صحافیوں کے تحفظ سے متعلق معروف تنظیم ’’کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس‘‘ (سی پی جے) دنیا بھر میں صحافیوں کو درپیش مسائل کے حوالے سے تواتر سے رپورٹس جاری کرتی رہتی ہے۔ اس امریکی تنظیم نے 2011ء میں ایک رپورٹ جاری کی تھی جس کے مطابق ایران اور کیوبا وہ ممالک تھے جہاں حکومتوں کی پالیسیوں پر تنقید کی وجہ سے سب سے زیادہ صحافی ملک چھوڑنے میں مجبور ہوئے تھے۔ تنظیم کے مطابق اُن صحافیوں کی تعداد اُس وقت دنیا بھر میں صحافیوں کی جبری ہجرت کے حوالے سے ایک بڑی تعداد تھی، جو اُس وقت بارہ مہینے کے دوران میں ملک بدر ہوئے تھے۔ ان میں بیشتر صحافیوں کو اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ بھی ہجرت کرنا پڑی تھی۔
یہ رپورٹ صرف ایران اور کیوبا کے حوالے سے نہیں تھی بلکہ رپورٹ کے مطابق اُسی برس دنیا بھر سے 67 صحافیوں میں سے بیشتر کو اپنے خاندانوں سمیت اپنے ممالک سے دربرد ہونا پڑا تھا۔
صحافیوں کے تحفظ سے متعلق امریکہ میں قائم ایک تنظیم نے کہا ہے کہ شام میں مسلح جھڑپوں اور تین دوسرے ملکوں میں ہدف بنا کر صحافیوں کو قتل کرنے کے واقعات میں نمایاں اضافے کے بعد شام صحافیوں کے لیے ایک مہلک ترین ملک بن گیا ہے۔ "سی پی جے” کے مطابق اب تک سیکڑوں صحافیوں کو ان کے پیشہ ورانہ فرائض سے تعلق کی بنا پر ہلاک کیا جاچکا ہے۔ رپورٹ کے مطابق شام صحافیوں کے لیے خطرناک ترین ملک ثابت ہوا ہے، جہاں لڑائی کی کوریج کے دوران میں متعدد صحافی ہلاک ہوئے۔ جب کہ سی پی جے کے مطابق عراق اور مصر میں بھی متعدد صحافی اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران میں ہلاک ہوئے ہیں۔ ترکی، چین اور مصر اُن ممالک میں سرفہرست ہیں جہاں صحافی جیلوں میں بند ہیں، جو حکومت کی نظر میں ان کے مخالف ہیں۔ سی پی جے کی طرف سے جاری رپورٹ کے مطابق گذشتہ سال یکم دسمبر تک 28 ممالک میں 199 صحافیوں کو قید کیا گیا جب کہ گذشتہ سال یہ تعداد 221 تھی۔ قاہرہ نے 23 صحافیوں کو قید میں رکھنے کی وجہ صدر عبدالفتح السیسی کے قومی سلامتی کی "پالیسی” پر "اختلافِ رائے” قرار دیا۔ واضح رہے کہ مصر میں 2012ء تک کوئی بھی صحافی اپنے کام کی وجہ سے جیل میں بند نہیں تھا۔
سی پی جے کا اپنی رپورٹ میں کہنا ہے کہ ایران صحافیوں کو قید کرنے کے لیے ریاست مخالف الزامات کا استعمال کرتا ہے۔ اگرچہ ایران میں قید صحافیوں کی تعداد مختلف برسوں کے مقابلے میں کم اور زیادہ ہوتی رہی ہے۔ یہ ہی نہیں اریٹیریا میں بھی صحافیوں کو قید کیا گیا ہے، یہاں تک کہ ترکی میں بھی 14 صحافی قید ہیں۔
اس طرح صحافیوں کے لیے افغانستان بھی مہلک ترین ثابت ہوا ہے، جب پیشہ وارانہ خدمات بجا لاتے ہوئے 21 اخباری نمائندے ہلاک ہوئے۔ سال 2017ء میں افغانستان میں 23 اخباری نمائندے زخمی ہوئے جب کہ 21 دیگر صحافت سے وابستہ لوگ حملے کا شکار ہوئے۔ اپریل 2018ء میں افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ہونے والے دو بم دھماکوں میں کئی صحافیوں سمیت کم از کم 21 افراد ہلاک ہوئے۔ اے ایف پی نے کہا کہ دوسرا دھماکا صحافیوں کو دانستہ طور پر نشانہ بنانے کے لیے کیا گیا تھا۔ وزارتِ داخلہ کے ترجمان نجیب دانش نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں چھے صحافی اور چار پولیس اہلکار بھی شامل ہیں جب کہ اب تک 45 زخمی ہوئے ہیں۔
پاکستان کا شمار بھی صحافیوں کے لیے دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ فریڈم نیٹ ورک کے مطابق ان ایک سو چھے صحافیوں اور میڈیا کارکنوں میں سے کم ازکم 72 پاکستانی صحافی ایسے تھے، جو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنے اور انہیں سر میں گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا۔
آزادیِ صحافت کے لیے کام کرنے والی تنظیم "رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز” کا کہنا ہے کہ سال 2017ء میں دنیا بھر میں 67 صحافی اور میڈیا ورکرزقتل ہوئے جب کہ 326 جیلوں میں قید ہیں۔ رپورٹ میں شام صحافیوں کے لیے خطرناک ترین ممالک میں سر فہرست ہے جب کہ دوسرے نمبر پر میکسیکو ہے۔ شام میں 12 اور میکسیکو میں 11 صحافیوں کو قتل کیا گیا۔ تنظیم کے مطابق سال 2017ء میں فلپائن صحافیوں کے لیے ایشیا کا سب سے خطرناک ملک قرار دیا گیا ہے جب کہ افغانستان، پاکستان اور بھارت بھی سرفہرست ہیں۔ پاکستان اور بھارت کا نمبر چوتھا ہے۔
محولہ بالا سطور میں صحافیوں کے قتل اور اظہارِ رائے کی آزادی پر قدغن کے حوالے سے صحافیوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی متعدد عالمی رپورٹس ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ اگر یہاں پر یہ کہا جائے کہ دنیا کا کوئی بھی ملک صحافیوں کے تحفظ اور اظہارِ رائے کی آزادی کے حوالے سے محفوظ نہیں، تو غلط نہ ہوگا۔
……………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔