خبر ملی کہ یونان جاتے ہوئے کچھ تارکینِ وطن راستے میں کشتی ڈوبنے سے ہلاک ہوگئے، جن میں پاکستانی 15، 20 افراد بھی شامل تھے۔ یہ اس سال کا سب سے بڑا حادثہ قرار دیا جارہا ہے، جس میں ہلاکتوں کی تعداد چھے سو کے قریب پہنچنے کا خدشہ ہے، جن میں بچے بھی شامل ہیں۔
ابو جون رضا کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/raza/
یہ خبر سن کر ماضی کی کچھ یادیں تازہ ہوگئیں۔ مَیں کراچی کے ایک غریب علاقے میں رہتا تھا، وہاں بہت سے نوجوان لڑکوں کے خواب بیرونِ ملک جاکر پیسا کمانے کے تھے۔ یورپ اور امریکہ کو وہ جنت سمجھا کرتے تھے۔ اس کے لیے وہ ’’ڈنکی فلائٹ‘‘ کا رسک لینے کو بھی تیار رہتے تھے۔ ڈنکی یا ڈونکی فلائٹ غیر قانونی طریقے سے کسی دوسرے ملک میں داخلہ ہونے کے طریقہ کو کہا جاتا ہے۔
میرے ایک اسکول کے دوست کو ہمیشہ سے شوق تھا کہ وہ پاکستان سے کسی طریقے سے باہر چلا جائے۔ اُس کا ماننا تھا کہ پاکستان میں کچھ نہیں رکھا۔ مستقبل بنانا ہے، تو انسان یورپ کے کسی ملک کی طرف نکل جائے۔ اُس نے بہت کوششیں کیں، مگر پیسوں کی وجہ سے مجبور ہوجاتا تھا۔ وہ کراچی میں اپنے چچا کے پاس رہتا تھا اور وہ ہولی فیملی اسپتال میں ڈرائیور تھے۔ تقریباً سنہ 2000ء کے آس پاس کی بات ہے کہ میرے دوست کو غیر قانونی طریقے سے یورپ میں داخل ہونے کے بارے میں علم ہوا۔ جو لوگ یہ کام کرتے تھے، وہ اس کے دور پار کے رشتہ دار تھے۔ اُن کی رہایش پہلے ہمارے علاقے ہی میں تھی اور اُن کا لکڑی کے فرنیچر بنانے کا کارخانہ تھا۔ انھوں نے اپنی کشتی خریدی تھی اور وہ یورپ میں غیر قانونی طریقے سے لوگوں کو اسمگل کیا کرتے تھے۔ مجھے صرف اتنا پتا چلا تھا کہ اُن صاحب کے وہ دو لڑکے باہر چلے گئے ہیں، جو کارخانہ چلاتے تھے۔ کارخانہ تو بند ہوگیا ہے، مگر سب سے چھوٹا بیٹا کرولا میں گھومنے لگا تھا۔ ہمیں بڑی حیرت ہوتی تھی کہ کہاں سے یکایک اتنا پیسا آرہا ہے؟
جب میرا دوست یورپ جارہا تھا، تو اُس نے مجھے بتایا کہ اُس کے چچا نے اسپتال سے قرضہ لے کر ان لوگوں کو پیسا دے دیا ہے اور وہ غیر قانونی طریقے سے یورپ میں داخل ہوگا۔ مَیں نے اُس سے کہا کہ یہ خطرناک کام ہے۔ اگر پکڑے گئے، یا کوئی حادثہ پیش آگیا، تو کوئی مدد نہیں کرسکے گا…… لیکن بقول اُس کے، اتنے لوگ جاچکے ہیں، کوئی مسئلہ نہیں ہوتا اور رسک تو لینا پڑے گا اگر زندگی اچھی گزارنی ہے، تو……!
پھر کچھ عرصے بعد خبر آئی کہ جو صاحب غیر قانونی طریقے سے ہیومن ٹریفکنگ کا دھندا سالوں سے کامیابی سے چلا رہے تھے، ان کی کشتی کو حادثہ پیش آگیا اور تقریباً سبھی افراد جو کشتی میں سوار تھے، ڈوب گئے۔ اُس کشتی میں اُن صاحب کے دو جوان بیٹے بھی شامل تھے۔ اُن کے گھر پر ایف آئی اے کا چھاپا پڑا اور چھوٹے بیٹے کو پولیس پکڑ کر لے گئی، جو بہت پیسا کھلا کر رہا ہوا۔ اُس کی ماں دو جوان بچوں کے غم میں پاگل ہوگئی اور باپ کو دل کا دورہ پڑگیا۔ یوں ہنستا بستا گھر اُجڑ گیا اور ساتھ میں کتنے ہی گھروں میں اُداسی کے ڈیرے ڈال گیا۔
مجھے ان صاحب کے قریبی ذرائع نے بتایاکہ جس رات یہ کشتی ڈوبی، وہ اُن لوگوں کا آخری چکر تھا۔ رات بہت سرد تھی اور سمندر طوفانی لگ رہا تھا۔ کشتی میں 25 افراد کے بیٹھنے کی گنجایش تھی، لیکن اس میں تقریباً 50 افراد بھر لیے گئے تھے۔ اُن صاحب کے بیٹوں نے احتجاج کیا، تو انھوں نے کہا کہ یہ آخری ٹرپ ہے۔ اس کے بعد یہ کام ختم کرو اور تم بھی یورپ نکل جاؤ اور وہیں رہنا۔ پیسا بہت کما لیا۔ اب عیش کرو۔ اُسی رات طوفان آیا اور کشتی اُلٹ گئی ۔ کوئی ایک شخص بھی زندہ نہیں بچا۔
قارئین! ڈنکی طریقے سے کشتیوں میں یورپ جاتے ہوئے بھی کم از کم 25،30 لاکھ روپے لگ جاتے ہیں۔ جان جانے کا خطرہ بھی ہوتا ہے اور پھر 10، 20 سال یورپ میں غیر قانونی شہری کی طرح چھپ کر رہنا پڑتا ہے۔ آدھی تنخواہ پر کام ملتا ہے اور ذلت الگ اٹھانی پڑتی ہے۔ اس سے بہتر ہے کہ انسان روکھی سوکھی کھالے، یا پھر تمام اثاثہ جات بیچ کر قرض ادھار کرکے قانونی طریقے سے کسی ملک میں داخل ہو…… تاکہ جان کو خطرہ نہ ہو اور بوڑھے والدین یا بیوی بچوں کو ڈیڈ باڈی کے لیے وزارتِ خارجہ کے چکر نہ کاٹنے پڑیں۔
دعا ہے کہ اللہ ہمارے ملک اور ہمارے نوجوانوں پر اپنا خاص رحم و کرم فرمائے، آمین!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔