اقتصادی بحران کا ذمہ دار کون؟

جب ایک بادشاہ کے محل کے سامنے قحط زدہ لوگوں نے روٹی کا مطالبہ کیا اور درباریوں نے جب ملکہ کو لوگوں کے احتجاج اور ملک میں قحط سالی کے بارے میں بتایا، تو اس وقت ملکہ نے نہایت ہی معصوم انداز میں جواب دیا کہ روٹی نہیں، تو لوگ کیک کھایا کریں۔
کچھ اس طرح کی معصومیت کا مظاہرہ پاکستان تحریک انصاف کی نئی وفاقی حکومت نے بھی کیا ہے، جب عمران خان نے عالمی مالیاتی ادارے کے بجائے دوست ممالک سے آسان شرائط پر قرض لینے کی بات کی ہے۔ جب ان کو پتا چلا کہ خزانہ خالی ہے اور زرِمبادلہ کے ذخائر قحط کی طرح کمی کا شکار ہیں، تو انھوں نے اس مسئلے کا حل انتہائی آسان سمجھا۔ حکومت کا خیال تھا کہ بھینسوں کی نیلامی، گاڑیوں کی نیلامی، کرپٹ لوگوں یا ٹیکس چوروں کو پکڑنے اور چین یا سعودی عرب سے کچھ قرض لینے سے یہ مسئلہ چند دنوں میں حل ہو گا۔ ان کو چین اور سعودی عرب کا قرضہ آئی ایم ایف کی روٹی کے مقابلے میں بالکل کیک یا ڈبل روٹی نظر آرہا تھا۔ لیکن ان سے رابطے کے بعد حقیقت میں وہ سوکھی روٹی نظر آئی اور وہ بھی قحط کے زمانے کی طرح انتہائی مہنگی۔ جب ہمارے وزیرِ خزانہ اسد عمر چین یا سعودی عرب سے قرض لینے کے معاملے پر مایوس ہوئے اور آئی ایم ایف کی طرف مائل ہوئے، تو انھوں نے پھر اسحاق ڈار کے بارے میں بھی ایک نرم بیان دیا اور ساتھ ساتھ اپنی صفائی میں بھی یہ فرمایا کہ اس نے بذاتِ خود کبھی عالمی مالیاتی ادارے سے قرض لینے کی مخالفت نہیں کی۔ سوچنے اور باتیں کرنے میں کوئی بھی ارسطو، افلاطون یا لقمانِ حکیم نظر آسکتا ہے، لیکن اصل امتحان تب ہوتا ہے جب عمل کے میدان میں کسی حکمتِ عملی یا پالیسی کو عملی جامہ پہنایا جاتا ہے۔
پاکستان کی مالی اور اقتصادی صورتحال کے حوالے سے عالمی مالیاتی ادارے نے اس حوالے سے مارچ 2018ء میں ایک رپورٹ بھی جاری کی تھی۔ اس رپورٹ کے مطابق اس وقت ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر 12.8 ارب ڈالر رہ گئے تھے، جو ستمبر کے مہینے تک نو ارب ڈالر سے کچھ زیادہ رہ گئے اور پھر اکتوبر کے مہینے میں یہ ذخائر 8.4ارب ڈالر تک گر گئے۔ جب ہمارے حکام کو اس مسئلے کی سنجیدگی کا احساس ہوا، تو تب اکتوبر کے مہینے میں انھوں نے قوم کو بتایا کہ ہمارے پاس ملک کے معاملات چلانے کے لیے صرف 45 دن کے پیسے رہ گئے ہیں۔ اب ہمارے پاس عالمی مالیاتی ادارے کے پاس جانے کے بجائے اور کوئی چارہ نہیں۔ عالمی مالیاتی ادارہ مارچ کے مہینے میں اپنی رپورٹ میں بھی کہہ چکا تھا کہ پاکستان کے اس وقت کے 12.8 ارب ڈالر کے ذخائر صرف تین مہینوں کے لیے کافی ہیں، لیکن اس وقت کسی نے اس مسئلے پر توجہ نہیں دی۔ شاید اس وقت سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ ملک کی بیورو کریسی بھی انتخابات کے لیے تیاری میں مصروف تھی۔ آئی ایم ایف نے رپورٹ میں یہ بھی کہا تھا کہ پاکستان میں اس سال الیکشن کی وجہ سے پاکستان کی جانب سے قرضوں کی ادائیگی کا عمل بھی متاثر ہوگا۔ پھر حالیہ دنوں میں امریکہ کے محکمہ خارجہ کے ترجمان نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کی اقتصادی بحران کی وجہ وہ قرضے ہیں جو پاکستان نے چین سے لیے ہیں۔ امریکہ کے محکمہ خارجہ سے پہلے ایشیائی ترقیاتی بینک نے بھی چین پاکستان اقتصادی راہداری کے مختلف منصوبوں کے لیے پاکستان پر چین کے قرضے کے متعلق تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ اقتصادی ماہرین اور سی پیک معاہدوں کے مطابق پاکستان نے 2020ء کے بعد 2030ء تک ہر سال چین کو تین سے چار بلین ڈالر قرض ادا کرنا ہے۔ آئی ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق پاکستان پر 2018ء میں بیرونی قرضوں اور دوسرے واجبات کا کل حجم 93 بلین ڈالر ہے جو کہ اگلے پانچ سال میں 144 بلین ڈالر تک پہنچ سکتا ہے۔ اب ان سارے مالی مشکلات کے تناظر میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اس وجہ سے عالمی مالیاتی ادارے سے کیوں رجوع کر رہی ہے؟ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے قرضے پرمارک اَپ کسی ملک کے دیے جانے والے قرضے کے مقابلے میں سب سے کم ہوتا ہے،اور دوسرا یہ کہ ادائیگی کا عرصہ بھی زیادہ ہوتا ہے۔ ادارہ آئی ایم ایف کی شرحِ سود ایک فیصد کے لگ بھگ ہوتی ہے اور قرضوں کی واپسی کی میعاد بھی دس سے بیس سال تک بڑھائی جاسکتی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ ٹیکس نیٹ وسیع کرنے، برآمدات بڑھانے، کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کم کرنے، ٹیکسوں کو زیادہ کرنے اور خسارے والے محکموں کی نجکاری کرنے کے حوالے سے شرائط بھی عائد کرتا ہے۔ اب اس کے مقابلے میں سی پیک کے مختلف پراجیکٹس کے لیے چار سے آٹھ فیصد سود پر مختلف قسم کے قرضے لیے گئے ہیں اور مختلف قرضوں کی ادائیگی کا دورانیہ بھی بہت کم ہے جو کہ زیادہ سے زیادہ چار یا پانچ سال تک ہے۔ اسی وجہ سے پاکستان پر چین کے قرضوں کے حوالے سے امریکہ یا دوسرے مالیاتی اداروں کا اعتراض یہ ہے کہ کم وقت اور زیادہ سود پر پاکستان کس طرح چین کا قرض ادا کرے گا؟
اس مشکل اقتصادی صورتحال کے تناظر میں اگر انتخابات کے دوران میں سیاسی جماعتوں کی انتخابی سرگرمیوں کو دیکھا جائے، تو معلوم ہوگا کہ پاکستان تحریک انصاف کے علاوہ کسی اور سیاسی جماعت نے اس مسئلے کو حل کرنے کی بات نہیں کی اور انتخابی منشوروں میں اس اولین مسئلے کو ترجیح نہیں دی۔ تحریک انصاف نے بھی صرف کرپشن اور منی لانڈرنگ کو روکنے پر مسلسل مسلم لیگ ن کے حوالے سے بات کی اور اس گھمبیر معاشی بحران کے دوسرے پہلوؤں کو توجہ نہیں دی۔ پھر مسلم لیگ ن عدالتوں اور دوسرے اداروں کے ساتھ الجھ گئی اور کرپشن اور منی لانڈرنگ کا مسئلہ اداروں کے درمیان ٹکراؤ اور سیاسی انتقام کے طور پر سامنے آگیا، لیکن اب سوال یہ ہے کہ میاں نواز شریف کے بطور وزیر اعظم نااہلی سے لے کر ان کے جیل جانے او واپس رہائی تک خزانے میں کتنا پیسہ واپس جمع کیا گیا اور اب تک دوسرے لوگوں سے کتنی لوٹی ہوئی رقم واپس لے لی گئی؟ اور جن چھوٹے بڑے لوگوں سے نیب نے ڈیل کی ہے یا نیب عدالتوں نے جن لوگوں کی کرپشن کے فیصلے کیے ہیں، ان سے اب تک کتنا پیسہ اکٹھا ہوا ہے؟ اور ان پیسوں سے کتنی حد تک ہماری مالی مشکلات کم ہوگئی ہیں؟
مالی مشکلات بہت ہیں،لیکن ان مشکلات کے حل کے لیے مختلف پہلوؤں پر غور کرنا ہوگا۔ ہمارے مالیاتی اداروں اور احتساب کے اداروں کو اتنا مضبوط ہونا چاہیے کہ وہ نگران حکومتوں کے دور میں بھی آزادانہ کام کرسکیں۔ اب جو تحریک انصاف کہہ رہی ہے کہ تمام مالی و معاشی مشکلات کی ذمہ دار پچھلی حکومتیں ہیں، تو اس طرح تو جب 2013ء میں مسلم لیک ن کی حکومت آئی، تو انہوں نے بھی اقتصادی مشکلات کا ملبہ پاکستان پیپلز پارٹی پر ڈالا تھا اور آصف علی زرداری کے دور میں پرویز مشرف پر اس طرح کی تتقید کی تھی۔ اس سے پہلے پرویز مشرف میاں نواز شریف کے حوالے سے اکثر اس طرح کے لیکچر دیاکرتے تھے۔ پاکستان تحریک انصاف نے اقتدار میں آنے سے پہلے بلند بانگ وعدے کیے تھے اور عوام کی توقعات بھی اسی حساب سے زیادہ ہیں، تو اس وجہ سے تحریک انصاف پرعوامی تنقید اور ردعمل بھی کچھ زیادہ ہے۔ ابھی تحریک انصاف کی حکومت کے دو مہینے پورے ہورہے ہیں اور اگر اب بھی تحریک انصاف معاملات کی سمت کو درست کرے اور حقیقت پرمبنی بیانات اور حقیقت پر مبنی پالیسیوں پر گامزن ہوجائے، تو عوامی تنقید سے بچ سکتی ہے۔
’’مستقبل کی تاریخ‘‘ کے موضوع پر ایک کتاب میں ’’یوول نوح‘‘ نامی ایک مصنف نے لکھا ہے کہ عام لوگ بڑی تعداد میں فرضی داستانوں اور سازشی نظریوں کو حقیقت پرمبنی سمجھتے ہیں، لیکن جب سچ سامنے آتا ہے، تونہ صرف عوام کا دل ٹوٹ جاتا ہے بلکہ عوامی مفاد کے حوالے سے نقصان بھی بہت زیادہ ہوتا ہے اور طویل مدت کے لے پھر اس کے اثرات کو بھگتنا پڑتا ہے۔ اب جب پاکستان کی مالی مشکلات کی حقیقت سامنے آگئی ہے، تو تحریک انصاف کی حکومت نے بجلی، گیس اور ٹیکسوں میں اضافے جیسے اقدامات پرعمل کرنا شروع کر دیا ہے جس پر حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتوں اور عوام کی طرف سے سخت ردعمل سامنے آ رہا ہے۔ ضمنی انتخابات میں بھی اس وجہ سے تحریک انصاف کو بعض حلقوں پر شکست کا سامنا کرنا پڑا، لیکن عام انتخابات تک معاملات ٹھیک کرنے کے لیے اب بھی کافی وقت ہے۔

………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے ۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔