روزانہ صبح جب اخبار اٹھا کر دیکھتے ہیں، تو سیاسی خبروں، حکومتی اور حزبِ اختلاف کے بیانات کے ساتھ جو دیگر خبریں نظر سے گزرتی ہیں، ان میں شقی القلب بد بخت افراد کے ہاتھوں معصوم اورپھول جیسے بچوں کی جنسی زیادتی کے بعد قتل کی خبریں بھی ہوتی ہیں۔ بیٹے کے ہاتھوں ماں باپ کا قتل اور باپ کے ہاتھوں اپنے جگر گوشوں کا قتل بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ معمولی تکرار پر قتل مقاتلے کی خبریں تو عام ہی ہیں۔ اس طرح بچوں کی لڑائی میں بڑوں کی مداخلت سے لڑائی جھگڑا معمول کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ منشیات فروشی اور منشیات کا استعمال ایک منافع بخش دھندا بن چکا ہے۔ جائیدادوں پر قبضہ اورقبضہ مافیا کا وجود ایک معروف حقیقت ہے۔ اس قسم کی خبریں اب اخباری شہ سرخیوں کا روزانہ کا معمول ہیں۔
معاشرتی اقدار کا یہ زوال اور انحطاط دیکھ کر ایک حساس دل، دکھ اور کرب محسوس کرتا ہے اور سوچتا ہے کہ یہ معاشرہ جو 98 فیصد مسلمانوں پر مشتمل ہے، کس اندھے کنویں اور مہیب کھائی کی طرف لڑھک رہا ہے۔ وہ مسلمان جن کے پاس اللہ کی کتاب اور اپنے آخری پیغمبر ؐ کا اسوۂ حسنہ موجود ہے، جس معاشرے کے اندر مساجد، دینی مدارس اور جدید تعلیمی ادارے موجود ہیں۔
سنجیدہ، صاحبِ نظر اور دردِ دل رکھنے والے افراد معاشرے کی یہ علامات دیکھ کر اصل مرض اور بیماری کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ جس طرح ڈاکٹر حضرات بخار، پھوڑے پھنسی کو دیکھ کر مرض کی تشخیص کرتے ہیں۔ بالکل اسی طرح اس معاشرتی افراتفری، چوری، زنا، بد عنوانی، قتل مقاتلہ اور دھوکا فریب کو دیکھ کر اصل بیماری کا اندازہ ہوتا ہے۔
معاشرے کی بنیادی اکائی گھر ہے۔ گھر کا ماحول اگر صاف ستھرا، پاکیزہ ، پُرامن اور خوشگوار ہے، تو اس میں رہنے والے بچے اور بڑے حقوق و فرائض، انفرادی اور اجتماعی ذمہ داریوں کا شعور رکھنے والے پُرامن اور قانون پسند شہری بنیں گے، لیکن اگر ایک غیر ذمہ دار باپ کی طرح معاشرے کا اجتماعی باپ یعنی حکومت بھی اپنی ذمہ داری پوری نہ کرے، تو پورا ماحول متاثر ہوجائے گا۔
اس وقت گھر کا ماحول بچوں کے لیے محفوظ نہیں۔ اکثر صورتوں میں میاں بیوی کے درمیان نا چاقی اور کشیدگی ہوتی ہے۔ ٹی وی، انٹرنیٹ، سمارٹ فون اور دیگر ایسے جدید آلات و اوزار گھر کے ماحول کو متاثر کرتے ہیں۔ ماں باپ جو بچوں کے لیے ابتدائی زندگی میں رول ماڈل کا کردار ادا کرتے ہیں، وہ زندگی کی مادی آسائشوں، کروفر اور نمود و نمائش کے لیے تو دن رات ایک کرتے ہیں، لیکن گھر میں اخلاقیات، دین، مذہب اور بہتر اخلاقی اقدار کے لیے کوئی خاص کردار ادا نہیں کرتے۔ دن رات دولت کے حصول اور اپنی مادی خواہشات کے لیے مصروفِ عمل رہتے ہیں۔ ایسے میں بچے تنہائی محسوس کرتے ہیں اور برے بچوں کی صحبت میں نا پسندیدہ عادات و ا طوار اختیار کرتے ہیں۔
تعلیمی اداروں کا انتظام نہایت ابتر ہے۔ استاد خود بھی اسی معاشرے کا فرد ہے۔ اسی نظامِ تعلیم کا تربیت یافتہ ہے۔ کلاس میں بچوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ایسے میں استاد کس طرح پڑھائے اور کس طرح تربیت کرے؟
گھر سے باہر معاشرے میں منشیات، غیر سنجیدہ ماحول اور برے بداخلاق لڑکوں کی صحبت اور مجلسیں ہیں۔ مساجد اور دینی مدارس میں معاشرتی تعلیم و تربیت کا کوئی تصور موجود نہیں۔ اس طرح پوری صورتِ حال ابتر اور متاثر ہے اور اس کا نتیجہ ہے کہ امن و امان، جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کا ماحول خطرناک صورت اختیار کر چکا ہے۔
معاشرے کی اس بنیادی اور خطرناک بیماری کی ذمہ دار حکومت اور سرکاری ادارے ہیں۔ اس لیے کہ حکومت کی حیثیت معاشرے کے باپ کی ہے۔ جس طرح ایک گھر میں باپ گھر کا سربراہ ہوتا ہے، سارے گھر کی دیکھ بھال، حفاظت، بچوں کی تعلیم و تربیت اور تمام امور کی انجام دہی باپ کی ذمہ داری ہے، بالکل اسی طرح حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اپنے تعلیم و تربیت کے اداروں، ذرائع ابلاغ، نظم و نسق کے تمام اداروں کے ذریعے عوام کے لیے ایک صاف ستھرا، پاکیزہ، باحیا، حقوق و فرائض کے شعور و احساس پر مشتمل ماحول فراہم کرے۔
بائیس کروڑ افراد میں سنجیدہ، دردِ دل رکھنے والے با شعور، قانون پسند اور مسائل و مشکلات کا ادراک رکھنے والے افراد بھی موجود ہیں۔ شر کے ساتھ خیر بھی ہے، لیکن احساس ہوتا ہے کہ شر روز بروز حاوی اور خیر روز بروز کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ سیاست دانوں، حکومتی اہل کاروں اور اہلِ ہوس سے اس بات کی امید اور توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ ان بنیادی مسائل کی طرف توجہ دیں گے۔ اور ان معاشرتی مسائل کے خطر ناک اور تباہ کن اثرات پر توجہ دیں گے، البتہ اہلِ خیر، درد مند اور با شعو ر افراد کی توجہ مبذول کرانے کی یہ حقیر اور کمزور کوشش جاری رکھیں گے۔ اس لیے کہ قوم کی تباہی و بربادی میں معاشرے کے یہی عوامل کار فرما اور بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ وما علینا الاالبلاغ!

…………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے ۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔