حلقہ این اے 134 ضلع قصور کا حلقۂ انتخاب ہے۔ اس میں دو صوبائی نشستیں پی پی 183 اور 184 ہیں۔ پی پی 183 میں جمبر کلاں، سرائے مغل، ہلہ اور دیگر دیہی علاقے شامل ہیں جب کہ پی پی 184 میں پھول نگر، جمبرخورد اور دیگر دیہی علاقے شامل ہیں۔
الیکشن کی گہماگہمی آخری مراحل میں ہے۔ سیاست دانوں نے عوام سے اپنے رابطے بڑھانا تیز کردیے ہیں۔ این اے 134 ضلع قصور کا حلقہ ہے۔ پہلے اس حلقے کو این اے 108 سے جانا جاتا تھا۔ پھر اس کو این اے 142 بنا دیا گیا اور اب 134 ہے۔
عقیل خان کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/aqeel/
اس حلقۂ انتخاب میں ہلہ، سرائے مغل، پھولنگر،جمبر، بھگیانہ اور نتھے خالصہ جیسے علاقے شامل ہیں۔ یہ حلقہ ایک انڈسٹریل ایریا ہے جس میں بہت سے بیرونی علاقوں سے آئے ہوئے ملازمین کے ووٹ بھی بنے ہوئے ہیں۔
الیکشن سیاسی پارٹیوں کے نظریات اورمنشورکی بنیاد پر لڑا جاتا ہے، مگر اس حلقے میں لوگ پارٹی، نظریات، منشور اور پالیسی کو کم اہمیت دیتے ہیں اور اس کے برعکس اپنے گروپ اور برادی کو اولین ترجیح پر رکھتے ہیں۔ اس لیے یہاں الیکشن سیاسی جماعت کی بجائے گروپ کی صورت میں لڑاجاتا ہے۔
اس حلقے میں ڈھیر ساری برادریاں رہایش پذیر ہیں۔ رحمانی، انصاری،جٹ، بھٹی، آرائیں، پٹھان، میو، راجپوت، خانزادہ، ملک ،جوئیہ، گجر اور چھوٹی چھوٹی کئی قومیں آباد ہیں۔ حلقہ NA 134 جس میں شہرکے ساتھ ساتھ زیادہ تردیہی علاقے شامل ہیں۔
اس حلقے میں سال ہا سال سے سردار نکئی اور رانا خاندان میں مقابلہ ہوتا چلا آ رہا ہے، بلکہ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اُنھوں نے باریاں باندھی ہوئی ہیں۔ ایک بار رانا تو دوسری بار سردار۔ راناگروپ کے سربراہ رانا پھول محمد خان اور نکئی گروپ کے سربراہ سردار عارف نکئی تھے۔ دونوں گروپوں کے سربراہ اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں ۔
نئے الیکشن کے بگل بجتے ہی رانا اور سردار گروپ نے اس حلقہ میں جوڑ توڑ کے ساتھ ساتھ نئی صف بندی کا سلسلہ بھی شروع کر دیا تھا۔ رانا گروپ کی قیادت راناحیا ت خان سابق پارلیمانی سیکرٹری و ضلعی ناظم اور سپیکر پنجاب اسمبلی رانا محمد اقبال خان کررہے ہیں۔ ان کاتعلق مسلم لیگ (ن) سے ہے۔ اس گروپ کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ انتہائی نامساعد حالات میں بھی مسلم لیگ ن کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ ضلع بھر میں مسلم لیگ ن کو فعال رکھنے میں رانا حیات خان کا کردار قابلِ ستایش ہے۔ اس خاندان کا ضلعی سیاست میں انتہائی اہم رول رہا ہے۔ ضلع کی چیئرمین شپ اور ضلعی نظامت زیادہ تر اسی گروپ کے پاس رہی ہے۔ اب رانا حیات کے بعد اس کے لخت جگر رانا سکندر حیات نے ن لیگ ضلع قصور کی صدارت کا بیڑا اُٹھا لیا ہے۔ ان نوجوان نے پورے ضلع قصور میں اپنی محنت سے اپنا نام پیدا کرلیا ہے۔ شاید اس چیز کو دیکھتے ہوئے مریم نواز نے ایم ایس ایف کو فعال کرنے کے لیے ذمے داری کی پگ اُس کے سر پررکھ دی ہے۔
دوسری طرف سردار گروپ کی قیادت سردار طالب حسن نکئی سابق ایم این اے و وزیر ہاؤسنگ اور سردار آصف نکئی ایم پی اے و سابق وزیرکے پاس ہے۔ سردار آصف نکئی پنجاب کے سابق وزیرِ اعلا سردار عارف نکئی کے صاحب زادے ہیں، جب کہ سردار طالب، سردار عارف نکئی کے داماد ہیں۔ اس حلقہ میں وہی پرانی دھڑ ے بندی چلی آرہی ہے۔ اگر ایک گروپ سرداروں کے ساتھ ملتا ہے، تو دوسرا راناگروپ سے جا ملتا ہے۔
دیگر متعلقہ تحاریر:
الیکشن 2024 بارے خفیہ اداروں کی رپورٹ  
الیکشن ٹریننگ میں کروڑوں کا گھپلا
سوات، قومی اسمبلی کے تینوں حلقوں کا جائزہ 
سوات، پی کے 3، 4، 5 اور 6 کا جائزہ  
عام انتخابات اور غیر معمولی خاموشی  
اس حلقے میں اس وقت جو بڑے مسائل ہیں اُن میں انڈسٹری کا تباہ ہونا، لوگوں کا بے روزگار ہونا، سوئی گیس اور بجلی کی بندش، عدم تحفظ وغیرہ شامل ہیں۔
صنعت اور کاروبار کی تباہی نے پورے ملک کی طرح اس حلقے کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے، لیکن گذشتہ انتخابات کے دوران میں منتخب ہونے والے مقامی ممبرانِ قومی و صوبائی اسمبلی کی جانب سے اس ضمن میں آواز نہ اُٹھائے جانے کی وجہ سے ووٹروں میں کافی اضطراب پایا جاتا ہے۔
اس حلقے میں عیسائی برادری کا ووٹ بینک متاثرکن حالات پیدا کرتا ہے…… اور جس امیدوار کو عیسائی برادری اپنا ووٹ کاسٹ کرتی ہے۔ اُس امیدوار کے جیتنے کے امکانات واضح دکھائی دیتے ہیں۔
حلقے میں الیکشن 2018ء میں سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے جو اُمیدوار شو کیے ہیں، اُن میں ن لیگ کے ایک مرتبہ پھر رانا محمد حیات خان، پی ٹی آئی کے سردار طالب نکئی اور جماعت اسلامی کے حاجی رمضان آف کامونگل شامل ہیں۔
اس حلقے میں اس بار تو اُمیدواروں کی لائن لگی ہوئی ہے۔ ن لیگ کے اس بار بھی رانا حیات خاں، جماعت اسلامی کے حاجی رمضان، پی پی کے سید رضا عباس، جمعیت العلمائے اسلام کے سفیان معاویہ، تحریکِ لبیک پاکستان کے منظور الٰہی، پاکستان مرکزی مسلم لیگ کی مقبولاں بی بی اور پی ٹی آئی کی سدرہ فیصل کے ساتھ بہت سے آزاد اُمیدوار بھی میدان میں ہیں، جن میں سردار طالب کے برخوردار سردار ایاز نکئی بھی شامل ہیں۔
بظاہر اس حلقہ میں اصل دنگل رانا محمد حیات خان اور سردار طالب حسن نکئی کے برخوردار سردار ایاز نکئی کے درمیان ہوگا، مگر عوام کے ذہن کا اندازہ کسی کو نہیں کہ وہ نعرے کس کے لگاتے ہیں…… دعوت کس کی اُڑا رہے ہیں اور ووٹ کس اُمیدوار کو دیں گے……؟
ایک عوامی رائے کے مطابق رانا حیات اور سردار ایاز نکئی کے درمیان سخت مقابلے کی توقع ہے۔ دونوں امیدوار اپنا زور لگار ہے ہیں اوروقت بتائے گا کہ کامیابی کا سہرا کس کے سر سجتا ہے۔
اصل فیصلہ 8فروری کو ہوگا کہ کون اس حلقے سے جیتتا ہے……!
حلقہ 134کا صوبائی حلقہ پی پی 183 بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔ کیوں کہ ادھر سے ن لیگ کے امیدوار رانا سکندر حیات ہیں، جو رانا حیات کے فرزند ہیں۔ جماعتِ اسلامی کے عبدالناصر، تحریکِ لبیک کے قاری صابر صدیقی، تحریکِ انصاف کے رانا الماس لیاقت سمیت بہت سے آزاد اُمیدوار الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔
سردار آصف نکئی جو پچھلی بار تحریکِ انصاف کے ٹکٹ پر لڑے تھے، اس بار آزاد امیدوار کے طور پراس حلقے سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ اس حلقے سے سخت مقابلے کی توقع ہے اور وہ مقابلہ رانا سکندر حیات اور سردار آصف نکئی کے درمیان ہوگا۔
حلقہ پی پی 184 سے حسبِ روایت ن لیگ کے رانا محمد اقبال خان، جماعت اسلامی کے سردار نوراحمد ڈوگر، تحریکِ انصاف کے رانا تنویر ریاض، جمیعت العلمائے اسلام کے سفیان معاویہ، پیپلز پارٹی کے ہمایوں مجید، تحریک لبیک کے علی حسین خان اور آزاد امیدوار سابق ڈی آئی جی رانا محمداسلم حصہ لے رہے ہیں۔
اس حلقے سے رانا اقبال اوررانا اسلم کے درمیان سخت مقابلے کی توقع کی جارہی ہے، مگر ایک خاندان ہونے کی وجہ سے ووٹ تقسیم ہونے کی صورت میں کوئی دوسرا امیدوار بھی اس جنگ میں فائدہ اُٹھا سکتا ہے۔ حقیقت میں اصل مقابلہ رانا بردران ہی میں ہے۔
اب فیصلہ عوام کوہی کرنا ہے کہ وہ کن سیاست دانوں کے ہاتھوں میں اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل کی باگ ڈور دیتے ہیں۔ اچھے برے کی پہچان عوام ہی نے کرنا ہے کہ وہ اگلے پانچ سال کے لیے اپنی قسمت کا فیصلہ کس کے ہاتھ میں دیتے ہیں۔
رہے نام اللہ کا!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔