معاشرے میں پھیلے بگاڑ، خرابیوں اور مسائل کے حل کے لیے ہم انفرادی طور پر کچھ نہیں کرسکتے…… لیکن ہم کم از کم اپنی اصلاح کرسکتے ہیں۔ اپنی خرابیوں کو ٹھیک کرسکتے ہیں۔اپنی زندگی کو شریعت کے مطابق ڈھالتے ہوئے، ریاستی قوانین کا احترام کرتے ہوئے، اپنی شخصیت کو بہترین اخلاق کا نمونہ بناتے ہوئے اطمینان بخش زندگی گزار سکتے ہیں…… اور پچھلے گناہوں کی کمی کوتاہیوں پر خوب توبہ استغفار کرتے ہوئے دونوں جہانوں کی کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔
رانا اعجاز حسین چوہان کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rana/
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ خالقِ کائنات اللہ عزو جل کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ غفور و رحیم ہے اور اُن لوگوں سے محبت کرتا ہے جو لوگ اس کی بارگاہ میں جھکتے ہیں۔ جب ایک مسلما ن زندگی میں گنا ہ کرتا ہے، غلطیاں کرتا ہے، ظلم کرتا ہے، لیکن وہ اللہ ربّ العزت کی بارگا ہ میں جھک جاتا ہے، راتوں کے آخری پہر اُٹھ کر اپنی جبیں خالقِ کائنات کے سامنے جھکا کر اپنی عاجزی اور گناہوں پر ندامت کا اظہار کرتا ہے، سجدوں میں روتا ہے، تو یقینا اُس کی توبہ قبول ہوجاتی ہے۔ کیوں کہ اندھیری رات کے آنسو خدا سے بات کرتے ہیں۔
بقولِ شاعر
ندامت کے چراغوں سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
اندھیری رات کے آنسو خدا سے بات کرتے ہیں
معاف کردینا بھی اللہ تعالا کا اپنے بندوں پر خصوصی انعام ہے۔ اگر وہ ہماری نافرمانیوں پر سزا دے، تب بھی اس سے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اللہ تعالا کے اس انعام و احسان سے کوئی شخص فائدہ نہ اُٹھائے، تو یقینا بد نصیبی کی بات ہے۔ محققین کے نزدیک کامل توبہ کی چند شرائط ہیں، جن پر عمل پیرا ہوکر ، انسان اللہ تعالا کی بارگاہ میں اپنے جملہ گناہوں، برائیوں اور نافرمانیوں سے شرمندہ اور تائب ہوکر اور آیندہ گناہ نہ کرنے کا عہد کرکے دنیا اور آخرت میں عذابِ الٰہی سے نجات حاصل کرسکتا ہے۔
٭ ندامت و شرمندگی:۔ توبہ کی بنیادی شرط یہ ہے کہ انسان اپنے گناہ، طور طریقوں اور برے اعمال پر شدید پشیمانی اور شرمندگی محسوس کرے، جو کہ درحقیقت برے کاموں سے کنارہ کشی کی طرف پہلا قدم ہے۔ ندامت کے صحیح ہونے کی علامات میں دل کا نرم ہو جانا اور کثرت سے آنسوؤں کا جاری ہونا ہے۔ کیوں کہ جب دل کو اللہ تعالا اور اللہ تعالا کے محبوب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی ناراضی کا احساس جکڑلے، اور بندے پر عذابِ الٰہی کا خوف طاری ہو جائے، تو یہ گریہ و زاری کرنے والا اور غم زدہ ہوجاتا ہے۔ اسی لیے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ’’ندامت ہی توبہ ہے۔‘‘
جمہور محققین کے نزدیک خالص ندامت ہی توبہ کی اصل ہے جو کہ خلوصِ دل سے کوشش کے بغیر ممکن نہیں۔
دیگر متعلقہ مضامین:
رزق کی کنجیاں  
شکر گزاری کو شعار بنائیں  
اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے  
اَن مول تحفہ  
امام مسجد صاحب کے نام کھلا خط 
٭ ترکِ گناہ و معصیت:۔ توبہ کی دوسری شرط ترکِ گناہ و معصیت ہے۔ برے فعل پر شرمندگی اور پشیمانی کے احساس کے بعد بندے کے دل میں گناہ ترک کرنے کا داعیہ جنم لیتا ہے، اور بندہ شرم محسوس کرتا ہے کہ اُس نے اللہ تعالا کی ایک کم زور اور حقیر ترین مخلوق ہوکر اُس کے ساتھ اپنے تعلق بندگی کی حیا نہ کی اور اس کے احکام کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا۔ یہ احساس ترکِ گناہ پر منتج ہوتا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’مومن جب کوئی گناہ کرتا ہے، تو اُس کے دل پرایک سیاہ نشان بن جاتا ہے۔ پھر اگر وہ توبہ کرلے اور گناہ سے ہٹ جائے اور استغفار کرے، تو اُس کا دل صاف ہوجاتا ہے…… لیکن اگر وہ ڈٹا رہے اور زیادہ گناہ کرے، تو یہ نشان بڑھتا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اُس کے پورے دل کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔‘‘
اللہ تعالا کا ارشاد گرامی ہے: ’’مگر وہ لوگ جنھوں نے توبہ کرلی وہ سنور گئے اور اُنھوں نے اللہ سے مضبوط تعلق جوڑ لیا اور اُنھوں نے اپنا دین اللہ کے لیے خالص کر لیا، تو یہ مومنوں کی سنگت میں ہوں گے اور عن قریب اللہ مومنوں کو عظیم اجر عطا فرمائے گا۔‘‘ (سورۃ النساء)
اس آیتِ مبارکہ کے الفاظ بندے کی توجہ اس طرف مبذول کروا رہے ہیں کہ اس کی سابقہ زندگی میں جس قدر بھی غلطیاں اور کوتاہیاں سرزد ہوئیں، وہ سچے دل کے ساتھ توبہ کا طلب گار بن کر اپنے گناہوں پر ندامت محسوس کرتے ہوئے گڑگڑا کر اللہ ربّ العزت کی بارگاہ سے عفو و درگزر کی دراخواست کرے۔
٭ توبہ پر پختہ رہنے کا عزم:۔ بندہ اللہ تبارک و تعالا کے حضور پختہ عہد کرے کہ جن نافرمانیوں، خطاؤں اور گناہوں کا ارتکاب وہ کرچکا ہے، آیندہ یہ اس کی زندگی میں کبھی داخل نہیں ہوں گے۔ کیوں کہ توبہ کی ابدی سلامتی کا انحصار اس پر ہے کہ وہ کس قدر اپنے عہد پر پختہ رہتا ہے۔ اس لیے پکا عزم کرے کہ آیندہ یہ گناہ ہر گز نہیں کروں گا۔ اس کے علاوہ حقوق العباد میں سے اگر کسی کے ساتھ ناانصافی یا ظلم کر بیٹھے، تو اولاً اُس کے حقوق ادا کرے اور اگر یہ توفیق نہیں پاتا، تو پھر اس سے معافی کا خواست گار ہو اور اللہ تعالا سے عفو و درگزر کے لیے دست بہ دعا رہے۔ اللہ تبارک و تعالا عالم الغیب ہے۔ اُس کے علم میں ہے کہ کون اپنی توبہ میں سچا اور کون جھوٹا ہے۔ حقیقی توبہ اُسی وقت ہوگی جب توبہ کے بعد گناہ کو بھی مکمل طور پر ترک کر دیا جائے۔ بلاشبہ صحیح توبہ وہی ہے جو انسان کے شب و روز، افعال و اعمال اور حالات و کیفیات کو یک سر بدل کر رکھ دے۔ بندہ عبادت و ریاضت کا پیکر بن جائے اور رضائے الٰہی کا حصول اُس کی خواہشات کا مرکزو محور بن جائے۔ توبہ اپنے محبوب کے ساتھ پھر سے جڑ جانے کا نام ہے، گناہ نے محبت کی حرمت کو مجروح کیا، تو گناہ گار احساسِ گناہ سے بوجھل ہو گیا۔ محبوب سے شرم آنے لگی۔ عفو و بخشش کی دعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے، تو ہاتھ کانپ گئے۔ پھر آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ ایسی ہی توبہ مقبول ہوتی ہے۔ حقیقی توبہ کے بعد بشری کم زوری کے باعث کسی بندے سے گناہ کا سر زد ہوجانا ممکن ہے، لیکن اگر وہ گناہ کرنے کے بعد 70 بار بھی صدق دل سے معافی مانگے، تو توبہ قبول ہوگی۔ لہٰذا ان سہل ترین شرائط پر عمل پیرا ہوکر انسان سچی توبہ کی برکات سے دائمی طور پر مستفیض ہو سکتا ہے۔
ہمیں چاہیے کہ اپنی اس قلیل زندگی کے ایک ایک لمحے کو نیکیوں سے قیمتی بنائیں اور جلد اپنے گناہوں سے کامل توبہ کریں۔ اس سے پہلے کہ توبہ کا وقت نہ رہے اور وقتِ قضا آجائے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔