کوئی اپنے والد صاحب کو دفن کرکے آتا ہے، تو کتنا شکستہ اور بے اعتماد ہو جاتا ہے…… الفاظ شاید اس کیفیت کا احاطہ کرنے سے عاجز ہیں۔
’’فادرز ڈے‘‘ پر فارورڈ میسج پوسٹ کرنا کتنا آسان ہوتا ہے۔
قارئین! ہر شہر کے کچھ خاص ثقافتی، علمی، حکمت، حسن، وراثتی، دیو مالائی تاریخی و روایتی مناظر ہوتے ہیں جن کو وقت اُس شہر کے ساتھ منسوب کر دیتا ہے اور جب آپ اُس شہر کو یاد کرتے ہیں، تو سب سے پہلے وہ منظر جو منسوب ہوا ہوتا ہے، لاشعوری طور پر ذہن کے پردے پر متحرک تصاویر کی مانند دوڑنے لگتا ہے۔
ساجد امان کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/saj/
’’مین بازار مینگورہ‘‘ دراصل مینگورہ شہر کا دل ہے اور اس دل میں ایک خوب صورت شخص، ایک تعلیم یافتہ، با اُصول اور روشن خیال شخصیت، دوستوں کا مرکزِ نگاہ، ایک دیو مالائی ٹائپ شخص، علم و ادب کا استعارہ، مطالعہ کے لیے مشہور خیرالامان تحصیل دار (مرحوم) بھی تھا۔ شاید ہی مینگورہ شہر کا کوئی آبائی شخص ہو اور وہ میرے اس دعوے کے ساتھ اتفاق نہ کرے!
خیرالامان تحصیل دار صاحب (مرحوم) کے والد صاحب کا نام غلام حق المعروف طوطا (مرحوم) تھا، جو خود مطالعہ کے بڑے شوقین تھے۔ سوات میں جب اول اول اخبار آنا شروع ہوا، تب سے ایک پرچہ طوطا کے لیے بھی آیا کرتا تھا۔ طوطا بلا کا حافظہ رکھنے والے اور شیریں زباں تھے۔ اُردو، فارسی اور پشتو زبان کو سمجھتے اور روانی سے بولتے تھے۔ ڈاگ قاضی صاحب کے بیٹے تھے۔ ’’ڈاگ‘‘ پشتو میں میدان کو کہتے ہیں۔ مینگورہ چم، پنجابیاں، جلو خیل کے درمیان کا علاقہ غورئی چینے تک ڈاگ کہلاتا تھا۔ یہاں اس میدان میں باچا صاحب کے حکم سے ایک لمبا چوڑا مکان تعمیر ہوا، جو مینگورہ شہر کا پہلا سیمنٹ کا بنا مکان تھا۔ یوں محلہ عیسیٰ خیل سے عیسیٰ خیل کی شاخ قاضی خیل کے تعلیم یافتہ قاضی صاحب کو الگ کرکے مینگورہ ڈاگ میں ڈاگ قاضی صاحب کے نام سے آباد کی گئی اور محکمۂ قضا کی بنیاد رکھی گئی۔ ڈاگ قاضی صاحب، محمد اکبر ملا بابا کے بیٹے تھے، جو شریعت، طریقت اور اَدب کے اُستاد تھے۔ اپنے وقت کے نام ور شاعر تھے۔ اُن کی شاعری کے نسخے برٹش میوزیم لائبریری میں محمد اکبر کوکارئی سوات کے نام سے محفوظ ہیں۔
دیگر متعلقہ مضامین:
صنوبر استاد صاحب  
ملوک حاجی صاحب، ایک سچا دوست  
بزوگر حاجی صاحب  
والئی سوات کے پرائیویٹ سیکریٹری، پردل خان لالا 
باجکٹہ (بونیر) کے سید کریم خان  
آمدم برسرِ مطلب، مردانہ وجاہت کی مثال دینی ہو، یا مطالعہ کے شوق سے کسی کو حیران کرنا ہو، علمی شخصیت کی مثال دینی ہو ، یا کسی کو گفت گو کا ڈھنگ سکھانا ہو، ایک تصوراتی وجیہ شبیہ دینی ہو یا زندہ محافل کا تذکرہ ہو، خیرالامان تحصیل دار (مرحوم) کے نام کو بہ طورِ فخر اور ریفرنس پیش کیا جاتا تھا۔ جہانزیب کالج کے پہلے بیچ میں بی اے کیا۔ پھر والی صاحب کے دفتر میں ملازمت اختیار کی اور اس کے بعد تحصیل دار مقرر ہوئے۔
مرحوم اُن چند ریاستی افسران میں شامل تھے، جو باقاعدہ گریجویٹ تھے، جن کی سفارش جناب والی صاحب نے خود کی تھی کہ اُن کو سروسز آف پاکستان میں اُن کی قابلیت اور صلاحیت کی بنیاد پر رکھا جائے۔
تحصیل دار صاحب (مرحوم) مختصر وقت کے لیے اسسٹنٹ پولی ٹیکل ایجنٹ ملاکنڈ بھی رہے۔ ریاستی ادغام کے اگلے سال سے والی صاحب کے وفادار افسران کے خلاف انتقامی اور تعصبانہ رویے کے نتیجے میں مرحوم سمیت بیشتر افسران کو حکومتِ پاکستان نے ملازمت جاری رکھنے سے روک دیا، مگر اُن کو اپیل کا حق دیا گیا۔ تحصیل دار صاحب (مرحوم) نے ریاستِ پاکستان کے رویے کو تحقیر آمیز کہا اور اپیل نہ کرنے کا فیصلہ کیا، جس پر والی صاحب (مرحوم) بھی ناراض ہوئے، مگر اُنھوں نے کہا کہ جو وفاداری اور جانفشانی ریاست سوات کے لیے تھی، وہ ریاستِ پاکستان کے لیے پیدا نہیں ہوسکتی اور یہ خلش دل میں رکھ کر ضمیر پر بوجھ نہیں ڈال سکتے۔
مرحوم کو مطالعے کا شوق ورثے میں ملا، جس کو اُنھوں نے زندگی کے آخری دن تک جاری رکھا۔ زندگی کا معمول تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ آخر دم تک جاری رہا۔ فجر کی اذان سے پہلے بیدار ہوکر تہجد ادا کرتے۔ پھر قرآنِ مجید کی تلاوت کرتے۔ پھر فجر پڑھتے اور اُس کے بعد طویل واک کا سلسلہ چل نکلتا، مگر آخری ایام میں واک کے قابل نہ رہے۔ ناشتے کے بعد تفسیرِ قرآن کا مطالعہ کرتے۔ اُن کے پاس تفاسیر کا مجموعہ اُردو، پشتو اور انگریزی زبانوں میں ایک ذخیرے کی شکل میں محفوظ تھا۔ تفسیر کے مطالعے کے بعد اخبار پڑھتے اور ظہر پڑھ کر سوجاتے۔ عصر سے پہلے بیدار ہوکر ڈائجسٹ پڑھ لیتے، پھر نماز ادا کرکے ٹیلی وِژن پر حالاتِ حاضرہ کے پروگرام دیکھ لیتے۔ مغرب کے بعد کھانا کھالیتے اور عشا پڑھ کر بروقت سوجاتے۔ ہر نماز کے بعد طویل دُعا اور دوستوں، جاننے والوں کو دعاؤں میں کثرت سے یاد کرتے۔ خوش لباسی تادمِ آخر اُن کا وصف رہی۔ اگر بیمار نہ ہوتے، تو سال کے 365 دن معمول ایک جیسا رہتا۔ پھر جب پوتے پیدا ہوئے اور پڑھنے کے لائق ہوئے، تو عصر کے بعد اپنا مطالعہ بھی کرتے اور اُن کے ساتھ ٹیوشن میں بھی موجود رہتے۔
14 مئی 2024ء کو صبح 9 بجے 89 سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔یوں مینگورہ شہر کا ایک روشن عہد تمام ہوگیا۔
قارئین! مَیں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک شخص کا گزرنا نہیں بل کہ ایک دور کا گزرنا ہے۔ نقصان صرف میرا نہیں پورے شہر کا بل کہ پورے سوات کا ہوا ہے۔ جنازے میں سیکڑوں لوگوں کی شرکت دراصل ایک خراجِ تحسین تھی۔ سٹیڈیم روڈ پر گھنٹوں ٹریفک جام رہی۔ گو کہ اُس روز ہڑتال کی وجہ سے شہر سنسان تھا، مگر فاتحے اور جنازے کے لیے پورا سوات نکل آیا تھا۔
اس موقع پر شہر نہ صرف سلام اور خراجِ تحسین پیش کر رہا تھا بل کہ سوگ بھی منا رہا تھا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔