’’پیسا‘‘ (ہندی، اسمِ مذکر) کا املا عام طور پر ’’پیسہ‘‘ لکھا جاتا ہے۔
’’فرہنگِ آصفیہ‘‘، ’’نوراللغات‘‘ اور ’’جہانگیر اُردو لغت (جدید)‘‘ کے مطابق دُرست املا ’’پیسا‘‘ ہے۔ ’’علمی اُردو لغت (متوسط)‘‘ نے ’’پیسا‘‘ کے ساتھ ’’پیسہ‘‘ بھی رقم کیا ہے مگر محاورات میں ’’پیسا‘‘ کو ترجیح دی ہے۔ ’’جدید اُردو لغت (طلبہ کے لیے)‘‘ میں صرف ’’پیسہ‘‘ درج ہے۔ صاحبِ نور یہ گتھی یوں سلجھائی ہے: ’’فارسی میں پیسہ۔ روپیہ زر کے معنوں میں ہے۔‘‘
’’پیسا‘‘ کے معنی ’’تین پائی کا سکہ‘‘، ’’دولت‘‘، ’’دولت مندی‘‘ اور ’’مال و زر‘‘ کے ہیں۔
’’اُردو املا‘‘ از رشید حسن خان (مطبوعہ ’’زبیر بکس‘‘، سنہ اشاعت 2015ء) کے صفحہ نمبر 92 پر ’’پیسا‘‘ ہی درج ہے۔
اس طرح صاحبِ نور نے ’’پیسا‘‘ کے املا پر حضرتِ جان صاحب کے کئی اشعار درج کرکے گویا مہرِ تصدیق ثبت کی ہے۔ مشتے نمونہ از خروارے کے مصداق ایک شعر ملاحظہ ہو:
نام پھر حاتم کا جاگاسوم خلقت ہوگئی
اُڑ گیا دنیا سے پیسا کم سخاوت ہوگئی