ترجمہ: توقیر احمد بُھملہ
جب آپ کے کسی دانت میں ناقابلِ برداشت درد شروع ہوجاتا ہے۔ علاج کے باوجود راحت نہیں ملتی، تو صبر اور برداشت کی حد کو توڑتی درد کی ٹیسیں، آپ کی سوچ کو صرف ایک نقطے پر لا پھینکتی ہیں۔ اور وہ سوچ، اذیت دینے والے اس دانت کو نکالنے کی ہوتی ہے۔ جب آخری علاج کے طور پر وہ دانت نکال دیا جاتا ہے، تو آپ کی زبان لاشعوری طور پر، ہر وقت، اُس دانت کی جگہ بننے والے خلا کی طرف لپکتی ہے اور اس دانت کو تلاش کرتی ہے۔
حقیقت میں زُبان اس طاقت ور مگر خوب صورت جذبے کی تابع ہوجاتی ہے، جو بچھڑے ہوئے کی کمی کو محسوس کرتا ہے…… اور اس سے منسوب چیزوں کو چھوکر اس کی موجودگی کا لمس تلاشتا ہے۔
اس خالی پن کے عادی ہونے میں طویل وقت درکار ہوتا ہے، مگر وقت سب سے بڑا مرہم ہے۔ ایک دن آتا ہے کہ آپ اس خلا کے عادی ہو جاتے ہیں اور اس دانت کی کمی کو بھول جاتے ہیں…… لیکن پھر بھی کبھی کبھار یاد آئے، تو آپ ہمیشہ اپنے آپ سے پوچھ سکتے ہیں: ’’کیا مَیں نے اُس دانت کو نکال کر ٹھیک کیا یا غلط؟‘‘ تو آپ اپنے اندر سے جواب پائیں گے کہ: ’’ہاں! یہ درست فیصلہ تھا۔ ایسا ہی ہونا چاہیے تھا۔‘‘
کیوں کہ وہ دانت، ناقابلِ برداشت درد اور تکلیف کا باعث بن رہا تھا۔
اور بالکل ٹھیک، اسی طرح ہماری زندگی میں کچھ لوگ ہوتے ہیں۔ کچھ حالات و واقعات آپ کو مجبور کردیتے ہیں کہ اُن کو اپنی زندگی کے منظر نامے سے ہٹا کر، خود سے دور کرکے، اُن کے بغیر زندگی جینے کا ڈھنگ سیکھا جائے۔ حالاں کہ وہ لوگ اُس سے پہلے آپ کی خوشی کا باعث بھی رہے ہوں گے۔
یہ سچ ہے کہ اُن کی جدائی، آپ کی زندگی میں نہ پُر ہونے والا خلا ضرور چھوڑ جائے گی…… لیکن اُس خالی پن کے مقابلے میں، آپ مستقبل کے درد و الم اور رنج و غم سے نجات پالیتے ہیں…… اور دھیرے دھیرے، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آپ کی زندگی پُرسکون ہونا شروع ہوجاتی ہے۔
(نوٹ:۔ یہ تحریر ’’ڈاکٹر محمد راتب النابلسی‘‘ نے عربی زبان میں لکھی جسے ’’توقیر بھملہ‘‘ نے اُردو کے قالب میں ڈھالا، مدیر ادارتی صفحہ)