جبری انسانی خدمت یا جبری فلاح و بہبود (Forced Humanitarianism) یہ اصطلاح عجب لگتی ہے ناں……؟ یہ عجیب یوں بھی ہے کہ آیا فلاح و بہبود کے کام بھی جبری ہوسکتے ہیں……!
زبیر توروالی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/zubair-torwali/
ترقی، تہذیب و تمدن، فلاح و بہبود اور انسانی خدمت کے اس وسیع میدان میں ایک تصور جبری انسانی خدمت یا جبری فلاح و بہبود کا بھی ہے۔ اس سے مراد کسی فرد یا انسانی گروہ، کمیونٹی یا قوم کی فلاح و بہبود کے لیے اُس فر د پر یا اُس گروہ اور قوم پر جبر کیا جائے…… اور اُن کو زبردستی ترقی، تہذیب، تقدیس یا فلاح و بہبود سے ہم آہنگ کیا جائے۔ دنیا کے کونے کونے میں ایسا ہوا ہے۔ افریقہ کے قبائل ہوں، آسٹریلیا کے قبائل ہوں یا پھر لاطینی امریکہ اور انڈیا کی اقوام…… سب پر طاقت ور قوموں نے اِس بہانے سے قبضہ کیا کہ اُن مقامی وحشی باشندوں کو مہذب کرکے اُن کے اخلاق سنوارے جائیں اور یوں اُن کو ترقی اور تہذیب و تمدن سے ہم کنار کیا جائے۔ دنیا کے بڑے نظریوں نے بھی ایسا ہی کیا ہے۔ افریقہ، برازیل، ہندوستان، ہندوکش، قفقاز، آسٹریلیا اور مشرقِ بعید کی اُن دیسی اقوام کو مہذب کرنے کے لیے اُن کو قتل کیا گیا اور اُن پر اپنے نظریات اور فرمودات نافذ کرائے گئے۔
دوسری مثال جو ہر گھر، سکول اور مدرسے میں عام ہے…… یہ کہ بچوں کی پٹائی اس جواز پر کی جاتی ہے کہ یہ مارپیٹ اُن کے مستقبل کے لیے جوہر ثابت ہوتی ہے۔ ہمارے پاس چوں کہ کوئی اور طریقہ ہے اور نہ وسائل، اس لیے سکولوں، گھروں اور مدرسوں میں اس قسم کی جبری فلاح و بہبود کو معیوب نہیں سمجھا جاتا۔
کسی فرد، گروہ، تنظیم یا قوم کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ دوسروں پر اس وجہ سے جبر کرے کہ اُن کے خیال میں یہ دوسرے وحشی ہیں، بے اخلاق ہیں، غیر مہذب ہیں، بے شرم اور بے غیرت ہیں، بے حیا ہیں، یا لاچار اور غریب ہیں۔ یہ کسی کی موضوعی (Subjective) سوچ ہوسکتی ہے، تاہم حقیقت نہیں۔ لہٰذا کسی این جی اُو کو، کسی گروہ کو، کسی سیاسی پارٹی کو، کسی سکول کو، کسی آمر کو، کسی سیاسی لیڈر کو، کسی مذہبی لیڈر کو، کسی چرچ کو، کسی مسجد کو، کسی خانقاہ کو، کسی خان کو، کسی ملک کو، کسی سردار کو، کسی ٹھاکر کو حتیٰ کہ کسی حکومت یا ریاست کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ لوگوں کو جبری طور پر پاک، نیک، بااخلاق، ترقی یافتہ، تعلیم یافتہ، مہذب اور خوشحال (وغیرہ) بنانے کی کوشش کرے۔ یہ ایک نوآبادکارانہ سوچ اور طریقۂ کار ہے۔
اس کو دنیا کے ہر ’’اِزم‘‘ نے آزمایا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔