فنونِ لطیفہ میں فنِ موسیقی کا مرتبہ بلند تر سمجھا جاتا ہے۔ انسانی تمدن اور معاشرت کی ترقیوں کے ساتھ اس فن کی ترقی پہلو بہ پہلو ہوتی رہی۔ جب سے انسانی تاریخ دنیا میں روشناس ہوئی، دنیا نے اس فن کو بھی پہچانا۔ فنونِ لطیفہ میں سے ہر ایک فن انسان کے حواسِ خمسہ میں سے کسی ایک حاسہ سے متعلق ہے۔
مصوری نے ترقی کی، تو انسان کے حاسۂ بصر پر اپنا معجز نما اثر ڈالا۔ بنی اسرائیل کی گوسالہ پرستی اس مصوری کا ایک کرشمہ ہے، لیکن موسیقی کا درجہ اس سے بھی بالا تر ہے۔
موسیقی کا قبضہ براہِ راست روح پر ہوتا ہے۔ جس قدر اس فن نے ترقی کی، اس کی دل فریبی بڑھتی گئی۔ انسان اور حیوان یکساں طور پر اس سے متاثر ہوئے۔ اس کی ہمہ گیری میں مذہب، قوم و ملت اور ملک کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ اس سے بھی آگے بڑھیے، تو وحشی اور متمدن اقوام کے تاثرات میں کوئی فرق نہیں، جن چیزوں کا فطرت سے تعلق ہے…… اُن کو کسی حالت میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا…… بلکہ وہ فطرت اور طبیعتِ حیوانی کے ساتھ پیدا ہوتی ہے۔ (1)
کچھ خواص ایسے ہیں جو نوعِ انسانی کے ساتھ مخصوص ہیں جیسے ہنسنا اور کچھ خواص ایسے ہیں جو حیوان کی جنس میں پائے جاتے ہیں، اور ہر جان دار میں یکساں نظر آتے ہیں…… جیسے سانس لینا۔ انہیں خواص میں سے موسیقی بھی ہے جس کا ہر جان دار پر جس میں قوتِ سماعت ہے، اثر ہوتا ہے۔ عرب کے بدو ایک خاص قسم کا راگ الاپتے ہیں جس کو سن کر اُونٹوں میں ایسا نشاط پیدا ہوتا ہے کہ وہ برابر چلتے رہتے ہیں۔
اس طرح جانوروں کو پانی پلاتے وقت ایک طرح کی سیٹی بجاتے ہیں جس سے اُن کا پانی پینے کی طرف میلان ہوتا ہے۔
سپیرا سانپ کے سامنے بین بجاتا ہے جس سے سانپ مست ہو کر کھڑا ہوجاتا ہے۔
چرواہے گائے، بکری اور بھینس اور اونٹ کو دوہنے کے لیے خاص قسم کا راگ گاتے ہیں جس سے دودھ اُن کے تھنوں میں اترتا ہے۔
تیتر اور بٹیر پکڑنے کے لیے شکاری کچھ گاتے ہیں جس کو سن کر وہ اپنی جگہ پر کھڑے ہوجاتے ہیں۔
بچوں کو سلانے کے لیے ایک مخصوص راگنی ہے جسے لوری کہتے ہیں، جس کو سن کر بچے سوجاتے ہیں۔ موسیقی کے اثرات روزمرہ کے تجربے ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ (2)
صاحبِ اخوان الصفا نے بیان کیا ہے کہ کسی مجلس میں ماہرینِ موسیقی جمع تھے۔ ایک شخص پریشان حال پھٹے کپڑوں میں وہاں آیا۔ صاحبِ خانہ نے جو ایک رئیس تھے، اس کو صدر جگہ بٹھا دیا۔ حاضرین کو یہ بات ناگوار ہوئی۔ رئیس نے یہ بات سمجھ لی اور اُس شخص سے گانے کی فرمایش کی۔ اُس شخص نے اپنی جھولی سے چند لکڑیاں نکالیں اور اُن کو جوڑ کر ان پر تار کھینچ دیے اور ایک راگ چھیڑی۔ تمام حاضرین پر ہنسی کا دورہ پڑ گیا اور سب ہنستے ہنستے بے تاب ہوگئے (غالباً یہ دادرا رہا ہوگا) پھر اُس نے ان تاروں کو بدلا اور دوسری راگ چھیڑی اس کا یہ اثر ہوا کہ حاضرین روتے روتے تھک گئے (غالباً یہ راگ جو گیارہا ہوگا) پھر اُس نے تاروں کو بدلا اور تیسری راگ چھیڑی اس کا اثر یہ ہوا کہ تمام حاضرین سوگئے (غالباً یہ راگنی نیلمبری تھی) گانے والے نے سب کو غافل پا کر وہاں سے راہِ فرار اختیار کی۔ (3)
ہندوؤں کے عقیدے کے مطابق موسیقی کو سنگیت کہتے ہیں۔ اُن کے نزدیک یہ فنِ بلاغت کی ایک شاخ ہے۔ ہندو علمائے بلاغت کا قول ہے کہ موسیقی بھی بلاغت ہے۔ موسیقی کو گندھیرو وید بھی کہتے ہیں۔ چاروں ویدوں رِگ وید، سام وید،یجروید اور اتھرووید کے علاوہ پانچواں وید گندھرووید ہے۔ اس کو گائین وِدّیا فنِ غنا بھی کہتے ہیں اور اسے سام وید کا ضمیمہ خیال کیا جاتا ہے۔
ناردجی نے کہا ہے کہ نہ تو مَیں جنت میں رہتا ہوں نہ عابدوں کے دل میں رہتا ہوں۔ میرے ماننے والے جہاں گاتے ہیں، مَیں وہاں رہتا ہوں۔ ہر قوم اورہر ملک میں فنِ موسیقی کے موجد کے متعلق مختلف اقوال ہیں جو ایک دوسرے سے بالکل جدا ہیں۔ اہلِ ہند کے حکما کی اس کے متعلق کچھ اور رائے ہے اور مسلمان ماہرینِ موسیقی کی رائے کچھ اور ہے۔ مورخین کی تحقیقات سے اتنا معلوم ہوسکا ہے کہ چین اور ہند کے آپس کے تعلقات کی قربت وجہ سے راگ اور راگنیوں کا دونوں میں اشتراک پایا جاتا ہے۔ اہلِ ہند اور عرب مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ موسیقی ستاروں اور سیاروں کے عمل سے وجود میں آئی۔
حکمائے اسلام جیسے فارابی، بو علی سینا اور اخوان الصفا نے بیان کیا ہے کہ پہلا شخص جس نے موسیقی کو بحیثیتِ فن دنیا کے سامنے پیش کیا، وہ فیثا غورث ہے۔ علامہ شہر ستانی لکھتے ہیں کہ فیثا غورث نیثار کا بیٹا تھا جو چھٹی صدی قبلِ مسیح میں گزرا ہے، وہ سامو کا رہنے والا تھا۔ 532ء قبلِ مسیح میں اس نے بہت ترقی کی۔ اس کے ملک کے لوگ اس کے مخالف ہوگئے۔ اس لیے اس نے اٹلی میں سکونت اختیار کی۔ وہاں اس کو بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ فریسیڈیس اس کا شاگرد بہت مشہور ہوا۔ کلانوس دو رزی بھی اس کا شاگرد تھا۔ وہ اس بات کا قایل تھا کہ موجودات کا قیام عدد سے ہے اور خدا نے سب سے پہلے اسی کو پیدا کیا۔ اس کا عقیدہ تھا کہ تمام عالم بسیط روحانی راگوں سے بنا ہے اور راگوں سے روح متاثر ہوتی ہے۔ اس کی رائے میں عالمِ اجسام میں جتنے تاثرات ہیں، جیسے رنگ، لذت و سرور، غم، شیرینی و تلخی وغیرہ یہ سب عالمِ ارواح میں جواہر ہیں۔ (4)
موسیقی کو روح کی غذا تسلیم کیا جاتا ہے۔ انسان نے آلاتِ موسیقی غاروں میں قیام کے دوران ہی ایجاد کرنے شروع کر دیے تھے۔ ان آلات یا سازوں نے بھی دوسری چیزوں کے ساتھ ساتھ ارتقائی ترقی کی ہے۔ تقریباً تین ہزار قبلِ مسیح تک ایسے آلاتِ موسیقی یا ساز وجود میں آ چکے تھے جن کی کوئی نہ کوئی شکل آج بھی رایج ہے۔ ایسے سازوں میں سے ایک ستار ہے۔ اس کا شمار دنیا کے قدیم ترین آلات موسیقی میں ہوتا ہے۔ (5)
ان میں بعض ساز ایسے ہیں جو ایجاد کے بعد مختلف ادوار میں ماہر سازندوں کی اختراع سے مزید سحرانگیز اور پُرلطف ثابت ہوئے۔ ستار وہ ساز ہے جس سے کلاسیکی موسیقی کا ہر شایق واقف ہے، مگر یہ کب ایجاد ہوا، اسے برصغیر میں کس نام سے جانا جاتا تھا اور کیا ستار کسی دوسرے ساز کی ایک شکل ہے؟
کبھی یہ سہ تار( تین تار) کے نام سے جانا جاتا تھا جسے بعد میں ستار کہا جانے لگا۔ ستار دراصل ایک پرانے ہندی ساز وینا کی سادہ شکل ہے۔ برصغیر میں کلاسیکی موسیقی کی دنیا اور اس کے شایقین میں اب یہ ساز ستار کے نام سے ہی مشہور ہے۔ چند دہائیوں قبل تک اسے بہت شوق اور دلچسپی سے سنا جاتا ہے اور آج بھی موسیقی کی محافل میں ستار لازمی ہوتا ہے۔ (6)
انسانی تہذیب و تمدن کی تاریخ میں سیکڑوں نام ایسے افراد کے ملیں گے جنھوں نے اپنی ذاتی قابلیت کی مدد سے اپنا نام ہمیشہ کے لیے جریدۂ عالم پر ثبت کردیا۔ ایسے لوگوں کی مقبولیت کے اسباب کا تجزیہ کوئی آسان کام نہیں۔ یہ لوگ اپنے جذبۂ ایجاد کے بل پر اپنے ہم عصر انسانوں پر ہی نہیں بلکہ ہر زمانے کے آدمیوں پر فوقیت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ انگریزی کی ایک مثال ہے: ’’تنوع کمال کا منافی ہے۔ ‘‘لیکن یہ مثال اوسط درجے کی قابلیت رکھنے والوں پر صادق آتی ہے۔ صدیوں میں افلاک کی گردشِ دوام سے کوئی نہ کوئی جامع شخصیت پیدا ہوہی جاتی ہے، جو اس عام قاعدے سے بالا تر ہوتی ہے۔ ایسے ہی خوش قسمت لوگوں میں سے ایک حضرت امیر خسرو بھی ہیں۔
خسرو کا شمار عام طورپر شعرا کی صف میں ہوتا ہے…… لیکن صرف وہ شاعر نہ تھے بلکہ کئی علوم و فنون میں یکتائے روزگار تھے۔ ایسے ہی فنِ موسیقی میں انھیں اس قدر مہارت حاصل تھی کہ اُس زمانے کے اُستاد بھی انھیں اپنا استاد مانتے تھے۔ موسیقی اور شاعری کا ہمیشہ ساتھ رہا ہے، تاہم یہ ضروری نہیں کہ ہر شاعر موسیقی داں بھی ہو۔ (7)
ستار، کلاسیکی موسیقی کا ایک نامور اور مشہورطرین ساز ہے، جو آج بھی ایشیا میں دلچسپی سے سنا اور بجایا جاتا ہے۔ ستار امیر خسرو کی ایجاد ہے، آپ نے وینا سے ایک تونبہ الگ کر کرے وینا کی تشکیل کی۔ (8)
چودھویں اور پندرہویں صدی میں جب مسلمانوں نے ہند میں اسلامی سلطنتیں قایم کیں، اسی زمانے سے مسلمانوں نے فنِ موسیقی کو پروان چڑھانا شروع کیا۔ سلاطین نے اپنے دربار میں ماہرینِ موسیقی کو داخل کیا اور موسیقی کو بہت اہمیت حاصل ہوئی اور فارسی راگوں نے ہندی راگوں سے مل کر نئی موسیقی کو جنم دیا۔ سلطان علاو الدین خلجی 1225تا 1316ء کے دربار میں امیر خسرو مشہور شاعر و ماہرِ موسیقی داخل ہوئے۔ ان کو فارسی راگوں پر عبور تھا۔ قوالی کے علاوہ فارسی اور ہندی کی اور بھی کئی راگیں انہوں نے ایجاد کیں۔ ستار میں بھی انہوں نے ترقی دے کر نئی ترمیمات کیں۔
اُس زمانے میں گوپال نانک کی موسیقی کا شہرہ تھا۔ بادشاہِ وقت نے اس کو بلا کر اس کا گانا سنا امیر خسرو نے اس کی راگوں کو بغور سنا پھر دوسرے موقع پر انہیں راگوں کو اُس سے بہتر گا کر سنا دیا۔
امیر خسرو نے جن راگوں اور راگنیوں کو موسیقی میں اضافہ کیا وہ یہ ہیں:
٭ مجر (غار اور فارسی)
٭ سارگیری (یورپی+ گورا) گن کلی + فارسی
٭ یمن (ہنڈول + فارسی)
٭ عشاق (سارنگ + بسنت + فارسی)
٭ موافق (وڈی+ماسری فارسی دو کا و حسینی)
٭ غنم (پوربی میں کچھ تبدیلی کی)
٭ زیلف (کھٹ رانگنی میں تصریف کیا)
٭فرغنہ (گن کلی + گورا)
٭ سرپردہ (گورسارنگ + فارسی)
٭ باخریز (دیکار+ فارسی)
٭ فردوست (کانھڑا + گوری+ پوربی + شیام کلیان + فارسی)
٭ صنم (کلیان + فارسی)
امیر خسرو نے ستار میں بھی کچھ اضافے اور ترمیم کر کے اُس کو چار تاروں والا آلۂ موسیقی بنایا اور چاروں تاروں کے الگ الگ نام دیے یعنی پہلے تار کو کویزر کہا۔ دوسرے تار کا نام مثنیٰ رکھا۔ تیسرے تار کو مثلث کہا اور چوتھے تار کا نام بیم رکھا۔
ستار، طبل اور دف عربوں کی ایجاد ہے…… مگر ایران میں جب ستار پہنچا، تو سہ تار کہا گیا یعنی تین تاروں والا باجا۔ (9)
ستار کے کدو کو تونبہ کہتے ہیں اور لمبی کھوکھلی لکڑی کو ڈانڈ کہا جاتا ہے۔ تونبے کی چھت پر ہڈی کے دو پل سے ہوتے ہیں جو جواریاں کہلاتے ہیں، ان پر سے تاریں گزرتی ہیں۔ ڈانڈ پر لوہے یا پیتل کے قوس سے بنے ہوتے ہیں جنھیں پردے یا سندریاں کہا جاتا ہے ۔
تاروں کا ایک سرا تونبے کے پیچھے ایک کیل سے بندھا ہوتا ہے اور دوسرا ڈانڈ میں لگی ہوئی کھونٹیوں سے آج کل سدار کے تاروں کی تعداد متعین نہیں، تاہم عموماً چار تاریں، دو چکاریاں اور تیرہ طربیں رکھی جاتی ہیں۔ پہلی فولاد کی تار باج کہلاتی ہے۔ دوسری پیتل کی جوڑی۔ تیسری فولاد کی پنچم اور جوتھی پیتل کی گندھی ہوئی دوہری تار گرام کہلاتی ہے۔ بعض لوگ گت میں شوخی پیدا کرنے کے لیے جوڑے میں ایک تار کی بجائے دو تاریں رکھتے ہیں۔ (10)
مورخین ہر فن کی تاریخ لکھنے میں اس فن کے موجد کی تحقیق ضرور کرتے ہیں۔ اسی اصول کے پیشِ نظر عرب مورخین نے بھی اس سلسلے میں یہ بحث کی ہے کہ وہ کون شخص ہے جس نے سب سے پہلے گایا؟ گانا انسان کے ساتھ پیدا ہوا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہنسنا، رونا، چیخنا، گانا وغیرہ انسانی فطرت ہے۔ انسان جب پیدا ہوتا ہے، تو تمام امورِ فطرت اس کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ اس کے متعلق اتنا سمجھ لینا کافی ہے کہ سب سے پہلے جو انسان پیدا ہوا وہ ہنسا ہوگا یا رویا ہوگا ، گایا ہوگا۔ یہ تحقیق ضروری ہے کہ موسیقی نے فن کی صورت کب سے اختیار کی، موسیقی کا وجود کب ہوا،اس کی ترقی کی رفتار کیا تھی، کس زمانے میں اس کا عروج و زوال ہوا، اس کے کیا اسباب تھے، اس فن پر کتنی کتابیں لکھی گئیں؟
ابتدائی انسانی تمدنی دور میں موسیقی سے متعلق معلومات معتبر تاریخوں میں دستیاب نہیں ۔ ساتویں صدی قبل مسیح کے کچھ کتبے ملے ہیں جن سے اتنا معلوم ہوتا ہے کہ اسیرین کے زمانے میں کچھ عرب قیدی آئے تھے جو رؤسا کی مزدوری کرتے تھے۔ یہ قیدی کام بھی کرتے تھے اور گاتے بھی تھے۔ اُن کا گانا اسیرین کو پسند آیا۔ اسیرین فونیشین یہود اور عرب میں تجارتی رابطے قایم تھے اور زبان کا بھی اشتراک تھا جس نے مذاقِ موسیقی کے لیے زمین ہم وار کی۔ (11)
پروفیسر اسٹیفن لکھتا ہے کہ اسیرین اور یہودیوں کی موسیقی میں گہرا تعلق رہا ہے۔ یہود عرب اور اسیرین میں اشتراک اور تعلقات کافی گہرے تھے۔ اس لیے ان کی موسیقی اور اسیرین میں الفاظ کی بہت مماثلت ہے۔ مثلاً اسیرین میں شرو اور عربی میں شاعر ایک ہی ماخذ ہے۔ سریانی میں شروگانا عبرانی میں شیر بہ معنی گانا سریانی میں زمار و عبرانی میں زمرہ اور عربی میں منزماربہ معنی گانا سریانی میں الوبہ معنی نوحہ عبرانی میں ایلل عربی میں دلوال بہ معنی نوحہ۔
سریانی میں موسیقی کے لیے عام لفظ نیگوتویاننگو تو مادہ ناگو بمعنی آواز عبرانی ناگن۔ بہ معنی ستار بجانا اسی سے لفظ نگینا بنا بہ معنی موسیقی یار تار والا باجا۔ سریانی میں آن بمعنی راگ عبرانی میں انا عربی میں غنا باجوں کے لیے سریانی زبان میں لفظ طبلو (ڈھول) اور اداپو (طبلہ) عبرانی اور آرامی میں طبیلا اور تو پھر عربی میں طبل اور دف عبرانی میں زنمیر بانسری عربی میں زمرسریانی میں قرنو عبرانی میں قرنِ عربی میں قرن وغیرہ۔
موسیقی کو ہندوؤں کے عقاید کے مطابق مذہب کا درجہ حاصل ہے اور قدیم ویدک دور سے ہی موسیقی کو بہت متبرک مانا جاتا ہے۔ موسیقی کے ذریعے بہت سے امراض کا علاج ہندوؤں میں بہت قدیم دور سے چلا آرہا ہے۔ بہت سی راگ راگنیوں کے اثرات موسم اور انسان کے مزاج پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔ مثلاً بھیروں راگ کے اثر سے کولہو خود بخود چلنے لگتا ہے۔ مالکوس راگ کے اثر سے پتھر پگھل جاتے ہیں۔ راگ ہنڈول کے اثر سے جھولا خود بخود متحرک ہوجاتا ہے۔ دیپک راگ سے چراغ روشن ہوجاتے ہیں۔ شری راگ کی تاثیر سے سیاہ آندھی آتی ہے اور میگ راگ کی تاثیر سے پانی برستا ہے۔ (12)
شاستروں میں لکھا ہوا ہے کہ مہا دیو نے آسمان کی گردش کی آوازیں سن کر سات سُر قایم کیے۔ پھر ان کو سات سیاروں کی تعداد پر مرتب کیا گیا۔ پھر بارہ بروج کے مطابق ان کے بارہ سُر قایم کیے گئے اور پھر ہر ایک کا علاحدہ نام رکھا گیا۔ ان سب کا مجموعہ سرگم ہے۔ سات سر کو سپتھک کہا جاتا ہے یعنی سات سروں کا مجموعہ۔ ان سات سروں کو تین سے ضرب دینے پر اِکیس سر ہوئے۔ اس اصول سپتھک پر ہارمونیم کے سُر قایم کیے گئے۔ ان میں سے ہر ایک سر دوسرے سے اِکیس درجوں تک اونچا ہوتا ہے۔
سارے گاما پا دھانی سے بارہ سر اس طرح بنے سارِ رِگ گ م مَ پَ دَھ دَھ نِی نِی۔
راگ: انسان کی زبان سے جو آواز گلے، زبان، تالو، ہونٹ، ناک وغیرہ سے نکلتی ہے، اس کو سُر کہتے ہیں۔
ہندوؤں میں چھے راگ اور چھتیس راگنیاں تسلیم کی جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر چھے راگ یہ ہیں بھیرو راگ، مالکوس راگ ، راگ ہنڈول، دیپک راگ، شری راگ، میگھ راک۔ (13)
مسلمانوں نے بھی اپنے دورِ اقتدار میں فنِ موسیقی کی زبردست سرپرستی کی۔ اس میں اضافے کیے اور اس طرح اس فن کو ترقی کی انتہائی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ عربوں، ایرانیوں، ترکوں، مغلوں، افغانوں وغیرہ میں اس فن کے عظیم ماہرین پیدا ہوئے…… جن کے درخشندہ کارناموں کو قیامت تک فراموش نہیں کیاجاسکتا۔
رسایل اخوان الصفا میں رسالہ موسیقی جس کا ماخذ ابو یوسف یعقوب ابن اسحاق الکندی متوفی 874ء ہے جو عرب کے شریف خاندان سے تھا۔ بصرہ میں 790ء میں پیدا ہوا۔ المامون 813-33ء اور المستعصم 1833-42ء کے مزاج میں اسلامی تعصب اور مذہبی رنگ غالب تھا۔ الکندی کی مذہبی ترقی پسندی اس نے پسند نہیں کیا اور اس کے تمام کتب خانے کو ضبط کرلیا۔ اس کو عرب کا فلسفی کہتے تھے۔ اس نے فلسفے کے علاوہ موسیقی پر بھی بہت سی کتابیں لکھیں اور موسیقی کو بہت ترقی دی۔ اُس کی مشہور تصانیف میں سے رسالہ فی ترتیب النغم، رسالہ بھی الایقاع الیٰ صناعۃ الموسیقی، رسالہ فی الاخبار عن صناعۃ الموسیقی، کتاب لعزم فی تالیف اللحون بہت مقبول ہوئیں۔
کمال لادین ابوالفضل جعفر بن تعلب الادنوی متوفی 749 ہجری اپنی کتاب الامتاع میں لکھتے ہیں کہ ابو ہلال عسکری نے اپنی کتاب وائل الاعمال میں لکھا ہے کہ اکثر علما کا اتفاق ہے کہ پہلا شخص جس نے گانا گایا وہ طولیس ہے۔ اس کا نام ابو عبدالمنعم عیسیٰ ابن عبداللہ الداعب 632ء سے 701ء میدنے کا رہنے والا تھا۔ حضرت عثمان کی والدہ ہاروی نے اس کی پرورش کی۔ فارسی غلاموں کے گانے سنے تھے جو اُس کو پسند آئے اور ان کی نقل کی۔ حضرت عثمان کی خلافت کے آخری دور میں 644ء میں اس کو بہت شہرت حاصل ہوئی۔ اپنی مہارتِ موسیقی کی وجہ سے مدینے میں اس کی بہت عزت تھی۔ (14)
شام بن طویس سعید ابن مسیح نام ابو عثمان سعید ابن مسجع متوفی 751ء مشہور ماہر موسیقی مکہ میں پیدا ہوا۔ ابن سریج نام ابو یحییٰ عبیداللہ ابن سریح 634-726ء ایک ترکی غلام کا لڑکا تھا۔ مکہ میں پیدا ہوا۔ فارسی راگیں گاتا تھا۔ زبردست ماہرِ موسیقی تھا اور اس نے فن میں قابلِ قدر اضافے کیے۔ ابن مسجح کا شاگرد تھا۔ طویس سے بھی کچھ سیکھا تھا۔ سکینہ بنت الحسین اس کی سرپرست تھیں۔
اسلامی دورِ اقتدار میں اسپین میں ایک عرب زریاب نامی وہ جامع کمالات ایک عظیم سائنس داں ہونے کے علاوہ زبردست ماہر موسیقی تھا جس نے موسیقی کو بہت ترقی دی اور اضافے کیے۔ موسیقی پر بہت سی کتابیں لکھیں۔
ابو نصر فارابی ترکستان کے شہر فاراب میں 259ہجری نویں صدی عیسوی کے اواخر میں پیدا ہوا۔ وہ ایک عظیم سائنس داں، فلسفی ، ادیب اور ماہرِ موسیقی تھا۔ اس نے مختلف موضوعات پر ایک ہزار سے زائد کتابیں لکھیں۔ اس کی کتابوں کے ترجمے یورپی زبانوں میں ہوئے اس کو ارسطو ثانی کہا جاتا تھا۔ مسلم دانشوروں میں وہ بہت اعلا و ارفع حیثیت کا مالک تھا۔
ابوالحسن علی المسعودی نویں صدی عیسویں کے آخر میں بغداد میں پیدا ہوا۔ وہ ایک سائنس داں، دانشور، فلسفی اور عظیم ماہرِ موسیقی تھا جس نے کئی راگ و راگنیوں کا اضافہ کیا اور فنِ موسیقی کو بامِ عروج پر پہنچایا۔
شیخ الرئیس ابن سینا، بخارا کے ایک قصبے افشیہ میں 980ء میں پیدا ہوا۔ وہ ایک عظیم سائنس داں اور ریاضی داں تھا۔ فنِ موسیقی کا بڑا ماہر تھا۔ موسیقی پر اس کی کئی کتابیں ہیں۔
نصیرالدین طوسی 18 فروری 1201ء میں خراسان میں پیدا ہوا ۔وہ ماہر سائنس داں تھا۔ اس نے سائنس، فلسفہ، ریاضیات، فلکیات، نوریات اور جغرافیہ پر بہت سی کتابیں تصنیف کیں۔ وہ ایک عظیم ماہرِ موسیقی بھی تھا اور اس فن پر بھی اس کی بہت سی تصانیف ہیں۔ (15)
قبل از اسلام عربوں میں موسیقی کا بہت رواج تھا جسے اسلام آنے کے بعد بھی عربوں نے برقرار ہی نہیں رکھا، بلکہ اس میں زبردست اضافے کیے۔ طلوعِ اسلام سے کچھ پہلے عرب میں دو گانے والی عورتیں بہت مشہور تھیں، جن کو عاد کی جرامہ تان کہتے تھے۔ مکہ کے لوگ اُن کے گانے پر دل و جاں سے فریفتہ تھے۔ اسی طرح بنو جدیس کی دو ماہر گانے والی لڑکیاں ہذیلہ اور عفیرہ تھیں۔ بعض مورخین کا خیال ہے کہ حاتم طائی کی ماں بھی بہترین گانے والی تھی۔ الخنسا ایک مشہور مرثیہ گو تھی جو مرثیے گاتی تھی۔ اسی طرح ہند بنت عتبہ مشہور شاعرہ اور گانے والی تھی بنت عفرن بھی ایک ماہر موسیقار تھی۔ حریرہ اور خلیدہ بشیر ابن عمر کی گانے والی لڑکیاں جو النعمان ثالب متوفی 602ء کے عہد میں الحرا کا سر برآ وردہ شخص تھا جو حضرت محمدؐ کے دربار میں بعد ہجرت حاضر ہوا تھا۔ مالک ابن خیبر مغنی ایک اور گانے والا جو بنوطے کے ایک وفد میں 630ء میں حاضر ہوا تھا۔ طبری لکھتا تھا کہ یہ مالک ابن عبداللہ ابن خیبری تھا۔ (16)
مغلوں کے دور میں دکن سے کچھ ماہرینِ موسیقی دہلی آئے جن میں ترھٹ کے راجہ شیر سنگھ کے درباری لوچن کوی بھی تھے۔ انہوں نے راگ ترنگی دریافت کیا۔ اکبر بادشاہ (1543-1605ء) کو موسیقی کا بڑا شوق تھا۔ اس کے زمانے میں عربی فارسی راگوں کو ہندی راگوں میں ملا کر موسیقی کو نیا رنگ دیا گیا۔ عہدِ اکبر ی میں ہری داس فقیر و رندا بن کا رہنے والا جو ماہرِ موسیقی تھا، تان سین کا استاد تھا۔ تان سین گوالیار کا رہنے والا تھا…… جسے شہنشاہِ موسیقی تسلیم کیا جاتا ہے۔ وہ اکبر کا درباری تھا۔ اس کو نو سو نناوے راگوں پر قدرت تھی۔ دیپک راگ اسی زمانے میں موقوف ہوئی۔ اس لیے کہ اس سے اکثر آگ لگ جاتی تھی۔
اکبر کے دربار میں راجہ مان سنگھ گوالیاری موسیقی کا بہت بڑا سرپرست تھا۔ آج تک گوالیار موسیقی کی روایات کا عظیم مرکز تسلیم کیا جاتا ہے۔
شاہجہاں کے دربار میں بھی گانے والوں کی بڑی عزت تھی اور اس دور میں بھی موسیقی نے بڑی ترقی کی۔ اُس دور کا مشہور ماہرِ موسیقی جگن ناتھ نامی ایک شخص تھا جسے کوی راج کا خطاب ملا تھا۔ لال خاں جوتان سین کی اولاد میں سے تھا اور فنِ موسیقی کا بہت بڑا ماہر تھا، اسے بھی بہت سے انعامات سے نوازا گیا تھا۔ ایک موقع پر جگن ناتھ اور لال خاں کو شاہجہاں نے ان کی مہارتِ فن کے صلے میں ان کے وزن کے برابر چاندی جس کی قیمت چار ہزار پانچ سو روپے ہوتی تھی، انعام دیا۔
اورنگ زیب کے دور میں البتہ موسیقی کی ہمت افزائی نہیں ہوئی، اور نہ دربار تک رسائی ہوسکی۔ اس کا سبب اورنگ زیب کا مذہبی کٹر پن تھا۔ اس کے عہد میں ایک بار چند گوپیوں نے ایک جنازہ بنایا اور اسے لے کر روتے ہوئے اورنگ زیب کے محل کے قریب سے گزرے۔ اورنگ زیب نے دریافت کیا کہ کس کا جنازہ ہے، تو دربایوں نے جواب دیا کہ موسیقی کا جنازہ ہے۔ لوگ دفن کرنے کے لیے جا رہے ہیں۔ اورنگ زیب نے کہا کہ اس کو بہت گہری قبر میں دفن کریں، تا کہ پھر کبھی باہر نہ آئے۔ (17)
انگریزوں کے دور میں ابتدا میں موسیقی راجہ و شہزادگان اور نوابانِ ہند کے درباروں تک محدود رہی۔ انگریز ہندی راگ راگنیوں کو بے اصول و بے قاعدہ سمجھتے تھے۔ اس لیے انہوں نے اس پر کوئی خاص توجہ نہیں دی، تا ہم سرولیم جونس اور سر ڈبلو او سے، کیپٹن ڈے اور کیپٹن دلار نے ہندی موسیقی کاکا فی مطالعہ کیا اور اس فن میں مہارت حاصل کی۔
سلطان حسین مشرقی بادشاہ جونپور فنِ موسیقی میں بڑی مہارت رکھتے تھے۔ انہوں نے سات راگیں ایجاد کیں، جو اَب تک ماہرین گاتے ہیں۔ مخدوم بہا الدین ذکریا ملتانی متوفی 666 ہجری ملتان کے قاضی اسلام اور بڑے درویش تھے۔ موسیقی کے بہت بڑے ماہر تھے۔ اُن کی ایجاد کی ہوئی راگیں فنِ موسیقی کی کتابوں میں درج ہیں۔
سلطان عالم واجد علی شاہ، اودھ کے نواب فنِ موسیقی کے بہت بڑے ماہر تھے۔ انہوں نے دھنا سری، بھیم پلاسی اور ملتانی کو باہم ملا کر سلطانی راگنی ایجاد کی گئی۔
عہد اکبر کے ماہرینِ موسیقی:۔
٭ میاں تان سین، شیخ محمد غوث گوالیاری کے بڑے محبوب تھے، انہیں کے روضے سے متصل مدفون ہوئے ۔
٭ سبحان خان نے مدینے میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضہ مبارک کے سامنے ایک نعت دھرپت راگنی میں گایا تھا۔ مدینے میں قیام کیا اور مرنے کے بعد جنت البقیع میں دفن ہوئے۔
٭ سرگیان خان فتح پوری۔
٭ چاند خاں۔
٭ سورج خاں۔ (دونوں بھائی تھے )
٭ تان ترنگ خاں (پسرتان سین)
٭ میاں چندو خاں۔
٭ میاں داؤد خاں۔
٭ ملا اسحاق۔
٭ شیخ خضر۔
٭ شیخ بجو۔
٭ حسن خان۔
٭ مرزا عاقل۔
فنِ موسیقی کو چھے راگ اور چھتیس راگنیوں میں بنیادی طور پر تقسیم کیا گیا، لیکن اس کے بعد ان کو مزیدیوں بھی تقسیم کیا گیا کہ ہر ایک راگ کی بیوی جس کو بارما کہتے ہیں اور اُس کے لڑکے اور پھر ہر لڑکے کی بیویاں جس کی تفصیل فنِ موسیقی پر مرتب کتابوں میں درج ہے۔ ان سب کا ذکر خود ایک طویل داستان ہے…… جس کے لیے ہزاروں صفحات درکار ہیں۔ ان تمام راگوں، راگنیوں اور اُن کے ملحقات میں سے بعض کو بعض کے ساتھ ملا کر ہزاروں کی تعداد میں راگیں اور راگنیاں بنتی گئیں۔
راگ راگنیوں کا دیوتا:۔ ہندوؤں کے عقیدے کے مطابق ہر راگ اور راگنی کا ایک دیوتا یعنی موکل مانا گیا ہے…… جو اُس راگ راگنی کا محافظ ہے۔
یہ عقیدہ اہلِ ہند میں اس طرح عام ہے جس طرح حکمائے یونان اور مسلمانوں میں اشراقین و مشایخین تسلیم کرتے ہیں۔ مشایخین اس کو رب النوع کہتے ہیں اور اشراقین رب الاصنام سے تعبیر کرتے ہیں۔ مجوسی اس کو اردی بہشت کہتے ہیں۔ اس لیے کہ وہ بھی اس فلسفے کے ماننے والے ہیں۔ قدیم یونانی فلسفی ہر مس اور افلاطون وغیرہ بھی اس کے قایل تھے۔
ہند میں علاو الدین خلجی سے محمد شاہ تک قریب سبھی فرماں راؤں نے موسیقی کی سرپرستی کی اور اس طرح موسیقی نے مندروں میں پوجا پاٹ کے ساتھ دربار میں بھی رسائی حاصل کی۔
امیر خسرو نے ہندوستانی موسیقی میں ایرانی نغمات کو شامل کیا۔ ستار و طبلہ جیسے ساز ایجاد کیے۔ قوالی، خیال، مندروں کی دھرپد، دربار کی دھرپدر، اگنیاں ایجاد کیں۔ اکبر کے دور میں موسیقی نے بہت ترقی کی اور تان سین جیسے فن کار کو دنیا نے دیکھا۔(18)
حوالہ جات:۔
1 تا 4) اردو چینل ڈاٹ این، ’’فن موسیقی- ایک جائزہ‘‘، بزمی عباسی چریا کوٹی۔
5) اے آر وائی نیوز، سہ تار جو ستار ہو گیا!
6) روزنامہ دنیا ، آلاتِ موسیقی کب ایجاد ہوئے ؟، اخلاق احمد قادری، 12 فروری 2020ء
7) اردو ڈاٹ آواز دی وائس ڈاٹ کام، امیر خسرو کی موسیقی اور شاعری، جعفر دانش، 23 مئی 2022ء
8) وکی پیڈیا، ستار۔
9) اردو چینل ڈاٹ این، ’’فن موسیقی- ایک جائزہ‘‘، بزمی عباسی چریا کوٹی۔
10) ویکی پیڈیا، ستار۔
11 تا 18) اردو چینل ڈاٹ این، ’’فن موسیقی- ایک جائزہ‘‘، بزمی عباسی چریا کوٹی۔
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔