شاید آپ لوگوں کے مشاہدے میں یہ بات ضرور آئی ہوگی کہ پشتو سپیکنگ لوگوں میں بالعموم اور سواتیوں میں بالخصوص بعض نامانوس، نامعلوم اور مہمل قسم کے نام رکھے جاتے ہیں، جن میں بعض کے تو معنی بھی نہیں نکلتے۔ مثال کے طور پر ’’جانس‘‘ (Janas) ایک عام سا نام ہے، مگر میری سمجھ تو آج تک اس کے معنی نہیں آئے۔ ماضیِ قریب میں اس نام کے کئی جانے پہچانے لوگ بھی گزرے ہیں۔ آپ کو ہر گاؤں میں کوئی نہ کوئی اس نام کا اہم یا غیر اہم آدمی نظر آئے گا۔
فضل رازق شہاب کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fazal-raziq-shahaab/
گوگدرہ کے لعل باچا اور میاں باچا دو مشہور بھائی ہوگزرے ہیں۔ اُن کے والد کا نام بھی ’’جانس‘‘ تھا اور میاں گان ہونے کی نسبت سے احتراماً ’’جانس پاچا‘‘ کہلاتے تھے۔ بادشاہ صاحب کے زمانے میں اور والئی سوات کے ابتدائی ایامِ اقتدار میں سوات فوج میں کمان افسر تھے۔ موصوف افسر آباد میں کسی وقت ہمارے والد کے پڑوسی بھی تھے۔ اُن دنوں میرے والد کی پہلی بیوی کا انتقال ہوگیا تھا اور وہ اپنی ایک نابینا حافظِ قرآن خالہ اور ایک بِن ماں کی دو سالہ بیٹی کے ساتھ رہتے تھے۔ ایک دن جب بابا دفتر گئے تھے، تو وہ معصوم بچی کھیلتے کھیلتے چولھے کے پاس چلی گئی۔ اس کے گلے میں سرخ رنگ کا دوپٹا سا تھا۔ اُس میں آگ لگ گئی۔ پڑوسیوں کی آمد تک بچی جل کر جان دے چکی تھی۔ بابا دفتر سے آئے، تو بچی کو سیدو میں دفنانے کی بہ جائے گاؤں ابوہا لانا چاہتے تھے، تو انھی جانس پاچا کمان افسر کے ذاتی تانگے میں بچی کو ابوہا لایا گیااور اپنی ہی زمین کے ایک کونے میں دفن کردیا گیا۔
دیگر متعلقہ مضامین: 
ریاستِ سوات کے خاتمے کا مروڑ (ڈاکٹر سلطانِ روم)  
ریاستِ سوات اور سیاحت (کامریڈ امجد علی سحاب) 
ریاستی دور کا سوات سنیما (ساجد امان)  
ریاستِ سوات کا تاریخی چِرڑوں سنیما (فیاض ظفر) 
ریاستِ سوات کے تعلیمی وظائف (ڈاکٹر سلطانِ روم)  
ریاستِ سوات کا خفیہ فنڈ (ڈاکٹر سلطانِ روم) 
اسی ’’جانس‘‘ نام کا ایک حجام بھی سیدو شریف میں رہتا تھا، جو ریاست کے فوجی بینڈ میں ملازم تھا۔ اس کے ایک بیٹے کانام ’’منارس‘‘ تھا جو بعد از اِدغام پولیس بینڈ میں حوال دار لگا۔
ایک اور نامانوس سا نام جو ہمارے گاؤں کے دو تین افراد کے تھے۔ وہ ’’اومبارس‘‘ ہے، مگر کئی سال ہوگئے اب یہ نام متروک ہوگئے ہیں۔ ان ناموں کے سلسلے کے بعض نام ایرانیوں سے ملتے جلتے ہیں: جیسے قباد، کے خسرو، شماش وغیرہ۔
کسی زمانے میں ایک اور نام بھی بہت مقبول تھا جو مرد اور عورت دونوں کے لیے اکثر استعمال ہوتا تھا: ’’دلارم‘‘ (دل آرام)۔
بعض لوگوں کے پودوں والے نام بھی رکھے جاتے تھے۔ سیدو شریف میں بادشاہ صاحب کے عہد کا ایک فوجی کمان افسر تھا۔ اُس کا نام ’’شمکے‘‘ تھا۔ شمکے دراصل ایک طبی جڑی بوٹی ہے۔
موصوف کے ایک بیٹے ’’جہان دار‘‘ سکول میں استاد تھے اور ایک بیٹے ’’صدبر خان پاک فضائیہ میں کوئی بڑے افسر تھے۔
’’ریدی گل‘‘، ’’ریدے ماما‘‘، ’’گلاب‘‘، ’’رامبیل میاں‘‘، ’’کشمالے‘‘…… یہ پھولوں والے نام تو بہ کثرت استعمال ہوتے تھے۔ جنگلی پھولوں میں ’’گنڈیرے پاچا‘‘ اور ’’پھلواڑے میاں‘‘ تو ہم نے اسلام پور میں بہت سنے تھے۔
اس طرح خواتین کے بعض نام جو اَب بالکل متروک ہوچکے ہیں: ’’کوترہ پاپو‘‘، ’’تورانقہ چاچی۔‘‘ یہ تو ہمارے محلے کے نہایت قابلِ احترام خاندانوں کی خواتین کے نام تھے۔
ویسے جو لوگ کہتے ہیں کہ ’’ناموں میں کیا رکھا ہے!‘‘ بالکل غلط کہتے ہیں۔ ناموں میں بہت کچھ رکھا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔