دنیا میں کئی مقامی اور عالمی تنازعات کی وجہ پہلے بڑی سلطنتوں کے بیچ ایک دوسرے پر برتری کی جنگیں ہوتی تھی، جن کی وجہ سے چھوٹی اور کم زور قومیں زیادہ متاثر ہوتی تھیں۔ برطانیہ اور زار روس کی کشیدگی کا سب کو معلوم ہوگا۔ اُس کے بعد اس طویل جنگ نے ایک اور انگڑائی لی اور اب کی بار یہ جنگیں کمیونیزم اور کیپٹلزم یعنی سابق سوویت یونین اور امریکہ کے بیچ شروع ہوئیں۔ یہ دو معاشی اور سیاسی نظاموں کے بیچ جنگ تھی۔ ان دو بلاکوں کے علاوہ دنیا کوئی اور نظریاتی یا معاشی بلاک نہ بناسکی۔
زبیر توروالی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/zubair-torwali/
پاکستان بننے کے ساتھ ہی ان میں ایک بلاک کا ساتھ ہوا۔ ہمارے سیاسی و نظریاتی اکابرین صدیوں کے جمود کی وجہ سے کوئی اور نظریہ پیش نہ کرسکے اور بڑی چالاکی سے امریکہ بہادر کے کیمپ میں چلے گئے۔ اپنی اس بے بسی کا جواز کلچرل طور پر یہ کَہ کر دیا کہ سوویت یونین ملحد ہے اور امریکہ اور اتحادی اہلِ کتاب ہیں۔ دنیا میں ان دو بڑی طاقتوں کے بیچ ہم جیسے کم زور لوگ رگڑے گئے اور ہمارے مقتدر حلقوں نے دولت کی خاطر اس جنگ میں اپنے اتحادی بلاک کو انسانی وسائل یعنی افراد پیش کیے۔ کیوں کہ ہمارے پاس ان زائد وسائل کے علاوہ کچھ اور نہیں تھا۔ ان وسائل کو متحرک کرنے کے لیے مذہب کا استعمال ایسی عاقبت نااندیشی سے کیا کہ خود اپنے اندر لوگ ایک دوسرے کو قتل کرنے لگے۔ اس ملک میں انتہاپسندی، دہشت گردی، آمریت کا پنپنا اور جمہوریت کا نہ پنپنا ان بڑی طاقتوں کے بیچ جنگ کی وجہ سے تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نہ صرف جمہوریت، آئین و قانون اور انتظام کاری کے حوالے سے ناکام رہے بلکہ ایک ایسا سماج پیدا ہوا جو خود کو کھانے لگا۔
٭ عالم گیریت:۔ اس کے بعد دنیا امریکہ کے زیرِ اثر ’’عالم گیریت‘‘ (Globalization) کی راہ پر چل نکلی اور دنیا کو عالمی گاؤں کہا جانے لگا۔ اسی عالم گیریت نے دنیا کے انسانوں کو صرف صارف بنا کر رکھ دیا۔ ’’کمرشلائزیشن‘‘ (Commercialisation) یعنی منافع خوری سب سے اعلا قدر بن گئی، جس نے دنیا کو عالمی منڈی میں تبدیل کردیا۔ اس کے سامنے کوئی ثقافتی یا مذہبی اقدار نہیں ٹھرسکتیں۔ جہاں سطحی مذبیت اور قوم پرستی نے جنم لیا، وہاں اس عالمی منڈی نے انھی کی خواہش کے مطابق اپنی اشیا فروخت کرنا شروع کیں۔ یہاں اب اِبلاغ، روابط اور آمد و رفت میں ایسی تیزی آگئی کہ دنیا کی ثقافتیں ایک دوسرے میں گڈ مڈ ہوئیں اور ان کے بیچ، کوئی واضح تفریق قائم نہیں رہی۔ زبان، صنف اور چمڑی کی رنگت ہی اس جدیدید دور کی بڑی شناختی علامات رہ گئی ہیں۔
آپ جتنا بھی ثقافت اور اقدار کی بات کریں، آخری فیصلہ اُس عالم گیریت نے کرنا ہے۔ جس قوم نے اس کے ساتھ خود کو سائنسی، علمی اور تکنیکی اعتبار سے ہم آہنگ کیا ہے، وہ شاید جی سکے۔ باقی ہماری طرح ایک دوسرے کو کھاتے رہیں گے۔ ایسے میں مقامی ثقافتوں کا برقرار رہنا مشکل ہوچکا۔ تاہم ثقافت انسان کے ساتھ جڑی ہے۔ لہٰذا یہ کسی اور صورت میں قائم رہ سکتی ہے، جو ہماری اپنی نہیں ہوگی۔ مثال کے طور پرشایدکوئی بندہ دباو ڈال کر کہے کہ کوئی چھوٹی ثقافتی محفل منع کرے، لیکن کسی سے، حتی کہ اپنے گھر سے، سمارٹ فون نہیں ہٹا سکے گا۔ اس کے بس میں صرف اتنا ہوگا کہ کم زور پر وار کرے اور خوش ہوجائے۔ نہ سرد جنگ کے یہ بھوت ہماری جان چھوڑیں گے اور نہ عالم گیریت کی یہ عالم گیر عفریت ہمیں چین سے بیٹھنے ہی دے گی۔
قارئین! مَیں کوشش کرتا ہوں کہ بات کو آسان سے آسان الفاظ میں بیان کروں، لیکن الفاظ اگر آسان بھی ہوں، تو یہ موضوعات دقیق ہوتے ہیں!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔