاتوں کا انسائیکلو پیڈیا” (از ای ڈی میکلیگن/ ایچ اے روز مترجم یاسر جواد) شائع شدہ بُک ہوم لاہور کے صفحہ نمبر 343 سے ماخوذ)