ایسے تھے ہمارے مہربان حکم ران (والی سوات)

(نوٹ:۔ یہ تحریر محترم فضل رازق شہابؔ کی انگریزی یادداشتوں میں سے ایک کا ترجمہ ہے، مدیر لفظونہ ڈاٹ کام)سوات کے حکم ران میاں گل جہانزیب (والیِ سوات) کو سرکاری ملازمین کی بڑی فکر رہتی تھی۔ انھیں سوات اور اس کی ماتحت علاقوں کے لوگوں سے توقع تھی کہ وہ ریاستی اہل کاروں کی عزت […]
مینگورہ گریویٹی سکیم: جتنے منھ اتنی باتیں

آج کل مینگورہ کے لیے مستقل آب نوشی کا منصوبہ شدید تنقید کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ اس کے حوالے سے ہر کس و ناکس اپنا اپنا راگ الاپ رہا ہے۔منصوبے میں مالی بے قاعدگیوں، کرپشن، کک بیکس اور فنی خامیوں کا ذکر کوئی نہیں کررہا۔ بس سب کی تان اس بات پر آکر ٹوٹتی […]
ہمارا بچپن

ہمارے بچپن کے افسر آباد میں مختلف طبقات کے لوگ رہتے تھے۔ یہ ایک بالکل "Harmonious” بستی تھی۔ ایک بات جو اُن دنوں کی مجھے یاد ہے۔ ہم اپنے کھیلوں میں حقیقت سے زیادہ "Phantasies” کے رنگ بھرتے اور خود کو یقین دلاتے کہ ہاں ایسا ہی ہورہا ہے، جیسا ہم دیکھنا یا دکھانا چاہ […]
کبھی خواب نہ دیکھنا (اُنتالیس ویں قسط)

ہمارے سواڑئی، بونیر منتقل ہونے سے بہت پہلے کی بات ہے، کہ ہمارے ایس ڈی اُو خورشید علی خان کا تبادلہ سیدو شریف ہوگیا اور سبز علی خان نامی ایک صاحب نے چترال سے ڈگر آکر چارج سنبھال لیا۔ وہ اس وقت غیر شادی شدہ تھا۔ وہ اپنے ساتھ چترال سے ایک 14 سال کا […]
کبھی خواب نہ دیکھنا (اکتیس ویں قسط)

عمومی خیال یہ ہے کہ والیِ سوات ریاستی ملازمین کو، جب وہ ان کی کارکردگی سے ناخوش ہوتے، جسمانی طور پر سزا دیتے۔ یہ بات کافی حد تک درست ہے، لیکن ایسا فرعونیت یا بدمزاجی کی وجہ سے نہیں تھا، بل کہ اپنی رعایا کو فرائض میں غفلت برتنے پر ایک باپ کی طرح یاد […]
کبھی خواب نہ دیکھنا (پچیس ویں قسط)

کبھی کبھی، مَیں اپنے باس کے رویے سے پریشان ہوجاتا تھا۔ مجھے اندازہ نہیں ہو پا رہا تھا کہ وہ مجھے مخالف کیمپ میں سمجھا ہے یا اپنی طرف؟ ریاست کے بعض اعلا افسران نے بالواسطہ طور پر اس کا مذاق بھی اڑایا، لیکن مَیں نے ان سازشوں سے دور ہی رہنے کی کوشش کی۔ […]
ڈاکٹر لوکا اور جانو جرمن

1964ء کی بات ہے، ہم مختلف سائٹس کا انسپکشن کرتے کرتے میاندم پہنچ گئے۔ وہاں کے ریاستی گیسٹ ہاؤسز میں جو بڑا اور وی آئی پی ریسٹ ہاؤس ہے، وہاں پر ہم نے پڑاو ڈالا۔ ایک درخت کی شاخ سے ذبح شدہ دُنبہ لٹکا کر کچھ ساتھی اس کا کوٹ اُتارنے لگے۔ کچھ مسالہ جات […]
دورِ ریاستِ سوات کے ایک قصاص کی کہانی

اس تحریر کے ساتھ سیدو بابا مزار کی ایک تصویر دی جا رہی ہے جس میں لکڑی کا ایک پُل نظر آرہا ہے۔ مذکورہ پُل کے دوسرے اینڈ پر ایک تو شاہی محمد ولد نظرے حاجی صاحب کی کپڑے کی دُکان تھی۔ کبھی کبھی امیر زادہ اُستاد صاحب بھی کپڑا ناپتے نظر آتے تھے۔ فضل […]
روسی خبر رساں ایجنسی کا والئی سوات بارے بیان

’’تصویر میں نظر آنے والا شخص20 ویں صدی کا طاقت ور ترین حکم ران تھا۔‘‘ یہ روسی خبر رساں ایجنسی ’’تاس‘‘ کا تبصرہ ہے، جو اُس نے 28 جولائی 1969ء کو ریاست کے ادغام پر کیا تھا۔ ایک ایسا حکم ران (میاں گل عبدالحق جہانزیب) جس سے کوئی بھی شخص دفتری اوقات میں مل سکتا […]
ملوک حاجی صاحب، ایک سچا دوست

گذشتہ کچھ دنوں سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’’فیس بُک‘‘ پر چند مخصوص دوستوں کی جانب سے مینگورہ کی ایک نام ور شخصیت کے بارے میں کچھ ہونی اَن ہونی باتیں سامنے آتی رہیں۔ مَیں نے ایک آدھ کا جواب دیا بھی…… مگر آج جی چاہتا ہے کہ کچھ متنازع باتوں کو نظر انداز […]
نیرنگیِ زمانہ

صبح ایک فاتحہ کے لیے گاؤں (ابوہا) کے درمیان ایک مسجد جانے کا اتفاق ہوا۔ ایک تنگ گلی سے گزرتے ہوئے گاؤں کی روزمرہ سرگرمیوں کی جھلک دیکھنے کو ملی۔ ایک گھر کے دروازے پر بیٹھا دودھ والا اوٹ سے ایک خاتون کو دودھ دے رہا تھا۔ ایک اور گھر کے دروازے سے خاتونِ خانہ […]
ریاستِ سوات کی سرکاری زبان بارے ایک ضروری وضاحت

مَیں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’’فیس بُک‘‘ پر ایک پوسٹ انگریزی میں پیش کی تھی، جس کا اُردو ترجمہ یہاں ملاحظہ ہو: ریاستِ سوات کی سرکاری زبان پشتو تھی۔ یہ ایک اٹل حقیقت ہے…… مگر یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ ریاست کی عدالتی زبان پشتو تھی۔ والئی سوات کے تمام فرامین […]
کچھ باجکٹہ (بونیر) کے سید کریم خان کے بارے میں

غالباً1961ء کا سال تھا۔ اگست کا مہینا تھا اور برسات کا موسم تھا۔ ہم یعنی ’’سٹیٹ پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ‘‘ کا عملہ اپنے سربراہ محمد کریم صاحب کے ساتھ آلوچ میں ایک دن رات گزارنے کے بعد واپس سیدو شریف کی طرف آرہے تھے۔ ڈھیرئی پہنچے، تو شدید بارش ہونے لگی۔ سڑک کچی تھی اور بارش […]
کچھ ناخواندہ ماہرِ تعمیرات عبید اُستاد کے بارے میں

آج کی نشست عبید استاد کے نام کرتا چلوں۔ عبید استاد، دستخط مستری کی طرح اَن پڑھ تھے اور دستخط مستری ہی کی طرح ماہرِ تعمیرات تھے۔ 1928ء سے جولائی 1969ء تک جب ریاست ختم ہوئی، بونیر میں جتنی بھی ریاستی عمارات از قسم ہسپتال، سکول، ڈسپنسری، رہایشی مکانات، عدالتیں اور پل تعمیر ہوئے، وہ […]
فتنۂ قادیانیت اور لڑکپن کی یادیں

آج کل کے ایک متنازع فیصلے پر اُٹھتے ہوئے ’’سوشل میڈیائی ہنگامے‘‘ نے مجھے کالج کے وقتوں کا ایک واقعہ یاد دِلا دیا۔ سب سے پہلے کچھ اُس کا نقشا کھینچ لوں۔ 1958ء میں جب مَیں نے جہانزیب کالج میں داخلہ لیا۔ اُس وقت میرے بچپن کے دوست اسفندیار ’’سیکنڈ ائیر‘‘میں تھے، یعنی مجھ سے […]
ریاستی دور، سوات سنیما اور ودودیہ سکول کی یادیں

جناب نعیم اختر کی ایک پوسٹ سے شہ پاکر آپ سے چند یادیں شیئر کرتا چلوں، جس میں اُنھوں نے سوات کے ایک مایہ ناز آرٹسٹ مراد کا ذکر کیا تھا، جو سنیما کے لیے سائن بورڈ بناتے تھے۔ خاص کر نئی فلم کے بارے میں مختلف سائز کے بورڈ تیار کرتے تھے۔ فضل رازق […]
عبدالروف طوطا اور ڈاکٹر نجیب صاحب سے جڑی یادیں
٭ طوطا ایک نیچرل منتظم تھا۔ موقع اور تقریب کیسی بھی ہو، بس اس پر سب کچھ چھوڑو۔ طوطا جانے اور پروگرام۔ میرا خیال ہے یہ ان کی "Inborn” خصوصیت تھی۔اُن بھائیوں میں یہ خوبی شاید اُن کو گھٹی میں گھول کر پلائی گئی تھی۔ آپ مسکن کی مثال لیجیے۔ کئی سالوں سے عثمان غنی […]
تاریخی ’’گیمن کمپنی‘‘ کا ریاستِ سوات میں کام

آج 22 ستمبر کی صبح کو فیس بُک پر ایک ویڈیو ’’گیمن پل خوازہ خیلہ‘‘ دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ یہ سنگین غلطی ہے کہ ہم ہر پُل کو ’’گیمن‘‘ سے منسوب کرتے ہیں۔ اس کا تدارک نہایت ضروری ہے۔ فضل رازق شہابؔ کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے: […]
افسر آباد کی کچھ یادیں

جب مَیں نے ہوش سنبھالا، تو اُس وقت ہماری مسجد افسر آباد (سیدو شریف) کے امام حافظ بختیار صاحب تھے۔ ان کی رہایش محمد شیرین کمان افسر صاحب (بعد میں کپتان/ منصف) کے پڑوس میں تھی۔ مسجد اُس وقت ایک بہت بڑے کمرۂ صلات، برآمدہ اور ایک کمرہ صحن کے کنارے باہر سے آئے طلبہ […]
کلال بابا

ہمارے گھر جس زمین پر سڑک کے کنارے بنے ہیں، یہ ہمارے پرکھوں کی ملکیت تھی اور سامنے والے پہاڑ کے دامن تک پھیلی ہوئی تھی۔ پھر میانگل عبدالودود بادشاہِ سوات نے اس کے درمیان سے سڑک گزاری۔ اس کی وجہ سے زمین کے دو ٹکڑے ہوگئے۔ فضل رازق شہاب کی دیگر تحاریر پڑھنے کے […]
توپوں کی صفائی اور پریڈ کے نہ بھولنے والے دن

بچپن میں ہم ہفتے کے دو دن بہت خوش رہتے۔ ایک دن توپوں کی صفائی کا اور دوسرا رسالے، بگلرز اور مشین گن دستے کی مشترکہ پریڈ کا۔ توپ خانے کے کمان افسر عبدالحنان ہمارے پڑوسی تھے اور ہمیں اپنے بیٹوں اسفندیار اور اختر حسین کی طرح پیار کرتے تھے۔ صفائی کے مقررہ روز ہم […]