یہ ایک سوال اس لیے بھی ضروری ہے کہ جب ایم اے اسلامیات کرنے والا کسی سرکاری پوسٹ کے لیے اپلائی کرتا ہے، تو اسے آڑے ہاتھوں لیا جاتا ہے۔ اس کی ڈگری میں کسی قسم کی پس وپیش نہیں کی جاتی۔ اس کو ’’جنٹلمین‘‘ سمجھ کر اچھے انداز سے ڈیل کیا جاتا ہے، لیکن جہاں کسی امیدوار نے ’’شہادۃ العالمیہ‘‘ کی ڈگری دکھائی، وہاں صاحبان کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔ وہ ’’مولوی مولوی‘‘ کی گردان کرتے ہوئے امیدوار کو حقارت سے دیکھتے ہیں۔ انتہائی ادب اور احترام کرنے والا شہادۃ العالمیہ ہولڈر ان کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے اور اسے کسی نہ کسی طریقے سے ذلیل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
شہادۃ العالمیہ کا مقابلہ اگر ایم اے اسلامیات؍ عربی کے ساتھ کیا جائے، تو اس کی وضاحت سے پہلے ہمیں دونوں ڈگریوں کی اصل میں جانا پڑے گا۔ شہادۃ العالمیہ کی ابتدا مدرسہ کے درجۂ اولیٰ سے ہوتی ہے۔ درجۂ اولیٰ میں داخلہ کے لیے عموماً مدارس میں میٹرک پاس ہونا شرط ہوتا ہے۔ تاہم بسا اوقات امیدوار کو درجۂ متوسطہ میں داخلہ دیا جاتا ہے اور مدرسہ کی طرف سے اس کے میٹرک کا انتظام کیا جاتا ہے۔ بعد ازاں امیدوار درجۂ اولیٰ میں بیٹھنے کا مستحق بن جاتا ہے ۔
اولیٰ، ثانیہ، ثالثہ، رابعہ، خامسہ، سادسہ اور سابعہ یہ سات درجات سات سالوں میں پڑھنے اور ہر سال انتہائی کڑا امتحان پاس کرنے کے بعد امیدوار درجۂ عالمیہ یا دورۂ حدیث میں شامل ہو جاتا ہے۔ وفاق المدارس کے امتحانی سسٹم کے بارے میں بھی بتاتا چلوں کہ وہاں سفارش اور نقل قریب قریب ناممکن ہے۔ نیز مدارس میں طلبہ کی تربیت ایسی ہوتی ہے کہ وہ اس امتحان میں نقل کرنے کو مدرسہ کے تقدس کے خلاف سمجھتے ہیں، لیکن اگر کوئی کرنا بھی چاہے، تو اس کے لیے ناممکن ہے۔ ساتھ ساتھ اسے ڈر بھی ہوتا ہے کہ اگر پکڑا گیا، تو پھر خیر نہیں۔ صرف مدرسہ سے ہی اسے خارج نہیں کیا جاتا بلکہ وفاق بورڈ کے امتحان سے بھی اس کو کم از کم دوسالوں کے بلیک لسٹ کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی طالب علم نقل کے بارے میں سوچنا بھی گوارا نہیں کرتا۔
درجۂ عالمیہ ایسا عجیب وغریب سال ہے کہ اس میں طالب علم کو سرکھجانے کی بھی فرصت نہیں ملتی۔ مدارس میں ہفتہ وار تعطیل جمعہ کو ہوتی ہے لیکن بسا اوقات سبق کی کثرت کی وجہ سے استاد جمعہ کوبھی سبق پڑھاتے ہیں۔ دن کو صبح فجر کی نماز سے لے کر نماز اور کھانے کے وقفے کے علاوہ رات گیارہ بجے تک بھی اسباق ہوتے ہیں۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ اسباق کی اتنی کثرت کے باوجود کسی طالب علم کے ماتھے پر شکن کے آثار تک نظر نہیں آتے۔ وہ حدیث کی عبارت پڑھنے کے لیے جماعت کے امیر یا استاد کی منتیں کرتے ہیں کہ ہمیں بھی حدیث مبارک کی عبارت پڑھنے کی زیادہ سے زیادہ مواقع دیے جائیں۔ عالمیہ کے سال حدیث کی چھے مشہور کتابوں کے علاوہ دیگر حدیث اور اصولِ حدیث کی کتابیں پڑھائی جاتی ہیں۔ احادیث مسلسل سند کے ساتھ بیان کی جاتی ہیں اور کوئی بھی حدیث پڑھنے سے رہ نہیں جاتی۔ اس انتہائی ٹف روٹین میں بھی ڈھیر سارے طالب علم ایسے ہوتے ہیں جن سے کوئی ایک روایت بھی نہیں چھوٹتی۔ چاہے وہ بیمار ہوں، یا بہت ضروری کام ہی پیش آئے لیکن وہ جم کر احادیث سننے اور پڑھنے کے واسطے کلاس میں بیٹھے رہتے ہیں۔ ایسے طالب علم کو صاحبِ ترتیب کہتے ہیں۔ کیوں کہ اس نے ترتیب وار ساری احادیث پڑھی ہوتی ہیں جو کہ بلامبالغہ لاکھوں میں ہوتی ہیں اور اس ’’پراسس‘‘ میں ایک سال لگتا ہے۔
عالمیہ کے دروس میں صرف احادیث اور فضائل کا بیان نہیں ہوتا۔ اس میں زندگی کے تمام شعبوں پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔ ملکی حالات میں امن کے لیے کردار ادا کرنے سے لے کر ملک کے معاشیات میں قابل ذکر نمو لانے کے لیے استاد اس کے مکمل علم پر روشنی ڈالتے ہیں۔ ملک کے تعلیمی نظام میں بہتری اور نصاب میں مناسب تبدیلیوں کو وقت کی ضرورت کے طور پر جاننے کے لیے اس پر مکمل لیکچر دیے جاتے ہیں۔ ملک کی نظریاتی سرحدات کی حفاظت کو علما اور نئے فاضل ہوجانے والے طلبہ کے لیے اہم اسائنمنٹ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ کئی ساری پریزینٹیشنز اس پر ہوتی ہیں کہ قوم میں اگر مغربی اثرات پروان چڑھتی ہیں اور اعلیٰ سطح پر غیر اسلامی قوانین کی پذیرائی ہوتی ہے، تو ایسے حالات میں علما کی ذمہ داریاں کیا ہونی چاہئیں؟ کس طرح وہ پُرامن جد و جہد اور دعوت و دلائل کے ساتھ اسلامی نظریات کا دفاع کرسکیں گے؟ اس کے علاوہ دیگر بے شمار موضوعات زیرِ بحث آتے ہیں جن کو قرآن و احادیث مبارکہ کی روشنی میں انتہائی تفصیل کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے۔ تاکہ اس آخری سال کے بعد مدرسہ کی رسمی تعلیم سے فارغ ہونے والے طلبہ ملک کے کسی بھی شعبے میں کارکردگی دکھاسکیں۔
اب آتے ہیں ایم اے کے امتحان اور نصاب کی طرف۔ ایم اے اسلامیات کے امتحان میں کل 12 پرچے ہوتے ہیں۔ چھے سالِ اول میں اور چھے فائنل ائیر میں۔ اس میں قرآن، ترجمہ وتفسیر، فقہ اور اصول، حدیث اور اصول، علمِ کلام، اسلامی کلچر وغیرہ شاملِ نصاب ہوتے ہیں۔ دیکھا جائے، تو ایم اے کا نصاب بھی کافی حد تک جامع ہے اور یہ اس ڈگری کے حوالے سے طالب علم کی ضرورت کو کسی حد تک پورا کرتا ہے، لیکن اس کا امتحان کچھ یوں ہوتا ہے کہ آج کل اکثریت پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے داخلہ لیتی ہے بلکہ شاذ و نادر ہی کوئی ریگولر ایم اے اسلامیات میں داخلہ لیتا ہوگا۔ پرائیویٹ امتحان کے جب دن قریب ہوجاتے ہیں، تو امیدوار جاکر کسی دکان سے تمام مضامین کے نوٹس خرید لیتا ہے۔ ان میں سے بعض تو ایسے ہوتے ہیں کہ وہ نوٹس پڑھ لیتے ہیں اور اس کی بنیاد پر امتحانی پرچہ حل کرتے ہیں، لیکن معاف کرنا! اکثریت ایسی ہوتی ہے جو ان نوٹس کے بغیر امتحانی ہال میں داخل ہونے کو بھی معیوب سمجھتے ہیں۔ اگر ان کے پاس نقل نہ ہو، تو ایسا لگتا ہے کہ گویا لباس ہی کو گھر بھول آئے ہوں۔ میں یہاں سب کو قصوروار نہیں ٹھہراتا، کیوں کہ ان میں بھی مطالعہ کرنے والے لوگ ہوتے ہیں اور وہ نقل کو برا سمجھتے ہیں، لیکن اگر خدالگتی کہوں، تو اکثریت کا یہ حال ہے۔ یقین نہ آئے تو اگلے سال امتحان کے دنوں میں کسی ہال کا چکر لگاآئیں۔
امتحان کے دوران میں اکثر امیدواروں کے ساتھ پرچہ شروع ہونے سے قبل گپ شپ کیا کرتا تھا۔ اکثر کی حالت یہ ہوتی تھی کہ انہیں اسلامیات کا الف ب تک نہیں آتا تھا۔ انہیں فقہ کی تعریف کا پتا نہیں تھا۔ انہیں حدیث کے بنیادی اصولوں کا علم نہیں تھا۔ ان کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ اسلام کے بنیادی ارکان کیا کیا ہیں؟ اکثریت کو قرآن کا ترجمہ نہیں آتا۔ صرف ان امیدواروں کو ترجمہ میں قابل پایا جو عشا کے بعد محلے کے امام مسجد سے ترجمہ قرآن پڑھتے ہیں۔ احادیث کے ترجمے اور مفہوم کا تو کسی کو بھی صحیح علم نہیں تھا۔ پھر ایسے امیدوار نقل میں بھی طاق ہوتے تھے اور کہنے پر گناہگار نہ ہوجاؤں، لیکن ایسی ایسی جگہوں سے ممتحن حضرات نقل کے ٹکڑے برآمد کیا کرتے تھے کہ دیکھ کر متلی آجاتی تھی۔ یہ اسلامیات کے پیپر کے احوال ہوتے ہیں۔
اب آپ فیصلہ کیجیے۔ ایک طرف ایک مقدس ماحول میں شہادۃ العالمیہ کی ڈگری کو صافی محنت سے حاصل کیا جاتا ہے۔ اس ڈگری کی اہمیت کو حکومت نے بھی تسلیم کیاہے۔ تعلیمی اداروں کے سربراہ ادارہ ’’ایچ ای سی‘‘ نے اس کو ایم اے اسلامیات اور ایم اے عربی کے مساوی قرار دیا ہے۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے فیصلوں نے اس کی حیثیت کو مزید تقویت بخشی ہے۔ امیدوار اس کی بنیاد پر ایم فل اور پی ایچ ڈیز کی ڈگریاں لے رہے ہیں۔ ہر یونیورسٹی، کالج، صوبائی اور وفاقی پبلک سروس کمیشنز میں یہ قابل قبول ہے۔ ایلمینٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن میں بھی اس کی واضح پالیسی موجود ہے، لیکن آج کچھ عناصر علما کو پریشا ن کرنے کے واسطے یہ کہیں کہ شہادۃ العالمیہ محض ایک پروفیشنل ڈگری ہے، جس کی حیثیت پی ٹی سی اور سی ٹی کورسز کے مقابل میں لائی جائے، تو یہ حقائق سے آنکھیں چرانے اور علما کے ساتھ بدنیتی کا مظہر ہے۔ میں ان تمام عناصر پر واضح کرنا چاہتا ہوں کہ خدارا! علما اور مدارس کو بلاوجہ مت چھیڑیں۔ انہیں ان کا مقام اسی طرح ہی دیں جس طرح پاکستان کے قانون نے انہیں دیا تو یہ بھی کافی ہے ۔ اگر اس میں مزید ترقی نہیں کرواسکتے تو کم از کم ان کے حقوق میں کمی سے تو لازمی خود کو بچائیں۔

……………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔