تبصرہ نگار: اقصیٰ سرفراز 
’’مُلک ہار جائے، تو کچھ نہیں ہوتا۔ آدمی مر جائے، تو کچھ نہیں مرتا۔انسان کی اُمنگ مار دی جائے، تو سب کچھ مر جاتا ہے۔‘‘
ذی روح انسان کے نزدیک جنت کی کنجی نیکی و بدی، خیر و شر، اچھائی و برائی کے ترازوے میں تو لے جانے والے نامۂ اعمال کی مرہونِ منت ہے جب کہ جنت کا اصل تصور موجودہ زندگی کو خوش حال، مطمئن اور آسودہ بنانے کی چاہ اور لگن ہے۔ انسان ساری زندگی معاشرتی اور اخلاقی اقدار کے پیچھے سرگرداں رہتا ہے۔ پریشان بے چین و بے حال مارا مارا پھرتا انسان اپنی ذات پر سماجی روایات کا خول چڑھا کر دوہرے کردار کا مؤجب بنتا ہے۔ آج انسانی معاشرہ ایسے سیکڑوں کرداروں کے بل بوتے پر شان و شوکت اور پورے جاہ جلال کے ساتھ قائم و دائم ہے اور اس کا جیتا جاگتا ثبوت ہمیں مختلف کرداروں کی صورت میں ’’جنت کی تلاش‘‘ میں ملتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ’’جنت کی تلاش‘‘ ایسا ناول ہے جس میں گہری اور گمبھیر اُلجھنیں زیرِ موضوع ہیں۔ جنھوں نے صدیوں سے بڑے بڑے حکیموں، داناؤں اور دانش وروں کو جستجوئے مسلسل میں مبتلا کر رکھا ہے۔ اس کا پرچار اگر آسان لفظوں میں کیا جائے، تو معاشرے میں ایسے متعدد کردار سامنے آتے ہیں جو بے غرض، بے لوث، بے تعصب اور آلودگی سے بِری آسان اور سہل زندگی گزارتے ہیں۔ وہ خوش اور مطمئن ہیں اور زندگی کی حقیقتوں کا سامنا کرنے کو تیار اور چاق و چوبند۔
’’جنت کی تلاش‘‘ کو درحقیقت رحیم گل نے انسان کی خود شناسی کی دریافت سے منسلک کر دیا ہے۔ سمجھ نہیں آتا اس ناول کو تاریخی، ثقافتی، سماجی و معاشی ناول لکھوں یا مختصر سا سفرنامہ لکھنے پہ اکتفا کروں؟
دیگر متعلقہ مضامین:
کبڑا عاشق (تبصرہ)  
موت کی خوشی (تبصرہ) 
اینمل فارم (تبصرہ) 
کاندید (تبصرہ) 
بھوکی سڑک (تبصرہ) 
تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے، تو پاکستان کے شمالی علاقہ جات کو موضوع بناکر ایک مکمل سفرنامہ لکھا گیا ہے۔ شمالی علاقے کی صدیوں پرانی تاریخ پر تفصیلاً لکھا گیا ہے۔ اس سفرنامہ نما ناول میں نہ صرف ناران کاغان، گلگت بلتستان، دیوسائی اور جھیل سیف الملوک کی قدیم تاریخ کو بیان کیا گیا ہے، بلکہ وہاں کی روایات اور ثقافت کے بارے میں بھی خاصی معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ معاشی و سماجی اعتبار سے دیکھا جائے، تو اس ناول میں اُن تمام پہلوؤں پہ بحث کی گئی ہے جو انسانی تباہی و بربادی کا سبب بنتے ہیں۔
مجموعی طور پہ یہ ایک مکمل ناول ہے جس کو بار بار پڑھنے سے روح میں تازگی کا احساس نئے سرے سے محسوس ہوتا ہے۔ ناول کا مرکزی کردار آپ کے صبر کا امتحان ضرور لے گا، لیکن آپ نے بے صبرے پن کا مظاہرہ نہیں کرنا اور تحمل مزاجی کا ثبوت دیتے ہوئے کتاب کو پڑھنے کا ارادہ باندھنا ہے۔ کتاب مکمل رحیم گل صاحب خود کروا لیں گے۔
قارئین! اس دفعہ کا تبصرہ روایت سے ہٹ کر ہے۔ اس تبصرے میں میرا معاشرتی مشاہدہ پیش ہے۔ کوشش کی ہے کہانی اور کرداروں پہ زیادہ بات نہ کی جائے، تاکہ کتاب پڑھنے والوں کا تسلسل نہ ٹوٹے۔ مَیں نے یہ ناول2020ء میں خریدا جب کہ 2024ء میں کتاب دوست کی شدید ریکمنڈیشن پہ پڑھا اور پڑھ کر دل کا آئینہ روشن ہو گیا ۔ شکریہ دوست یہ بے مثال ناول تھا۔ زنیر سید صاحب کتاب میں ساتھ نبھانے کا شکریہ ساتھ پڑھ کر ناول کا مزہ دوبالاہ ہوگیا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔