ہندوستان پر انگریزوں کی حکومت تھی اور پہلی جنگ عظیم کا زمانہ تھا۔ اُن دنوں انگریز سرکار نے ہندوستان میں ایک بل منظور کروایا جسے ’’راولٹ ایکٹ‘‘ کہا جاتا تھا۔ اس ایکٹ کے تحت انتظامیہ اور پولیس کو لامحدود اختیارات عطا کئے گئے۔ ملزم کو نہ تو اپیل کا اختیار تھا اور نہ ہی وہ اپنے دفاع میں وکیل کی خدمات حاصل کرسکتا تھا۔ سرکار کسی کو بھی بغیر کسی وجوہات کے حراست میں لے سکتی تھی۔ اس بل کے پاس ہونے کے بعد ہندوستان کا سیاسی درجۂ حرارت کافی گرم ہوگیا تھا۔ جگہ جگہ اس ایکٹ کے خلاف مظاہرے ہو رہے تھے۔
ان دنوں پنجاب کا گورنر ’’جنرل ڈائر‘‘ تھا۔ ’’جنرل ڈائر ‘‘ آمرانہ مزاج کا حامل شخص تھا۔ وہ ہندوستانیوں سے بات کرنا اپنی توہین سمجھتا تھا اور برملا کہتا تھا کہ ہندوستانیوں کے لئے موزوں جگہ جیل ہے۔ اسی دوران میں صورتحال پر قابو پانے کے لئے انگریز سرکار نے امرتسر کے دو سیاسی رہنماوں ’’ڈاکٹر سیف الدین‘‘ اور ’’ڈاکٹر ستیاپال‘‘ کے تقریر کرنے پر پابندی عائد کی اور بعد میں انہیں گرفتا ر کیا گیا۔ ان رہنماؤں کی گرفتاری کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی جس کی وجہ سے امرتسر شہر میں مظاہروں میں مزید شدت آگئی اور حالات ٹھیک ہونے کے بجائے اور خراب ہوگئے۔ جنرل ڈائر کو امرتسر جانے کا حکم نامہ ملا۔ امرتسر جانے کے بعد جیسے ہی جنرل ڈائر کو پتا چلا کہ’’جلیا والا باغ‘‘ میں ہندوستانیوں کی ایک میٹنگ منعقد ہوئی ہے، تو وہ غصے سے لال پیلا ہوگیا۔ جنرل ڈائر 90 سپاہیوں کا دستہ لے کر باغ گیا اور بغیر کسی وارننگ کے ان نہتے لوگوں پر فائرنگ کا حکم دیا۔ فائرنگ تقریباً پندرہ منٹ جاری رہی جس کے نتیجے میں تین سو ستّر لوگ موقعہ پر جاں بحق جبکہ بارہ سو زخمی ہوئے۔ بعد میں جب تحقیقات کے دوران میں جنرل ڈائر سے پوچھا گیا کہ فرض کریں فائرنگ کے بغیر ہجوم منتشر ہوسکتا تھا، تو کیا پھر بھی آپ فائرنگ کا حکم دیتے؟ جنرل ڈایر نے جواب دیا: ’’ہاں۔‘‘ پھر پوچھا گیا کہ اس سے آپ کا مقصد کیا تھا؟ اُس نے جواب دیا کہ ’’میں فائرنگ کرنا چاہتا تھا اور اُس وقت تک فائرنگ کرنا چاہتا تھا جب تک ہجوم منتشر نہ ہوجاتا اور میں نے ایسا ہی کیا۔‘‘ اصل میں وہ ہجوم فوراً ہی منتشر ہوگیا تھا، لیکن جنرل ڈائر ہندوستانیوں کو انسان ہی نہیں سمجھتا تھا۔ وہ کہہ رہا تھا کہ میں فائرنگ کرنا چاہتا تھا اور بھر پور فائرنگ کرنا چاہتا تھا۔
اب انگریز دور کی سیاسی تاریخ کا یہ تاریک باب بند کرتے ہیں اور پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک تاریک باب کھولتے ہیں۔ تاریخ ہے چار جولائی اور سال ہے 1948ء۔ پاکستان کو وجود میں آئے تقریباً گیارہ ماہ کا عرصہ گزر چکا تھا کہ اس دن صوبہ سرحد (اب خیبر پختونخوا) کے گورنر نے ’’پبلک سیفٹی آرڈیننس‘‘ جاری کیا۔ اس آرڈیننس کے ذریعے حکومت کو اختیار دیا گیا کہ وہ بغیر کسی وجہ کے کسی بھی شخص کو غیر معینہ مدت کے لئے حراست میں لے سکتی ہے اور اس کی جائیداد ضبط کرسکتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ حراست میں لئے گئے شخص کو یہ اختیار بھی حاصل نہیں تھا کہ وہ اپنی گرفتاری کو کورٹ میں چیلنج کرسکے۔ اس آرڈیننس کے تحت متعدد لوگوں کو حراست میں لیا گیا اور ان کی جائیدادیں ضبط کی گئیں۔ جن میں باچا خان، ڈاکٹر خان صاحب، قاضی عطاء اللہ، ارباب عبدالغفور خان اور دیگر نامور لوگ شامل تھے۔
حکومت کے اس ظالمانہ اقدام کے خلاف ’’خدائی خدمتگار‘‘ تنظیم نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ بارہ اگست 1948ء کو چارسدہ میں ’’بابڑہ‘‘ گراؤنڈ تک احتجاج کے طور پر مارچ کریں گے۔ جلوس کو پُرامن بنانے کے لئے لوگوں کو تاکید کی گئی کہ وہ خالی ہاتھ آئیں۔ یہاں تک کہ ہاتھوں میں ڈنڈے بھی ساتھ نہ لائیں۔ اس جلوس میں بوڑھے، بچے اور جوان شامل تھے، مگر جیسے ہی یہ جلوس بابڑہ گراؤنڈ پہنچ گیا، تو صوبہ سرحد کے وزیراعلیٰ ’’سردار عبدالقیوم خان‘‘ بھی پولیس سمیت ادھر آگئے اور پولیس کو نہتے لوگوں پرفائرنگ کا حکم دیا۔ تقریباً پینتالیس منٹ پولیس معصوم لوگوں پر فائرنگ کرتی رہی۔ اس فائرنگ کے نتیجے میں تقریباً چھے سو پچاس لوگ شہید جبکہ ایک ہزار سے لے کر بارہ سو زخمی ہوئے۔
بعد میں ستمبر 1948ء کو عبدالقیوم خان نے صوبائی اسمبلی میں بیان دیا کہ ’’میں نے بابڑہ میں دفعہ ایک سو چوالیس نافذ کیا تھا، جب لوگ منتشر نہ ہوئے، تو ان پر فائرنگ کی گئی۔ وہ خوش قسمت تھے، کیوں کہ پولیس کے پاس اسلحہ ختم ہوگیا تھا، ورنہ ایک بندہ بھی زندہ نہ بچتا۔‘‘
اب میں ایک غلام ملک (ہندوستان) اور آزاد ملک (پاکستان) میں انسانی جان کی قدر و قیمت کا اندازہ اور جنرل ڈائر اور سردار عبدالقیوم خان کا موازنہ قارئین پر چھوڑ کر مزید چھے سال آگے بڑھتا ہوں ۔
اب کی بار تاریخ بیس مارچ ہے اور سال 1954ء ہے۔ خان عبدالغفار خان بابا اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’چھے سال پہلے میں نے اسی جگہ اعلان کیا تھا کہ پاکستان ہمارا ملک ہے۔ اس کی یکجہتی اور تحفظ ہمارا فرض ہے۔ کسی بھی پارٹی کی جانب سے ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لئے پیش کئے جانے والے پروگرام پر میں اور میرے لوگ آپ کا ساتھ دیں گے۔ میں آج پھر وہی الفاظ دہراتا ہوں، لیکن تعجب کی بات ہے کہ ہال میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو اَب بھی ہماری وفاداری پر شک اور سوال کرتے ہیں۔ اس لئے میں سوچ رہا ہوں کہ مناسب ہوگا کہ ایک خصوصی عدالت قائم کی جائے، جس میں نہ صرف میری وفاداری اور غداری پر تحقیقات ہوں بلکہ 1948ء میں چارسدہ کے مقام ’’بابڑہ‘‘ پر خدائی خدمتگار تحریک کے سیکڑوں کارکنان (مردوں، عورتوں اور بچوں) کے قتل عام، لوٹ مار اور آتش زنی کا بھی جواب دیا جائے۔‘‘
قارئین، ہم پشتون باچا خان کے فلسفے پر عمل کرتے ہوئے پاکستان کی یکجہتی، تحفظ اور ترقی و خوشحالی کیلئے اپنی بھرپور کوشش کریں گے اور اس طرح چودہ اگست جو کہ ہماری آزادی کا دن ہے، اس کو بھی انتہائی جوش و جذبے کے ساتھ منائیں گے، لیکن ساتھ ساتھ حکومت سے درخواست بھی کریں گے کہ ’’بابڑہ‘‘ میں ہونے والے ظلم پر اسمبلی میں مذمتی قرارداد پاس کریں اور اس واقعے کو قومی سانحہ قرار دیں، تاکہ ہم دنیا کو اور اپنے لوگوں کو بتا سکیں کہ ایک غلام ملک (ہندوستان) اور آزاد ملک ( پاکستان) میں یہی فرق ہے۔
………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے ۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔