ابتدا ہی سے مختلف ایشوز کی وجہ سے پاک افغان تعلقات خراب چلے آ رہے ہیں۔ مستقبل میں دریائے کابل پر اختلافات ان میں ایک اور اضافہ ہوسکتے ہیں۔ دریائے کابل وادئی پشاور، چارسدہ، نوشہرہ اور ملحقہ علاقوں کی آبیاری میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ علاقائی اور عالمی سطح پر آب و ہوا کی خرابی کی وجہ سے دریائے کابل بھی متاثر ہو رہا ہے۔ علاقائی، سیاسی، سماجی اور اقتصادی عوامل بھی دریائے کابل کی خرابی کے ذمہ دار ہیں۔ اس کے حوالے سے یہ تمام عوامل پاک افغان تعلقات پر منفی اثرات مرتب کرسکتے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان دریائے کابل پرکوئی بھی معاہدہ نہیں۔ اس کا بہترین اور متبادل حل یہ ہے کہ دریائے کابل کے متعلق دونوں ممالک ایک معاہدہ طے کریں۔ ہیل سنکی کنونشن، سندھ طاس معاہدہ اور اقوم متحدہ کے آبی وسائل کے کنونشن 1997ء پاک افغان دریائے کابل معاہدہ کے لیے ایک فریم ورک مہیا کر سکتا ہے۔
دریائے کابل کی اسی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے ایریا سٹڈی سنٹر پشاور یونیورسٹی نے اسی موضوع پر قومی سطح کی ایک کانفرنس کا انعقاد کیا۔ افتتاحی کلمات میں ڈاکٹر شبیر احمد خان نے کانفرنس کے اغراض و مقاصد، ضرورت اور اہمیت پر روشنی ڈالی۔ آپ نے کہا کہ دریائے کابل کو ستر فیصد پانی دریائے چترال سے ملتا ہے، جس کو افغانستان میں دریائے کونڑ کہا جاتا ہے۔ دریائے کابل کے تین معاون دریاؤں، شاہ عالم، ناگمان اور سردریاب کے پانی میں پچاس فیصد سے زیادہ کمی آئی ہے۔ اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا، تو شائد دو معاون دریا یا تو بالکل ختم ہوجائیں گے اور یا چھوٹی سی ندی کی شکل میں رِہ جائیں گے۔ بلدیہ کی ناقص صورتحال اور صنعتوں کی وجہ سے آلودگی کی سطح بھی بڑھ گئی ہے۔ اس کے علاوہ عالمی اور علاقائی موسمی تبدیلیوں اور پاکستان میں بے تحاشا آبادی میں اضافے نے دریائے کابل کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دریائے کابل کے دیگر مسائل میں پانی کو موڑنا، پانی کی قلت، پانی کی گندگی، پانی کی ذخیرہ اندوزی، پانی کی آلودگی، آبیاری کے مسائل، ماحولیاتی نقصانات، سیلاب، قحط، فصلوں کی ناکامی، سماجی اور اقتصادی پیچیدگیاں، بڑے پیمانے پر انسانوں اور پرندوں کی نقلِ مکانی وغیرہ شامل ہیں۔
ڈاکٹر شبیر نے یہ بھی کہا کہ دریائے کابل پر انڈیا کی مدد سے ’’ہائیڈل پاؤر پلانٹس‘‘ بننے سے پاکستان کو تشویش ہے۔ آپ نے اس بات پر زور دیا کہ اقوامِ متحدہ کے کنونشن منعقدہ 1997ء کے اصولوں اور دیگر عالمی آبی معاہدوں کو مدِنظر رکھ کر پاک افغان کے درمیان دریائے کابل پر ایک جامع آبی معاہدہ ہونا چاہیے۔
وائس چانسلر یونیورسٹی آف پشاور ڈاکٹر محمد آصف خان اس موقع پر مہمان خصوصی تھے۔ آپ نے بھی کانفرنس کے موضوع کی اہمیت اور ضرورت پر روشنی ڈالی اور کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان اس قسم کے معاہدات ہونے چاہئیں۔ کیوں کہ اس سے پانی کو محفوظ بنانے اور آلودگی سے بچانے میں مدد ملے گی۔
قارئین، افتتاحی نشست کے علاوہ یہ کانفرنس دو نشستوں پر مشتمل تھی۔ پہلی نشست کی صدارت ڈاکٹر عظمت حیات خان کر رہے تھے۔ مقالہ نگاروں میں پروفیسر ڈاکٹر محمد نفیس نے دریائے کابل کی آلودگی کا آبادی، مچھلیوں اور نقلِ مکانی کرنے والے پرندوں پر اثرات کے موضوع پر اپنا مقالہ سنایا۔ آپ نے کہا کہ دریائے کابل کے منابع میں دریائے چترال (پاکستان) اور دریائے کابل (افغانستان) شامل ہیں۔ آپ نے مزید کہا کہ افغانستان کے مشرق میں یہ بڑا دریا ہے جو کہ دریائے سندھ میں شامل ہونے کے مقام (اٹک) تک سات سو کلو میٹر لمبا ہے۔ افغانستان میں یہ جن شہروں سے گزرتا ہے، وہ کابل، چہارباغ اور جلال آباد ہیں۔ افغانستان میں اس کے بڑے معاون دریاؤں میں سے لوگر، پنج شیر، کونڑ اور الینگار کے دریا شامل ہیں۔ اسی طرح پاکستان میں اس کے معاؤن دریاؤں میں خیالی، جیندی او باڑہ کے دریا شامل ہیں۔ شریک دریاؤں کی مثالیں دنیا میں بہت زیادہ ہیں۔ عالمی سطح پر موجودہ وقت دو سو دریا ایسے ہیں جن سے ایک سے زیادہ ممالک کوپانی ملتا ہے اور بعض اوقات پانی کامسئلہ سیاسی صورت حال بھی اختیار کرتا ہے، لیکن دریاؤں اور پانی کے مسائل کو سیاست کا شکار نہیں کرنا چاہیے۔ پاکستان اورافغانستان پہلے ہی سے چند معاہدات کے دستخط کنندہ ہیں۔ اور اسی تناظر میں پاک افغان دریائے کابل معاہدہ بھی ہونا چاہیے۔ پاکستان اور افغانستان میں دریائے کابل کے پانی کا استعمال بجلی کی پیداوار، آب پاشی، ماہی گیری اورنہلائی دہلائی وغیرہ کے مقاصد کے لیے ہوتا ہے۔ دریائے کابل سے پشاور کی کل قابل کاشت زمین کی اسّی فیصد، نوشہرہ کی سینتالیس فیصد اور چارسدہ کی چوراسی فیصد زمین کی آبیاری ہوتی ہے۔آلودگی میں اضافے کی وجہ سے مچھلیوں اور نقلِ مکانی کرنے والے پرندوں پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ دریائے کابل کے حوالے سے عوام میں آگاہی مہم بھی چلانا چاہیے۔
پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمان نے موسمی تبدیلی اور سیلاب کے حوالے سے دریائے کابل کے تناظر میں اپنا مقالہ سنایا۔ آپ نے موسمی اور فضائی تبدیلیوں کے عوامل کی نشان دہی کرا تے ہوئے کہا کہ برف باری میں کمی، گلیشیرز میں کمی، شہری علاقوں میں گرمی کی لہر اور سیلاب اور قحط وغیرہ ایسے عوامل ہیں جن سے فضائی اور موسمی تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں۔ دریائے کونڑ یا دریائے چترال میں افغانستان کے سارے پانی کا بارہ فیصد موجود ہے۔ دریائے کابل پر گیارہ ڈیم تعمیر کرنے کی منصوبہ بندی ہے۔

کانفرنس کے شرکا کی باجماعت تصویر۔ (فوٹو: ڈاکٹر محمد علی دینا خیل)

آپ نے اپنے مقالے کا لب لباب بیان کرتے ہوئے کہا کہ پانی کی ضرورت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ بارش میں تنوع سے قحط اور سیلاب پیدا ہوتے ہیں۔ زیرِ زمین پانی کم ہونے کے ساتھ ساتھ آلودہ بھی ہوتا جارہا ہے ۔
پروفیسر ڈاکٹر امیر نواز نے دریائے کابل کے سیلاب زدہ علاقوں میں زراعت اورزندگی پر موسمی تبدیلیوں کے اثرات کے موضوع پر مقالہ پڑھایا۔ آپ نے کہا کہ جس طرح عام لوگوں کا خیال ہے کہ حد سے زیادہ پانی یا پانی کی کثرت بھی نقصان دہ ہوتی ہے، تو یہ بات درست نہیں بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم اس کے بارے میں علم نہیں رکھتے کہ کس طرح اس کا انتظام کیا جائے؟ اگر ہمارے پاس یہ علم ہوتا، تو پھر پانی کی اس کثرت کو ہم ایک بامقصد ریسورس میں بھی بدل سکتے تھے۔ ان قحطوں اور سیلابوں کے ہم خود ذمہ دار ہیں، کیوں کہ یہ ہم اپنے ہاتھوں سے کرتے ہیں۔ دستیاب معلومات سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ سیلاب کی شدت اور زیادتی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زیادہ ہو جا تا ہے ۔ سن دو ہزار دس کے سیلاب کو بین الاقوامی طور پر مانا گیا ہے۔ کیوں کہ اس کی شدت بہت زیادہ تھی۔ دوہزار دس کے مون سون کو سپر مون سون کہا جاتا ہے۔ جب دریاؤں کا پانی گندہ ہو اور سیلاب آتے ہیں، تو ایسا پانی پھر زیادہ نقصان دہ ہوتا ہے۔ سوات میں دو ہزار دس سے پہلے بارودی سرنگوں سے پل وغیرہ گرائے گئے تھے اور وہ ندیوں میں پڑے تھے، تو سیلاب کا پانی گندہ ہوکر اس لیے زیادہ نقصان کا باعث بنا۔ ہمیشہ کے لیے سیلاب نقصان دہ نہیں ہوتے، بلکہ یہ زمین کی زرخیزی کا سبب بھی بنتے ہیں۔ آپ نے یہ بھی کہا کہ ہر قسم کی قدرتی آفات سے حفاظت کے لیے پہلے سے حفاظتی اقدامات کا انتظام ہونا چاہیے۔
دوسری نشست کی صدارت افغان کونسلیٹ پشاور میں افغانستان کے کونسل جنرل پروفیسر محمد معین مرستیال نے کی۔ اس نشست میں درج ذیل مقالہ نگاروں نے مقالے پڑھ کر سنائے۔ ڈاکٹر وصال شاہ نے ’’سرحد پار آبی تنازعات: پاک افغان آبی معاہدے کی ضرورت‘‘ کے موضوع پر مقالہ پڑھا۔ آپ نے کہا کہ ’’کابل ریور‘‘ کے دو منابع ہیں کونڑ ریور یا چترال ریور اور کابل ریور جو کہ افغانستان کے علاقے سنگلاخ سے نکلتا ہے۔ کونڑ دریا کی لمبائی چار سو اسّی کلومیٹر ہے۔ اور سنگلاخ کے منبع سے نکلنے والے کابل ریور کی لمبائی سات سو کلومیٹر ہے۔ دریائے کابل کا پینسٹھ فیصد پانی دریائے کونڑ سے ہے، جو کہ پاکستان کے علاقے چترال سے نکلتا ہے۔ دریائے کابل پر بارہ ڈیموں کی تعمیر بھی دونوں ممالک کے لیے ایک چیلنج ہے۔ بارہ ڈیموں کی تعمیر کی بات پاکستان کی پالیسی میکرز کے لیے ایک تشویشناک بات ہے۔ کیوں کہ ان سے دریائے کابل میں پانی کا بہاؤ کم ہوگا۔ دونوں ممالک کے لیے آبی معاہدے کا یہ ایک موزوں وقت ہے۔
اس طرح جناب جہانگیر شاہ نے دریائے کابل کی صفائی اور دوبارہ آباد کاری کے موضوع پر مقالہ سنایا۔ آپ نے دریاؤں کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ انسانی تہذیبوں کا آغاز ہی دریاؤں کے کنارے رہنے سے ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چند ایک تہذیبوں کے نام دریاؤں کے ناموں سے منسلک ہے جیسا کہ انڈس تہذیب وغیرہ۔ آپ نے دریائی پانی کے استعمال پربھی روشنی ڈالی۔ دریائے کابل جو سات سو کلومیٹر لمبا ہے، یہ پانچ سو ساٹھ کلومیٹر افغانستان میں اور ایک سو چالیس کلومیٹر پاکستان میں بہتا ہے۔ پھر اٹک کے مقام پر دریائے سندھ میں شامل ہوتا ہے۔ پاکستان میں دریائے کابل کو زیادہ پانی دریائے کونڑ (چترال) اور دریائے سوات اوران کے معاون دریاؤں سے ملتا ہے۔ افغانستان میں کابل اور جلال آباد کے پچاس لاکھ لوگ دریائے کابل سے اپنی ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں۔ پاکستان میں پشاور شہر کے بیس لاکھ لوگ دریائے کابل سے اپنی ضروریات کو پورا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ وادئی پشاور اور ملحقہ علاقوں کی آبپاشی اور پن بجلی پیدا کرنے کے لیے اس کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر علی محمد یوسف زئی نے دریائے کابل کے ماحولیات پر اپنا مقالہ سنایا۔ آپ نے کہا کہ شہر کا گندہ پانی اس دریا کو گندہ کر دیتا ہے۔ دریائے کابل آبی حیات کے لیے بہت موزوں ہے۔ اسے آبپاشی کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ آپ نے اپنی تجاویز میں بیان کیا کہ اس دریا پر چھوٹے ڈیموں کو تعمیر کرنا چاہیے۔
سلیمان یوسف نے دریائے کابل کے حوالے سے پاک افغان تعاون کے موضوع پر مقالہ سنایا۔ آپ نے کہا کہ دریائے کابل کی حالت زار کو مزید خرابی اور آلودگی سے بچانے کے لیے دونوں ممالک کا آپس میں آبی معاہدہ ہونا چاہیے۔
اس یک روزہ کانفرنس کی دوسری نشست کے اختتام پر افغان کونسل جنرل پروفیسر محمد معین مرستیال نے دریائے کابل کے موضوع پر کانفرنس کے انعقاد پر ایریا سٹڈی سنٹرپشاور یونیورسٹی کا شکریہ ادا کیا اوران کی کوششوں کو سراہا۔ آپ نے اس بات پر زور دیا کہ پاک افغان دو طرفہ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے دریائے کابل پر پاک افغان آبی معاہدہ بھی ہونا چاہیے۔ آبی تنازعات دنیا میں ہر جگہ موجود ہوتے ہیں، لیکن ان کو باہمی گفت و شنید سے حل کیا جاسکتا ہے۔ آپ نے یہ بھی کہا کہ افغانستان اور تاجکستان (امو دریا پر) اور افغانستان اور ایران نے (ہلمند دریا پر) اسی طرح کے معاہدات کیے ہیں جو کہ کامیاب رہے ہیں۔ ہیل سنکی کنوشن 1966ء، برلن کنونشن 2004ء اور اقوامِ متحدہ کے کنونشن 1997ء کے تحت ہم دریائے کابل کے آبی معاہدے کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔ پُرامن دو طرفہ تعلقات کے لیے دریائے کابل پر پاک افغان آبی معاہدہ ہونا چاہیے۔ ایریا سٹڈی سنٹر پشاور یونیورسٹی کو دونوں ممالک کے دو طرفہ تعلقات بڑھانے کے لیے طلبہ اور یونیورسٹی اساتذہ کا تبادلہ بھی ہونا چاہیے۔ ایریا سٹڈی سنٹر کو آبی تنازعہ کے علاوہ بارڈر، تجارت اور افغان مہاجرین کے مسائل پربھی اس قسم کی علمی مباحثوں کا اہتمام کرنا چاہیے اور ان میں دونوں طرف سے محققین اور یونیورسٹی اساتذہ کو بیٹھنا چاہیے۔
مذکورہ بالا مقالہ نگاروں، یونیورسٹی کے مختلف شعبہ جات کے طلبہ و طالبات، دیگر شعبہ جات کے لوگوں کے علاوہ اسی کانفرنس میں ایریا سٹڈی سنٹر کی فیکلٹی ممبران ڈاکٹر محمد شفیع، ڈاکٹر خلیل الرحمان، ڈاکٹر احمد فرحان سعید، عبداللہ، معظم علی خان اور راقم نے بھی حصہ لیا ۔ کانفرنس کے اختتام پر ایریا سٹڈی سنٹر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر شبیر احمد خان نے تمام شرکا اور مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور پاک افغان تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے ’’ایریا سٹڈی سنٹر‘‘ کی کوششوں کو آگے لے جانے کا پختہ عزم کیا۔

………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے ۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔