آخر وہ کیا وجوہات تھیں کہ جن کی وجہ سے انگریزون کو ہندوستان چھوڑ کر جانا پڑا؟ ابتدائی دور کے انگریز منتظمین جو یہ سمجھتے تھے کہ ان کا اقتدار ہمیشہ رہے گا اور ان کی امپائر کو کبھی زوال نہ ہوگا، آخر وہ کیوں اس پر مجبور ہوئے کہ اپنی امپائر کے اس ہیرے کو چھوڑ دیں؟
اس کی دو وجوہات تھیں:
ایک تو یہ کہ آئینی اصلاحات کے نتیجہ میں آہستہ آہستہ اہلِ ہندوستان حکومت کے کار و بار اور انتظام میں شریک ہوتے رہے، یہاں تک کہ 1940ء کی دہائی میں یہ صورت ہوگئی کہ برطانوی عہدے داروں اور حکومت کے لیے اپنا اقتدار قائم رکھنا محال ہوگیا۔ اس کے ساتھ ساتھ معاشرہ میں اُٹھنے والی سیاسی تحریکیں اس قدر طاقتور ہوگئیں کہ ان کو تشدد سے کچلنا بھی ناممکن ہوگیا۔ اس لیے برطانوی حکومت جو دو جنگوں کے بعد مضمحل اور خستہ ہوچکی تھی، اس کے لیے اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تھا کہ وہ اپنے نوآبادیاتی نظام سے دستبردار ہوجائے۔
دوسری اہم وجہ یہ تھی کہ سیاسی تحریکوں، سول نافرمانی، ولایتی مال کا بائیکاٹ، سودیشی تحریک اور ہندوستان میں ابھرتی ہوئی صنعتوں نے ہندوستان کو معاشی طور پر برطانیہ کے لیے فائدے کی بجائے نقصان کا باعث بنا دیا اور ان کا تجزیہ یہ ہوا کہ یہ ان کے لیے اقتصادی لحاظ سے ایک بوجھ بنتا جا رہا ہے۔ لہٰذا اس کا حل اسی میں ہے کہ اسے آزادی دے کر برطانوی سرمایہ کو جو یہاں پہلے سے موجود تھا، اس کی حفاظت کی جائے۔
جب ملک آزاد ہوا، تو یہ ہندوستان کی تاریخ کا اہم واقعہ تھا کہ اس مرتبہ غیرملکی حکمران ہندوستانی بن کر اس کے معاشرے میں ضم نہیں ہوئے، بلکہ اپنی علیحدگی کو برقرار رکھتے ہوئے یہاں سے رخصت ہوگئے۔
(’’برطانوی راج‘‘ از ’’ڈاکٹر مبارک علی‘‘، مطبوعہ ’’تاریخ پبلی کیشنز‘‘سنہ اشاعت 2016ء، صفحہ نمبر 94 سے انتخاب)