انتخاب: احمد بلال
مَیں جب اپنا ناول ’’برف‘‘ (’’جہاں برف رہتی ہے‘‘، اُردو ترجمہ) لکھنے کی تیاری کر رہا تھا، تو مَیں نے ترکی کے جنوب مشرق میں واقع شہر ’’کاز‘‘ کے کئی چکر لگائے۔ میرا یہ ناول ظاہری طور پر دوسرے ناولوں کی نسبت زیادہ سیاسی ہے۔
’’کاز‘‘ کے باسی چوں کہ نیک دل ہیں اور وہ جانتے تھے کہ میں اُن کے بارے میں لکھ رہا ہوں، اس لیے اُنھوں نے میرے سوالوں کا جواب دینے میں کبھی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا اور مَیں نے جو بھی پوچھا اس کا بہ رضا و رغبت، خوش دلی اور بے باکی سے جواب دیا۔
میرے اکثر سوالات غربت، بدعنوانی، دھوکا دہی، فریب کاری، رشوت خوری اور گندگی اور غلاظت کے بارے میں ہوتے تھے۔
یہ چھوٹا سا شہر بہت سارے سماجی اور سیاسی مسائل کا شکار تھا۔ کینہ پروری، بغض و عناد اور آزردگیوں کے نتیجے میں اکثر پُرتشدد صورتِ حال پیدا ہو جاتی تھی۔
ہر شخص مجھے بتاتا کہ فُلاں فُلاں بدمعاش ہے اور توقع کرتا کہ مَیں اُن کے خلاف لکھوں۔
مَیں بہت دنوں تک ایک مائیکروفون لیے وہاں گلیوں میں گھومتا رہتا اور شہر اور وہاں کے باسیوں کے بارے میں الم ناک کہانیاں ریکارڈ کرتا رہتا۔ جب میرے دوست مجھے بس سٹیشن تک چھوڑنے جاتے اور ہر بار ’’خدا حافظ‘‘ کہتے ہوئے ایک جیسے لفظ دہراتے: ’’مسٹر پامک براہِ مہربانی خیال رکھنا کہ ہمارے شہر کاز اور ہمارے بارے میں کچھ غلط سلط نہ لکھ دینا۔‘‘
دیگر متعلقہ مضامین:
چالیس چراغ عشق کے (تبصرہ) 
کافکا کے افسانے (تبصرہ) 
پاپولسٹ لیڈروں کی خصوصیات بیان کرتی کتاب (تبصرہ)  
افغانستان کا نوحہ 
وہ مجھے مسکراتے ہوئے الوداع کرتے۔ اُن کے انداز طنزیہ نہیں ہوتے تھے اور مَیں اپنے ہی خیالوں میں گم ہو جاتا، جیسے ہر ناول نگار سوچتا ہے اور اُس کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ سچ لکھے اور لوگ اُس سے پیار بھی کریں۔
مَیں سوچتا رہا کہ اس تذبذب سے نکلنے کا راستہ یہ ہے کہ مَیں وہی طریقِ تخلیق اختیار کروں، جس کا ’’شیلر‘‘ نے ’’گوئٹے‘‘ کے حوالے سے ذکر کیا تھا۔ مَیں نے یہ وصف امریکی ناول نگاروں کے لیے مخصوص کر دیا تھا۔
اس کے باوجود مجھے معلوم تھا کہ وہبی طریقِ تخلیق اُس وقت کس قدر مشکل ہو جاتا ہے، جب ہم ایسے لوگوں کے بیچ بسر کر رہے ہوں جو تکلیفوں کے سمندر میں اِس حد تک ڈوب چکے ہوں کہ اُن کی زندگی کے دل خراش تجربات اُن کی شناخت کا حصہ بن جائیں اور اُن کے لیے مسلسل اذیت کا باعث ہوں۔
اس طرح ایک وقت ایسا آیا کہ مجھے کامل یقین ہوگیا کہ میں کاز کے بارے میں محض اپنے اطمینانِ قلب کے لیے نہیں لکھ سکتا۔
اب، برسوں بعد، مَیں مسلسل اس حوالے سے سوچتا رہا ہوں، تو احساس ہوا ہے کہ صرف اور صرف شادمانی کے لیے نہیں لکھا جا سکتا۔
(اورحان پامک کی کتاب ’’جدید ناول کا فن‘‘ سے انتخاب، مترجم نعمت الحق)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔