قدیم افسانوی قصوں اور دیوی دیوتاؤں سے متعلق آثار کو اساطیر، دیومالا یا علم الاصنام (Mythology) کہتے ہیں۔
اس ضمن میں یونانی، مصری اور ہندی دیومالا کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ نفسِ انسانی میں شاعری کی دیو مالا کا سرچشمہ بھی تخیل اولیٰ یا قصہ ساز فکر ہے۔ قبل از تعقل دور میں انسانی انا اور غیر انا یعنی مظاہر میں کوئی تفریق نہیں تھی۔ انسان یہ سمجھتا تھا کہ عناصرِ فطرت بھی اس کی طرح خوشی اور غم کو محسوس کرتے ہیں اور اس کے ہم ذات ہیں۔ یہ قصہ ساز فکر آج بھی شاعری میں مستعمل ہے۔ آج کا شاعر بھی مظاہرِ فطرت سے اسی طرح ہم کلام ہوتا اور ان پر زندہ صفات کا اطلاق کرتا ہے۔
جدید علوم نے زبان کی تشکیل اور مذاہب کے ارتقا سے متعلق دیو مالائی وضاحتیں کی ہیں اور ان کی قدر و قیمت کا اقرار کیا ہے۔ اس ضمن میں "سر جیمز فریزر” کی مشہور تصنیف "شاخِ زریں” دیو مالا، ساحری اور مذہب کے باہمی رشتوں سے متعلق ایک ایسا مطالعہ ہے جس نے علم الانسان کے علاوہ جدید ادب اور نفسیات پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔
(پروفیسر انور جمال کی تصنیف ادبی اصطلاحات مطبوعہ نیشنل بُک فاؤنڈیشن صفحہ نمبر 36 سے انتخاب)