علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیم و تربیت ایسے اسلامی اور دینی ماحول میں ہوئی تھی کہ نبی مکرم صلّی اللہ علیہ و سلّم کی محبت ان کی شریانوں میں خون بن کر گردش کرتی تھی۔
بخاری اور مسلم کی ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ آپ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے ارشاد فرمایا کہ تمھارا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا، جب تک کہ میری محبت تمھارے دل میں تمھاری اولاد، والدین اور پورے انسانی کنبے کی محبت سے بڑھ کر نہ ہو۔
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/
اس حدیث کے واضح مفہوم پر ایمان رکھتے ہوئے علامہ اقبال حبِ نبوی اور عشقِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ایمان کی بنیاد اور اساس تصور کرتے تھے۔
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نام مبارک زبان پر آتے ہی یا کانوں میں پڑتے ہی اقبال کے احساس و شعور میں سوز و گداز کی برقی لہر دوڑ جاتی اور پُرنم آنکھوں میں آنسوؤں کی جھڑی لگ جاتی۔ ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم لکھتے وقت قلم چلتا، تو روح پر وجد کی کیفیت طاری ہو جاتی۔
وہ دانائے سبل ختم الرسل مولائے کل جس نے
غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادیِ سینا
نگاہِ عشق و مستی میں وہی اوّل وہی آخر
وہی قرآں، وہی فرقاں، وہی یاسیں، وہی طہ
یوں تو علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا سارا کلام عشق و مستی میں ڈوبا ہوا ہے، مگر جو ذوق و شوق اور وجد آفرینی ان کی نعت ’’ذوق و شوق‘‘ میں موجود ہے، اُس کی نظیر کہیں نہیں ملتی۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مدح سرائی کا کیا خوب صورت انداز ہے:
لوح بھی تُو قلم بھی تُو تیرا وجود الکتاب
گنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب
عالمِ آب و خاک میں تیرے ظہور سے فروغ
ذرہِ ریگ کو دیا تُو نے طلوعِ آفتاب
شوق اگر تیرا نہ ہو میری نماز کا امام
میرا قیام بھی حجاب میرا سجود بھی حجاب
علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کارزارِ حیات میں عشق اور محبت کی تاثیر کے قائل تھے۔ عشق ہی آدابِ خود آگاہی سکھاتا ہے، اسی سے خودی کو استحکام ملتا ہے اور ہر عمل کو عشق ہی دوام بخشتا ہے۔ عشق سے ہی زندگی کو آب و تاب ملتی ہے اور اسی سے ہی زندگی کی تاریک راہیں روشن ہوتی ہیں۔ علامہ اقبال عشق کی تاثیر اور پاکیزگی کے حوالے سے کہتے ہیں۔
عشق دمِ جبرائیل عشق دلِ مصطفٰی
عشق خدا کا رسول عشق خدا کا کلام
دیگر متعلقہ مضامین:
اقبال کا مردِ مومن 
اقبال کا فلسفۂ خودی  
علامہ محمد اقبال کا فلسفہ
علامہ اقبال کا عشقِ رسولؐ 

علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا دل عشقِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے معمور تھا۔ عشقِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی روشنی سے ان کے دل کی پوری کائنات منور تھی۔ ذاتِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ اُنھیں جو والہانہ عقیدت تھی، اُس کا اظہار اُن کی چشمِ نم ناک اور دیدہِ تر سے ہوتا تھا کہ جہاں کسی نے اُن کے سامنے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نام لیا، اُن پر جذبات کی شدت اور رقت طاری ہوگئی اور آنکھوں سے بے اختیار سیلِ رواں جاری ہوگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نام آتے ہی یا ذکر چھڑتے ہی اقبال رحمۃ اللہ علیہ بے قابو ہو جاتے تھے۔ اقبال کی شاعری کا خلاصہ، جوہر یا لُبِ لباب عشقِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہے۔
علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے عشقِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اظہار اپنی شاعری میں بہت سے مقامات پر کیا ہے۔ اپنی اُردو شاعری میں اُنھوں نے حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بہت سے ناموں سے یاد کر کرکے اپنی والہانہ عقیدت اور چاہت کا اظہار کیا ہے۔ چند اسمائے مبارک ذیل میں ملاحظہ ہوں: محمد، احمد، رسولِ عربی، رسولِ ہاشمی، دانائے سبُل، ختم الرّسل، مولائے کُل، مولائے یثرب، قرآں، فرقاں، یاسیں، طہ، مدفونِ یثرب، میرِ عرب، بدرو حنین کے سردار، نبیِ مرسل، شہِ یثرب، رسولِ امیں، رسولِ مختار، نبیِ عفت، حضور رسالت مآب، رحمتہ اللعالمین، صاحبِ مازاغ، حضورسرورِ عالم، رفعت شان، ورفعنا لک ذکرک۔
ان کے علاوہ بھی ڈھیر سارے اسما ہیں، جنھیں اقبال رحمۃ اللہ نے اپنی شاعری میں استعمال کرکے عقیدت کے پھول بحضورِ سرورِ کونین، محمدِ مصطفٰی، احمدِ مجتبیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پیش کرنے کی سعادت حاصل کی ہے۔
ان اسما اور القابِ مبارکہ کے استعمال سے جہاں علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری کے حسن میں اضافہ ہوا ہے، وہاں علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عقیدت و محبت کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اسم مبارک محمد کا استعمال دیکھیں:
قوّتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسمِ مُحَمَّد سے اجالا کر دے
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روحِ مُحَمَّد اس کے بدن سے نکال دو
علامہ اقبالؒ کا یہ شعر تو زبانِ زدِ عام ہے
کی مُحَمَّد سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے یورپ میں ایک طویل عرصہ گزارا۔ وہاں قدم قدم پر بہکنے اور صراطِ مستقیم سے ہٹنے کے تمام تر لوازمات اپنی پوری چمک دمک کے ساتھ موجود تھے، مگر یہ عشقِ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فیض ہی تھا کہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نہ تو دینِ محمدی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے منحرف ہوئے اور نہ افرنگی جلووں کی چکاچوند اُنھیں متاثر کر سکی۔ اُن کی اقدار اور افکار میں ذرا بھر بھی تبدیلی نہ آئی۔ اسی لیے جب وہ یورپ سے لوٹے، تو پہلے ہی کی طرح عشقِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سرشار تھے۔ تبھی تو فرماگئے ہیں:
خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہِ دانشِ فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔