پاکستان کی پنجابی فلم ’’مولا جٹ‘‘ فلم انڈسٹری اور شائقینِ فلم کے لیے ٹرینڈ سیٹر ثابت ہوئی تھی۔ یہ فلم 1979ء میں ریلیز ہوئی، جس کے فلم ساز سرور بھٹی اور ہدایت کار یونس ملک تھے۔ مولا جٹ کا مرکزی کردار سلطان راہی نے ادا کیا تھا، جب کہ اُن کے مدِمقابل نوری نت کا کردار مصطفی قریشی نے نبھایا تھا۔ دونوں ہی بڑے فن کار تھے۔ اس فلم نے اُنھیں شہرت اور عظمت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ قریباً 45 سال گزرنے کے بعد بھی فلم انڈسٹری اس بلاک بسٹر فلم کے سحر سے نہیں نکل سکی۔ اس فلم کے بعد سلطان راہی نے اپنی ریلیز ہونے والی 90 فی صد فلموں میں عملی طور پر مولا جٹ کا کردار ہی نبھایا۔
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/
سلطان راہی کو مولا جٹ کے کردار میں فلم بینوں نے کیوں اس قدر پسند کیا کہ 9 جنوری 1996ء کو اپنی وفات کے روز تک وہ مسلسل ایک ہی کردار نبھاتے چلے گئے۔ اس کی ایک بڑی وجہ ہمارا معاشرتی اور سیاسی ماحول بنی۔ وہ دَور انتہائی گھٹن اور جبر کا تھا۔ ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق ملک پر قابض تھا۔ ملک میں مارشل لا لگا ہوا تھا۔ آج کی طرح کا میڈیا نہ تھا۔ عوام کو خبروں تک رسائی ریڈیو پاکستان، پاکستان ٹیلی وِژن کے سرکاری ادارے یا اخبارات کے ذریعے ہوتی تھی۔ اخبارات سخت ترین سنسرشپ کی زد میں تھے۔ ریڈیو اور ٹیلی وِژن حکومت کے کنٹرول میں تھے۔ مقبول ترین لیڈر ذوالفقار علی بھٹو جیل میں تھے۔ سیاسی ورکرزشاہی قلعے میں کوڑے کھا رہے تھے۔ کچھ خودسوزیاں کر رہے تھے، تو کچھ جَلا وطنی کاٹ رہے تھے۔ معاشرتی طور پر دیکھا جائے، تو وڈیرا شاہی اور جاگیرداری نظام کے تحت عوام کی زندگی اجیرن تھی۔ پولیس گردی نے الگ سے جینا دشوار کر رکھا تھا۔ ایسے میں مولا جٹ کی ریلیز حبس اور گھٹن زدہ ماحول میں تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوئی۔ لوگوں نے سلطان راہی کو اپنے مسیحا کے روپ میں دیکھا۔ اُنھیں لگا کہ پولیس اور ظالم وڈیروں کے مظالم کے خلاف ڈٹ جانے والا سلطان راہی دراصل ان مظلوموں پر ہونے والے مظالم کا بدلہ لے رہا ہے۔ اس کردار کے ذریعے ان کا کتھارسس ہونے لگا۔ سلطان راہی نے 17 سال تک یہ کردار کامیابی سے نبھایا۔ کہنے والے کہتے تھے کہ مولاجٹ دراصل بھٹو اور نوری نت ضیاء الحق کے کردار تھے۔ بلال لاشاری نے اسی موضوع کو 2022ء میں ’’دا لیجنڈ آف مولا جٹ‘‘ کے نام سے فلمایا اور جدید ترین ٹیکنالوجی کے استعمال سے اس کی تاثیر میں کئی گنا اضافہ کر دیا۔ اس فلم کا موضوع بھی پرانی فلم والا ہی تھا۔ سلطان راہی کی مولا جٹ کے 43 سال بعد ریلیز ہونے والی اس فلم نے جہاں دنیا بھر میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے، وہیں پر یہ بھی ثابت کر دیا کہ ہمارے حالات 43 سال بعد بھی نہیں بدل سکے۔ عوام اب بھی پسا ہوا اور محروم طبقہ ہیں، جن کا ہیرو ’’اینگری ینگ مین‘‘ ہے۔
دیگر متعلقہ مضامین:
انتخابات بہر صورت 8  فروری کو ہوں گے 
انٹرا پارٹی الیکشن، قانونی تقاضے اور غیر جمہوری رویے 
انتخابی نشان اور مائنس عمران
سیاست دانوں کو بدنام کرنا مسئلے کا حل نہیں 
بلاول بھٹو زرداری کا المیہ 
عمران خان کے ہاتھ میں دماغ کی دو لکیریں ہیں، جو اُنھیں مضبوط قوتِ ارادی اور قوتِ فیصلہ کا حامل ظاہر کرتی ہیں۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ وہ بلا کے ذہین اور بے پناہ لیڈرانہ صفات کے مالک ہیں۔ وہ حالات و واقعات کا تجزیہ کرنے اور درست فیصلہ کرنے کی خداداد صلاحیت رکھتے ہیں۔ اُنھوں نے سیاست میں آنے سے پہلے بطورِ کھلاڑی اور پھر بطورِ سوشل ورکر کامیاب ترین اننگز کھیل رکھی تھیں۔ اُنھوں نے ملکی سیاسی حالات اور تاریخ کا بغور جائزہ لیا اور اپنے لیے ’’اینگری ینگ مین‘‘ کا کردار منتخب کیا۔ کیوں کہ وہ سمجھتے تھے کہ روایتی سیاست دان کے طور پر وہ کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی، جو ایک انقلابی اور باغی کے روپ میں مل سکتی ہے۔ اس کردار کے ذریعے اُنھیں جو شہرت اور کامیابی ملی ہے، وہ ہماری الگ سے سیاسی تاریخ بن گئی ہے۔ اُن کی شخصیت کا سحر تمام تر کوششوں کے باوجود ٹوٹ نہیں رہا۔ اُن کی کردار کشی کی ہر کوشش رائیگاں گئی۔ اُن کے چاہنے والوں نے اُنھیں اُن کی ہر اچھائی اور برائی سمیت قبول کر لیا ہے۔ جیل میں مقید وہ ہر قسم کے میڈیا سے دور ہیں۔ اپنے چاہنے والوں سے اُن کا براہِ راست کوئی رابطہ نہیں، مگر پھر بھی اُن کی مقبولیت میں کمی نہیں آئی۔
بلاول بھٹو زرداری بھی ذہین نوجوان ہیں۔ بہت پڑھے لکھے ہیں۔ عمران خان کی طرح اُنھوں نے بھی دنیا دیکھ رکھی ہے۔ اُن کے والد آصف علی زرداری مفاہمت کی سیاست کے بادشاہ گردانے جاتے ہیں۔ اُن کے کریڈٹ پر بے شمار کامیابیاں ہیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بے نظیر کی شہادت کے بعد حکومت ملنے کے باوجود پیپلز پارٹی کو زوال میں جانے سے وہ نہیں روک سکے۔ عملی طور پر پیپلز پارٹی صرف سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ بلاول بھٹو نوجوان بھی ہیں اور انرجیٹک بھی۔ اُنھیں اپنے والد کے طرزِ سیاست سے اتفاق نہیں۔ عمران خان کی کامیابیاں اُن کے سامنے ہیں۔ وہ اپنے والد کے بجائے شاید عمران خان کو سیاسی آئیڈیل سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پی ڈی ایم کی حکومت سے نکلنے کے بعد اُنھوں نے چند ہفتے گوشۂ تنہائی میں بیٹھ کر مستقبل کا لائحۂ عمل مرتب کیا اور پھر ایک انقلابی کے روپ میں ’’اینگری ینگ مین‘‘ بن کر طوفانی انداز میں انتخابی مہم شروع کر دی۔ سیاست میں بابوں کی مخالفت کرکے اُنھوں نے اپنے والد کو بھی ناراض کرلیا، مگر آخرِکار اُنھیں قائل کرلیا۔ اُن کی توپوں کا رُخ عمران خان سے زیادہ نواز شریف کی طرف ہے۔ کوہاٹ کے جلسے میں اپنی تازہ تقریر میں اُنھوں نے فرمایا کہ اُن کے سیاسی حریفوں میں سے ایک جیل سے نکلنے اور دوسرا جیل جانے سے بچنے کی کوشش کر رہا ہے۔ سپریم کورٹ نے بھٹو کی پھانسی کے کیس کی شنوائی سے بلاول کو ایک نیا بیانیہ بھی دے دیا ہے۔ اب اُنھوں نے مظلوم بھٹو کو کیش کرانا بھی شروع کر دیا ہے۔
اگر بلاول کی موجودہ انتخابی حکمتِ عملی کو دیکھا جائے، تو اُن کی پوری انتخابی مہم سیاسی مخالفین پر طنز اور طعن و تشنیع کے علاوہ مستقبل کے سہانے سپنے دکھانے پر ہے۔ وہ یہ بات بھول بیٹھے ہیں کہ صوبہ سندھ میں اُنھوں نے مسلسل 15 سال حکومت کی ہے۔ اُنھیں عوامی خدمت کا
بھرپور موقع ملا تھا۔ اُن 15سالوں کی کارکردگی کا ذکر وہ اپنی تقاریر میں نہیں کرتے۔ اُنھوں نے کبھی یہ دعوا نہیں کیا کہ وہ کوئٹہ، پشاور یا دوسرے کسی شہر کو کراچی جیسا بنا دیں گے۔ شہباز شریف نے تو کراچی میں کھڑے ہو کر بلاول بھٹو کی موجودگی میں یہ کَہ دیا تھا کہ وہ کراچی کو لاہور جیسا بنا دیں گے اور جواب میں بلاول نے اعتراف اور خواہش کی تھی کہ کراچی کو شہباز شریف کی ضرورت ہے۔ بلاول زود فراموش ہوسکتے ہیں، مگر عوام کو یاد ہے کہ وہ 16 ماہ پی ڈی ایم حکومت کا حصہ رہ کر عوام سے دور ہوگئے تھے۔ گذشتہ حکومت کی ہر کم زوری کو کیش کراتے وقت اُن کی یاد داشت ساتھ چھوڑ جاتی ہے کہ وہ حکومت کے ہر فیصلے میں شانہ بشانہ تھے۔ جاننے والے تو یہ بھی جانتے ہیں کہ الیکشن کے بعد وہ ایک مرتبہ پھر نواز شریف کے اتحادی ہوں گے۔ بلاول کوئی ایسا دعوا نہیں کر رہے کہ الیکشن کے بعد وہ اگر حکومت نہ بناسکے، تو اپوزیشن بنچوں پر بیٹھ جائیں گے، لیکن مسلم لیگ ن کے ساتھ اتحاد نہیں کریں گے۔ رانا ثنا اللہ کا یہ کہنا وزن رکھتا ہے کہ اگر ہماری مخالفت نہ کریں، تو بلاول کیا کَہ کر ووٹ مانگیں گے۔
دوسری طرف مسلم لیگ ن کے جلال پور جٹاں میں منعقدہ ورکرز کنونشن میں مریم نواز شریف نے اپنے خطاب میں بلاول بھٹو زرداری کا ذکر تک کرنا مناسب نہیں سمجھا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔