تبصرہ نگار: منیر فراز 
ناروے میں مقیم شگفتہ شاہ صاحبہ نے اپنی ترجمہ کی ہوئی کتاب ’’ناروے کی لوک کہانیاں‘‘ بڑے خلوص و اہتمام کے ساتھ مجھے بھیجی ہے۔ یہ چند مہینوں میں اُن کی ترجمہ کی ہوئی دوسری کتاب ہے، جو غیر ملکی ادب کے تراجم پڑھنے والوں کی ’’بُک شلف‘‘ کی زینت بنی ہے۔ اِس سے پہلے 2022ء میں وہ نارویجین کی نوبل انعام یافتہ مصنفہ ’’سگرید اُندسیت‘‘ کے ناول ’’ینی‘‘ کا ترجمہ کتابی شکل میں پیش کرچکی ہیں۔
’’ناروے کی لوک کہانیاں‘‘ جیسا کہ کتاب کے ٹائٹل سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ناروے کی لوک کہانیاں ہیں، جسے اُردو قالب میں ڈھالا گیا ہے۔ کتاب میں شامل چند کہانیاں مَیں نے ’’عالمی ادب کے اردو تراجم‘‘ فیس بُک گروپ میں پڑھی تھیں اور مَیں اس منفرد اور مختلف کام سے بہت متاثر ہوا تھا ۔ اب ایک مکمل کتاب کی صورت میں اِن کہانیوں کو دیکھا اور کتاب کے ورق پلٹ کر اُنھیں پڑھا، تو یہ مجھے زیادہ پُر تاثیر محسوس ہوئیں۔
شگفتہ شاہ کے فنِ ترجمہ پر اِس کتاب سے جو نکھار آیا ہے، وہ اُنھیں بطورِ مترجم مزید آگے کی طرف لے گیا ہے۔ کیوں کہ کسی بھی زبان کے لوک ورثہ پر مترجم کی حیثیت سے کام کرنے کا مطلب یہ ہوا کہ اب ترجمہ نگار اپنے سابقہ ادبی تراجم کی فضا سے باہر آکر ایک نئے ماحول میں خود کو پیش کرے گا، جس میں زبان و محاورہ نہ صرف قدرے مختلف، بلکہ پیچیدہ بھی ہوں گے اور اس کا ، جس زبان سے وہ ترجمہ کر رہا ہے، اُس زبان کی جڑوں سے واسطہ پڑے گا۔ شگفتہ شاہ نے یہ مراحل کامیابی سے طے کیے ہیں۔
لوک کہانیاں ظاہر ہے تمام معاشروں میں قصے کہانیوں کے سے انداز اور مافوق الفطرت واقعات کے حوالے سے یکساں تصور کی جاتی ہیں اور اُن کا اُسلوب بھی یکساں ہوتا ہے، لیکن اُن میں جو زباں، علامتیں اور استعارے استعمال کیے جاتے ہیں، وہ بہر حال زمان و مکاں کے حوالے سے مختلف ہو جاتے ہیں۔ یہ ایسی کہانیاں ہوتی ہیں جو بادی النظر میں بچوں کے لیے لکھی جاتی ہیں، لیکن اِن میں اُن معاشروں کا جوہر پوشیدہ ہوتا ہے جس سرزمیں سے یہ جنم لیتی ہیں۔ اِس تناظر میں دیکھیں، تو شگفتہ شاہ نے بڑی مہارت سے اُن کہانیوں کو ترجمہ کیا ہے۔ وہ کیوں کہ ایک طویل عرصہ سے ناروے میں سکونت پذیر ہیں، اُس معاشرے کے رسم و رواج، رہن سہن، زبان و ادب سے واقف ہیں، اس لیے اُن کے تراجم میں اُردو زباں کے ساتھ نارویجین ثقافت کی بُو محسوس ہوتی ہے۔ کتاب کا پیش لفظ شگفتہ شاہ ہی کے قلم سے تخلیق ہوا ہے، جس میں اُنھوں نے لوک کہانیوں کی اہمیت کو اُجاگر کیا ہے اور اُن مرتبین کے فن و تحقیق کا اِحاطہ کیا ہے جنھوں نے یہ کہانیاں نارویجین زبان میں محفوظ کیں۔
’’ناروے کی لوک کہانیاں‘‘ نارویجین لٹریچر ابروڈ "NORLA”کے مالی تعاون سے شائع کی گئی ہے۔ اس لیے کتاب کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے کہ اس کام کو ناورے کی کسی ادبی یا سرکاری تنظیم کی سرپرستی حاصل ہے۔ گویا یہ کتاب نارویجین حکام یا وہاں کے لوگوں کے علم میں لائی گئی ہے۔ یہ مترجم کے لیے بھی اعزاز ہے۔ اِس حوالے سے میں اِس کتاب کی اہمیت پر بے حد مطمئن و مسرور ہوں۔
کتاب میں کُل 24 کہانیاں ہیں اور یہ اُن کہانیوں سے منتخب کی گئی ہیں جو ناروے کے دو مشہور ادیبوں ’’آس بیورسن‘‘ اور ’’یورگن مو‘‘ نے 19ویں صدی کے آغاز میں جمع کی تھیں اور اُنھیں سنہ 1871ء میں کتابی شکل دی گئی تھی۔ چناں چہ یہ ایک تحقیقی کام بھی ہے اور تخلیقی بھی۔ ترجمہ اس کتاب کی تیسری جہت ہے اور یہ بلاشبہ تحقیق اور تخلیق کے ہم پلہ ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ اس کتاب کو پاکستانی سرکار کی سرپرستی بھی حاصل ہونی چاہیے اور اسے دیگر تراجم سے الگ کرکے ہر دو ممالک کے ثقافتی ورثہ کے خانے میں رکھا جائے۔
کتاب ’’سٹی بک پوائنٹ کراچی‘‘ نے شائع کی ہے۔ کتاب کا سرورق و طباعت دیدہ زیب ہے اور کاغذ انتہائی معیاری ہے۔ اچھا اور معیاری ادب پڑھنے والوں کے لیے یہ ایک اہم کتاب ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔