آپ نے مشاہدہ کیا ہوگا کہ گرمیوں میں اکثر کئی مہمان یہاں (بحرین، سوات) آتے ہیں، تو اپنی گاڑی کے اوپر ایک بڑا لاؤڈسپیکر رکھ کر آتے ہیں۔ اُس کے ذریعے اونچی آواز میں موسیقی لگاتے ہیں، جو ایسی سماعت خراش ہوتی ہے کہ اس گاڑی کے شیشے توڑنے کو جی چاہتا ہے۔
زبیر توروالی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/zubair-torwali/
آپ نے یہ بھی مشاہدہ یا اس کا تجربہ ہی کیا ہوگا کہ بسااوقات آپ گاڑی میں بیٹھے ہیں اور ایسے میں آپ گاڑی کے لاؤڈسپیکر کی آواز کو یوں ہی بغیر کسی واضح وجہ مزید اونچا کرتے ہیں۔
یہ بھی مشاہدہ کیا ہوگا کہ کئی نوجوان گرمیوں میں پہاڑی چراگاہوں پہ جاکر تیز آواز میں موسیقی سننے کی کوشش کرتے ہیں۔
آپ نے یہ بھی روز مشاہدہ کیا ہوگا کہ اکثر دو مساجد میں چند گز کے فاصلے پر ہونے کے باوجود بھی مسلسل اپنے اپنے لاؤڈسپیکر پر تقاریر دیر تک جاری رہتی ہیں۔
یہ بھی مشاہدہ کیا ہوگا کہ اگر ایک مسجد میں کوئی تقریب ہوئی ہے، تو اگلے روز کسی اور مسجد میں کوئی تقریب ہوگی۔
آپ نے یہ بھی مشاہدہ کیا ہوگا کہ ہمارے کئی نوجوان پہاڑوں پہ صرف اس لیے جاتے ہیں، تاکہ وہ وہاں پینٹ شرٹ پہن سکیں۔
اور یہ بھی مشاہدہ عام کیا ہوگا کہ گھروں میں اکثر خواتین پر ایک کیفیت طاری ہوجاتی ہے، جس کو ہم کہتے ہیں ’’پیر ائی‘‘ یا ’’بن سی سے ائی‘‘۔ مطلب اس خاتون پر جنات نے حملہ کیا ہے۔ خاتون کی حالت ایسی ہوجاتی ہے کہ اس کو سنبھالنا مشکل ہوجاتا ہے۔ لڑکے بھی ایسے دوروں کے شکار ہوجاتے ہیں۔
آپ نے یہ بھی اکثر سنا ہوگا اور اس کا مشاہدہ بھی کیا ہوگا کہ کوئی کسی کے خلاف آہستہ آہستہ کسی کے کان میں کچھ کہتا رہتا ہے۔ ایسا کہنے کے لیے کسی جگہ کو دیکھا جاتا ہے، نہ اس کے اردگرد ماحول کو۔ مطلب ایسا دیروں میں، بازاروں میں اور مساجد میں بھی کیا جاتا ہے۔
یہ ساری مثالیں ہماری دو طرح کی نفسیات کے مظاہر ہیں۔ اِن کا تعلق گھٹن، بے بسی اور طاقت و کم تری سے ہے۔ گھٹن کیا ہوتا ہے؟ کبھی دم گھٹنے کا دورہ تو پڑا ہوگا۔ گھٹن وہ کیفیت ہوتی ہے، جہاں آپ کو لگتا ہے کہ آپ کی بات کوئی نہیں سنتا۔ آپ کو کوئی نہیں سمجھ پاتا اور اگر آپ کچھ کہیں گے، تو آپ پر بہت تنقید ہوگی، بلکہ آپ کو مار بھی دیا جاسکتا ہے۔ اس خوف کی وجہ سے آپ کے سارے جذبات اندر مقید رہتے ہیں۔ یہ ایک طرح کا لاوا بن جاتے ہیں۔ یہ سلسلہ معاشرے میں سکول، مدرسے اور گھر سے شروع ہوتا ہے اور پورے معاشرے میں جاری رہتا ہے۔ یوں اس مرض کا بالا درجہ ’’ہیسٹریا‘‘ کہلاتا ہے، جہاں انسان ان جذبات کو دباکر ایک اور طرح کی اذیت لوگوں کو دینا چاہتا ہے۔ ہم اس کیفیت کو ’’پیر آنا‘‘ یعنی جنات کا حملہ کہتے ہیں۔ گھٹن اور بے بسی کی وجہ سے ایسا کیا جاتا ہے۔
اب یہ انفرادی گھٹن وسیع ہوکر معاشرتی گھٹن بن جاتی ہے۔ معاشرتی سطح پر بھی آپ چیخنا چاہتے ہیں اور اپنی بات کہنا چاہتے ہیں، لیکن کوئی موقع نہیں ملتا۔ اس لیے جب کسی صورت میں ایسا موقع ملتا ہے، تو آپ اس گھٹن کا اس طرح اظہار کرتے ہیں جہاں آپ کو لگتا ہے کہ آپ طاقت ور ہیں…… یعنی گاڑی کے اوپر لاؤد سپیکر لگا کر اونچی آواز میں موسیقی سننا۔ یہ ایک لحاظ سے اپنی اس بے بسی سے نکل کر طاقت کا اظہار ہوتا ہے، جہاں آپ اپنے وجود کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، مگر کوئی اس کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔
ایسا اکثر جرگوں میں بھی ہوتا ہے کہ کوئی فرد بغیر کسی مطلب کے بس کچھ کہتا ہے، تاکہ اس کے سماجی وجود کا احساس لوگوں کو ہو۔ مساجد میں لاؤڈ سپیکر پر تقاریر بھی اسی دوڑ میں آتی ہیں۔ ہر مولوی اپنے سماجی اور مذہبی وجود کا اظہار کرنا چاہتا ہے۔ یہاں اُن کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہوتا کہ لوگ کسی بات کو سمجھیں، بلکہ یہ اندر کی کیفیت کا اثر ہوتا ہے۔
لاؤڈسپیکر سامنے ہو، تو طاقت جو کہ آواز سے ظاہر کی جاتی ہے، چار گنی ہوجاتی ہے اور پیچھے بیٹھے اُس شخص کو لگتا ہے کہ بس دنیا اُس کے سامنے سرنگوں ہے۔
اسی طرح جن معاشروں میں جو چیز معیوب سمجھی جاتی ہے، یا اُس کا برا مانا جاتا ہے، تو وہاں لوگ ویرانوں کا رُخ کرکے اپنے اس خواہش کو پوری کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارے نوجوانوں کو لگتا ہے کہ وہ بھی کبھی کبھار ایک اور طرح کا لباس یعنی پینٹ شرٹ پہنیں، مگر خوف یہی ہوتا ہے کہ اگر پہنیں گے، تو لوگ پاگل یا انگریز سمجھ کر تنقید کا نشانہ بنائیں گے۔ اس لیے اپنی یہ خواہش پوری کرنے وہ پہاڑوں کا رُخ کرتے ہیں۔ یہاں تو کالے چشمے پہننا بھی لوگوں کو کھٹکتا ہے۔
اسی طرح چغلی ہمارا اہم سماجی کھیل ہے۔ اس کے بغیر ہماری محفلیں ماند پڑ جاتی ہیں۔ یہ بے بسی اور کم تری کا احساس ہے، جو ہمیں دوسروں کی چغلی کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ مدمقابل سے مقابلہ نہ کرسکنے کی صورت میں ہم اس کے خلاف عجیب عجیب باتیں کرتے ہیں۔ سماج کے بااثر افراد سے ملتے ہیں، جہاں مذہب کا مسالا ڈالنا ممکن ہو، وہی پہ مولوی کے کان بھی بھرتے ہیں۔ اپنی قریبی اور ہم پیشہ و ہم خیال گروہوں کے اندر چغلی کرکے اپنے اس شکستہ انا کی تسکین کرتے ہیں۔
ہم ایک معاشرہ نہیں بلکہ پاگل خانہ ہیں، جہاں ہر طرف بے معنی شور ہے، چیخ و پکار ہے اور ایک ہنگامہ ہے۔ جہاں ہر ایک زور زور سے چیختا دھاڑتا ہے، تاکہ اپنے وجود کا احساس دلا سکے۔ معاف کیجیے، اس پاگل کو اس شور میں کوئی اقدار، علم و تعلیم یا اخلاص نہیں دکھتا۔ بھلا پاگلوں میں ایسی خاصیتیں کہاں ہوتی ہیں۔ مَیں بھی پاگل ہوں۔ حل یہی ہے کہ جہاں آپ لوگ لاؤڈ سپیکر سے تنگ آرہے ہیں، ایک اور لاؤڈ سپیکر لگا کر اپنا شور مدِ مقابل سے اونچا کیجیے گا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔