شوکت صدیقی کے اس ناولٹ (’’غمِ دل اگر نہ ہوتا‘‘ 1950ء) کا ہیرو رندھیر ہے اور اندھیری سرد رات میں، بارش میں بھیگتا، کمودنی کے گھر پناہ لیتا ہے۔ وہ کامریڈ ہے۔ اخبار اور لٹریچر فروخت کرتا ہے اور مل میں مزدوری بھی کرتا ہے۔ کمودنی، امیر کبیر خاتون ہے مگر خوشیوں سے محروم ہے۔ ہر وقت اُس پر اُداسی چھائی رہتی ہے۔ وہ زندگی میں کوئی بڑا کام کرنا چاہتی ہے اور زندگی کو پُرجوش بنانا چاہتی ہے۔
’’اسی دن دوپہر کی ٹرین سے وہ گھر پہنچ گیا۔ رات ہو چکی تھی او رتنگ کمروں والے مکان پر ایک ہولناک ویرانی چھائی ہوئی تھی۔ جہاں اُس کا باپ مرا تھا، وہاں پر ایک دھندلا سا چراغ جل رہا تھا اور اُس کے قریب ہی اُس کی ماں مُردوں کی طرح خاموش بیٹھی تھی اور اُس کی بہن اور دونوں چھوٹے بھائی بلک بلک کر رو رہے تھے۔ چراغ کی مدہم روشنی میں ان سب کے چہرے سایوں کی طرح دُھندلائے نظر آرہے تھے اور ان دُھندلے سایوں میں رندھیر بیٹھا ہوا سوچ رہا تھا کہ یہ صرف ایک پتی ہی کی موت نہیں ہے یہ صرف ایک باپ ہی کی موت نہیں ہے جو ان اُداس چہروں سے بچھڑ گیا اور اس کے ساتھ ہی تریسٹھ روپے ماہوار کی آمدنی بھی بچھڑ گئی۔‘‘
ٹھیک کہا جاتا ہے کہ ہم مرنے والے کو نہیں اپنی ضرورتوں کو روتے ہیں جو ہمارے ہم زبان نہیں، جو ہمارے ہم وطن نہیں، جو ہمارے ہم مذہب نہیں، ہمیں اُن کا دُکھ اپنا دُکھ محسوس نہیں ہوتا۔ حالاں کہ انسانیت کے ناتے ہر انسان کا فرض دوسرے انسان کا احساس کرنا ہے :
’’اور ان نغموں میں رندھیر کو کمودنی کوئی مقدس دیو داسی معلوم ہونے لگی اور سبکسار خوابوں سے ڈھکا ہوا کمرہ اجنتا کا کوئی غار معلوم ہونے لگا اور اچانک یہ فضا، یہ سحر، یہ خواب درہم برہم ہوگئے۔ کمرے میں حسبِ معمول ہنستا ہوا کیپٹن شیام آگیا اور کمودنی اُس کے ساتھ گھومنے چلی گئی۔ حالاں کہ رندھیر چاہتا تھا کہ وہ نہ جائے۔ وہ اسی طرح پیانو پر نغموں کا جادو جگاتی رہے اور اُس کا چہرہ مقدس دیو داسیوں کی طرح جھلکتا رہے۔ لیکن وہ کیپٹن شیام کے ساتھ چلی گئی۔ اس لیے کہ وہ کیپٹن شیام تھا اور رندھیر صرف رندھیر تھا۔‘‘
سماجی فرق تو کسی دور میں بھی ختم نہ ہوسکا۔ اس نے اپنی شکل بدل لی۔ پردے کے پیچھے چلا گیا مگر کسی نہ کسی شکل میں زندہ رہا۔ یہ طریقۂ کار دنیا کے ہر ملک میں کسی نہ کسی طرح پنپ رہا ہے۔ مساوات صرف نعرہ برائے نعرہ ہے۔ رندھیر لاٹھی چارج میں اپنی آنکھ ضائع کروا بیٹھا۔ کمودنی نے اُسے ہمدردی اور توجہ تو دی مگر اُس کا سماجی مرتبہ تو وہی رہا۔ کمودنی کے گھرپُرتعیش ماحول میں رہنے کی خبریں ساتھیوں کی زبانی آگے سے آگے پہنچ گئیں۔ رندھیر کے دوستوں نے اُس پر طنز کے تیر برسائے۔ رندھیر نے بھی کمودنی کے گھر سے باہر نکل کر دیکھا، تو وہ ان دنوں کے بعد اندر ہی اندر سے خاصا بدل گیا تھا۔ وہ جنگل کے شیر سے سرکس کا شیر بن چکا تھا جسے خود شکار کر کے کھانے کی بجائے راشن نصیب ہو تا تھا۔
کمودنی نے اُس کے حق میں میٹھے زہر والا کردار ادا کیا تھا۔
’’لیکن اب رندھیر اکثر کام سے گھبرانے لگا تھا۔ اُس کے وجود میں جو تیز آنچ دہک رہی تھی وہ جیسے دھیمی پڑتی جا رہی تھی اور اسی دوران اُسے سہارن پور جا کر ریلوے کے مزدور کامریڈز کے ساتھ سہارن پور چلا گیا۔ یہاں اُسے ایک مزدور کے ساتھ رہنا پڑا۔ اس لیے کہ یہاں باقاعدہ پارٹی آفس نہ تھا۔ وہ ایک آرگنائزر کی طرح وہاں گیا تھا لیکن تھوڑے ہی دنوں بعد دونوں کامریڈز کو واپس بلا لیا گیا اور وہ تنہا رہ گیا۔‘‘
رندھیر کی تو صرف آنکھ ہی ضائع ہوئی تھی جلوس میں۔ اُس کا قریبی دوست مُرلی تو پولیس فائرنگ سے مارا گیا۔ اُس کے گھر والوں نے بھی وہی دُکھ دیکھا جو رندھیر نے اپنے باپ کے مرنے پر دیکھا تھا یعنی گھر کے کفیل کے مر جانے کا دُکھ۔ رندھیر کے لیے دنیا میں کوئی خوشی نہ تھی۔ وہ بھی زندگی سے بے زار ہوتا چلا جا رہا تھا۔ اس بے چینی او رمایوسی کے عالم میں وہ کئی دنوں بعد کمودنی کی طرف چلا گیا :
’’رندھیر ایک دم سے چونک پڑا : ’’کچھ بھی بُرا نہیں ہوا۔ وہ مرا نہیں وہ زندہ ہے۔ ایسے لوگ کبھی مرا نہیں کرتے۔ ہاں، مَیں مر گیا ہوں۔ مَیں نے خودکشی کی ہے۔ مَیں اپنے ساتھیوں سے بچھڑ گیا ہوں۔ پوچھو یہ کیوں ہوا، یہ کیوں ہوا؟ اور پھر اُس کا لہجہ اور تیز ہوگیا۔ اس لیے کہ مَیں نے تم سے نفرت کرنا چاہی، تم سے تمہارے ماحول سے، تمہارے طبقے سے مگر میں نفرت نہ کرسکا۔ میں اپنے مقصد سے ہٹ گیا اور پھر یک بارگی اُس نے دیوانوں کی طر ح اُٹھ کر کمودنی کو اپنے بازوؤں میں بھینچ لیا اور اُسے وحشت ناک نظروں سے دیکھنے لگا ۔ کمودنی بدحواس ہو کر اُس کے بازوؤں میں مچلنے لگی: ’’چھوڑ دو مجھے۔ مجھے چھوڑ دو۔ نہیں تو مَیں چیخ کر سب کو اکٹھا کر لوں گی۔‘‘ رندھیر اسی طرح وحشت ناک نظروں سے اُسے گھورتا رہا۔ ضرور چیخو، اتنا چیخو کہ ساری دنیا یہاں اکٹھی ہو جائے اور پھر لوگ دیکھیں کہ مَیں کتنا بزدل ہوں، کتنا نکما ہوں، کتنا فرسٹرٹیڈ ہوں، چیخو! ضرور چیخو، تاکہ مجھے میری سزا مل جائے۔‘‘ اُس کی آواز تیزی سے کمرے کے اندر گونجتی رہی اور مُرلی کی ارتھی کا جلوس گزرتا رہا۔ جس کے ساتھ مزدور تھے، انقلابی نعرے تھے اور یہ شور یہ آوازیں شاہراہوں پر دھڑکتی رہیں، گرجتی رہیں۔‘‘
شوکت صدیقی انقلابی سوچ رکھنے والے ترقی پسند رائٹر تھے۔ وہ ساری زندگی اپنے نظریات پر کاربند رہے۔ عوام دوست رہے۔ انہوں نے مزدور کی بات کرنے کو اپنی پہچان بنالیا۔
شوکت صدیقی کے اسلوب کی بنیادی شناخت یہ ہے کہ وہ زنانہ کرداروں کو بہت کم اپنی تحریروں میں جگہ دیتے ہیں۔ وہ غریب انسان اور اُس کے دُکھوں کی بات کرتے ہیں۔ وہ معاشرے سے ظلم، جبر اور ناانصافی ، چاہے وہ کسی بھی شکل میں ہو خاتمہ چاہتے ہیں۔
شوکت صدیقی کا شمار بھی حقیقت نگاروں میں ہوتا ہے۔ وہ نہایت سادہ زبان استعمال کرتے ہیں۔ اُن کی تحریر بوجھل نہیں ہوتی۔ کہانی گھڑی گھڑائی اور کسی پلاٹ یا فارمولے کی پابند نہیں ہوتی۔
اُن کی کہانی بے ساختہ اور قلم برداشتہ ہوتی ہے۔
شوکت صدیقی اخبار کے ایڈیٹر بھی رہے۔ اس لیے اُن کی زبان صفائی کے عمل سے گزرتی ہوئی قاری تک پہنچتی ہے۔ بہت نپا تُلا لکھتے ہیں۔
…………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔