وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے قیام کے بعد پاکستان کے سب سے بڑے آئینی عہدہ صدرِ مملکت کے انتخاب میں آصف علی زرداری نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی اور 10 مارچ کی شام عہدے کا حلف اُٹھا کر مسندِ صدارت پر براجمان ہوگئے۔
بہ ظاہر حلف برداری کی تقریب اک معمول کی کارروائی جو آئینی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے منعقد کی جاتی ہے، لیکن میری نظر میں حلف برداری کی یہ تقریب بہت ہی زیادہ اہمیت کی حامل تھی۔ سٹیج پر چار نمایاں شخصیات براجمان تھیں۔ جن میں نو منتخب صدر آصف علی زرداری، وزیرِاعظم شہباز شریف، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سبک دوش ہونے والے صدر عارف علوی۔
ایڈوکیٹ محمد ریاض کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/adv/
سابق صدر عارف علوی کا اس تقریب میں شامل ہونا ان کے سابقہ طرزِ عمل کے برعکس اچھا اور قابلِ تعریف اقدام ہے۔ اسی طرح مہمانوں کی نشستوں پر براجمان افراد میں نواز شریف اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیرنمایاں تھے۔
تقریب میں ٹی وی اسکرین پر جیسے جیسے یہ نمایاں شخصیات نظر آئیں، تو بے اختیار یہ قرآنی آیت ذہن میں آئی ’’و تعز من تشاء و تذل من تشاء۔‘‘
یاد رہے آصف علی زرداری، نواز شریف اور شہباز شریف ایسی سیاسی شخصیات جن کو سابق وزیرِ اعظم عمران احمد خان نیازی نے اقتدار کے نشے میں اپنے ہینڈلرز کے ذریعے ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی، مگر یہ افراد نہ ٹوٹے نہ ہی بکھرے…… بلکہ طویل سیاسی جد و جہد کے ذریعے نہ صرف سیاسی بلکہ عدالتی محاذ پر بھی سرخ رو ہوئے۔ رعونیت، تکبراورطاقت کے نشے میں عمران خان نے سیاسی مخالفین کو چُن چُن کر قید و بند کی صعوبتوں میں دھکیلا۔ پروپیگنڈا مشینری کے ذریعے ’’چو ر ڈاکو، چور ڈاکو‘‘ کی ایسی کیسٹ چلوائی کہ چاہتے نہ چاہتے ہوئے عام پاکستانی اس پروپیگنڈے کا شکار ہوتا دِکھائی دیا۔ وہ علاحدہ بات ہے کہ ثبوتوں کی عدم دست یابی کی بنا پر زیرِ عتاب سیاسی لیڈر شپ عدالتوں سے باعزت بری ہوتی رہی۔
ایک طرف سیاسی مخالفین کے خلاف من گھڑت مقدمات کا اندارج معمول بن چکا تھا، تو دوسری جانب اپنی حکومت اور جماعت کے افراد کے خلاف کرپشن الزامات پر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیے رکھیں۔ ’’مثالی صوبہ خیبر پختونخوا‘‘ میں ’’مثالی جماعت تحریکِ انصاف‘‘ کی ’’مثالی حکومت کی کارکردگی‘‘ کا منھ بولتا ثبوت حال ہی میں منتخب وزیرِ اعلا خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پورکی پریس کانفرنس میں آشکار ہوا، جس میں اُن کا کہنا تھا کہ 10 سال میں صوبہ خیبر پختونخوا پر ایک ہزار ارب کا قرضہ چڑھا، مگر صوبے میں ایک منصوبہ بھی نظر نہیں آرہا۔
دیگر متعلقہ مضامین:
کیا عمران خان دوسرے بھٹو بننے جا رہے ہیں؟
عمران خان مکافاتِ عمل کا شکار
عمران خان کے کاغذاتِ نام زدگی کیوں مسترد ہوئے؟
ایم پی اے فضل حکیم خان یوسف زئی کے نام کھلا خط
عمرانی دورِ حکومت میں نواز شریف جس کی بیرک سے ایئر کنڈیشنر اُتارنے کی بھڑکیں ماری جاتی تھیں، آج وہ کنگ میکر بن چکا ہے۔
اس طرح جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بات کی جائے، تو عمرانی دورِ حکومت نے اپنے ہینڈلرز کے ذریعے موصوف جج کے خلاف ہر ہتھکنڈا استعمال کیا، تاکہ ان کو عدالت سے برخاست کروایا جاسکے ۔ اقتدار کا نشہ ختم ہونے کے بعد عمران خان نے اعتراف کیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس دائر کرنا بہت بڑی غلطی تھی۔ جنرل عاصم منیر کی بات کی جائے، تو عمران خان نے دورانِ اقتدار اور بعد از اقتدار ہر ممکن کوشش کی کہ کسی طرح عاصم منیر آرمی کے چیف تعینات نہ ہوسکیں۔
یاد رہے عمران خان کی موصوف جنرل سے نفرت کی وجہ بہ طورِ ڈی جی آئی ایس آئی عمران خان کی بیوی پنکی پیرنی اس کی سہیلی فرح گوگی اور عثمان بزدار کی کرپشن کہانیوں کو آشکار کرنا تھا۔ قدرت کی شان، جس کو عہدے سے ہٹایا اور آرمی چیف بننے سے روکنے کے لیے راولپنڈی اسلام آباد لانگ مارچ تک کر ڈالا، وہی جنرل آج پاکستانی آرمی کا چیف آف اسٹاف بن چکا ہے۔
بہ ہرحال یہ مکافاتِ عمل کی دنیا ہے۔ جیسا کروگے ویسا بھرو گے۔ یاد رہے پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے دہائیوں تک اک دوسرے کے خلاف محاذِ جنگ قائم کیے رکھا، جس کا نتیجہ بالآخر غیر منتخب افراد کی مسندِ اقتدار تک رسائی کی صورت میں سامنے آیا۔ گالی گلوچ ، افراتفری کی سیاست اور غیر منتخب افراد کے ہاتھوں کٹھ پتلی بننے اور چور دروازے سے مسندِ اقتدار تک پہنچنے کی سیاست کو خیر باد کَہ کرتعمیری اورآئینی سیاست کی بابت نواز شریف اور بے نظیر بھٹو نے بھائی بہن بن کر میثاقِ جمہوریت پر دستخط کیے۔ مخالفین سے ’’مسٹر ٹین پرسنٹ‘‘ کا خطاب حاصل کرنے والے آصف علی زرداری نے اپنے کندھوں کی خدمات فراہم کرتے ہوئے اپنے سیاسی حریف شہباز شریف کو وزارتِ عظمیٰ جیسی اعلا ترین حکومتی گدی کا وارث بنایا۔ لاڑکانہ سے لاہور کی سڑکوں تک گھسیٹنے کے دعوے دار شہباز شریف نے آصف علی زرداری کو گھسیٹ کر ایوانِ صدر تک پہنچا دیا۔ آج مذکورہ افراد صدر، وزیرِ اعظم، چیف جسٹس آف پاکستان اور چیف آف آرمی اسٹاف جیسے پاکستان کے اعلا ترین آئینی مناصب پر فائز ہوچکے ہیں۔
اِک بہت ہی مشہورضرب المثل ہے کہ ’’جاکو راکھے سائیاں، مار سکے نہ کوئے‘‘ یعنی جس کو خدا بچائے اُس کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ مذکورہ افراد کو جو ختم کرنا چاہتا تھا، وہ آج خود کرپشن، چوری، اخلاقی کرپشن، ریاستِ پاکستان اور ریاستی اداروں پر حملہ آور ہونے کی پاداش میں ’’قیدی نمبر 804‘‘بن چکا ہے۔اللہ کریم سے دعا ہے کہ وہ عمران احمد خان نیازی کے حال پر رحم فرمائے، آمین ثم آمین۔ یاد رہے کہ سدا بادشاہی میرے رب کی ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔