مقدونیہ کا سکندر ہو، منگولیہ کا تموجن ہو یا شہرِ سبز کا تیمور، تاریخ ہمیشہ اُس سپہ سالار کو عزت دیتی ہے جواپنے دشمن کی بدتمیزی،غرور اور ناجائز سلوک کا توڑ جانتا ہو۔ ہم اگر صحیح اورغلط کے پیمانے کو چند لمحوں کے لیے خود سے دور رکھ کر سوچ لیں، تو ہم بھی تاریخ کی طرح مجبور ہوکر سکندر کو سکندرِ اعظم، تموجن کو چنگیز خان اور تیمور لنگ کو امیر تیمور کہنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ ہم ایسا کرنے پر مجبور کیوں ہو جاتے ہیں؟ کیوں کہ ان تینوں سپہ سالاروں نے دشمن کو سبق سکھانے میں کبھی بھی اگر مگر اور کمپرومائیز سے کام نہیں لیا ۔
سکندر کئی سال مقدونیہ سے دور رہا اور صرف لڑائیاں لڑتا رہا، یہاں تک کہ پورے جسم پر تلوار، غلیل اور تیر اپنے نشان تک چھوڑ گئے تھے، لیکن کبھی بھی کسی مہم کو ادھورا چھوڑ کر واپس نہیں گیا۔ دارا نے صرف سکندر کے دشمنوں کی مدد کی تھی، لیکن سکندر نے بہت کم عرصے میں دارا کی بساط لپیٹ کر ایک ایسی نئی دنیا جو صرف اُس کی ہو، بسانے کا ارادہ کر لیا۔ ظلم بھی بہت کیے۔ یہاں تک کہ باپ کے مرنے کے بعد اُن تمام لوگوں کو چن چن کر سکندر نے مار دیا تھا جو تخت کا دعویٰ کرسکتے تھے۔ گھر سے کافی عرصہ دور رہ کر وطن کی یاد نے بھی بہت ستایا اور اپنی فوج کے بہت سارے حقیقی مسائل کا سامنا بھی کیا لیکن دُھن کے اتنے پکے ّ تھے کہ دشمن نے ہمیشہ اس سے پناہ مانگی۔ اخلاقی کمزوریاں بھی تھیں اس میں، اور شراب نوشی بھی کثرت سے کیا کرتا تھا، لیکن ایک خوبی تھی اُس میں جس کی وجہ سے دو ہزارسال سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود سکندر آج بھی فاتحِ عالم کہلاتا ہے اور وہ خوبی تھی دشمن کو نیست و نابود کرکے اس پر خود حکومت کرنے کی ۔
منگولیہ کا چنگیز خان بھی انتقام کی آگ میں ہیولا بن گیا تھا اور وہ بھی اتنا ظالم تھا کہ شائد قیامت تک کوئی اُس جیسا ظالم نہ آئے، لیکن جو کمٹمنٹ ایک سپہ سالار کی ہونی چاہیے، وہ اس میں کھوٹ کھوٹ کر بھری تھی۔ لاکھوں کروڑوں لوگ اس کی وجہ سے مرے، یہاں تک کہ انسانی سروں سے مینار تک بنا ڈالے، لیکن ایک خوبی تھی اس میں کہ دشمن کو دشمن ہی رکھا اور اس وقت تک دشمن کا تعاقب کیا جب تک دشمن کا سر اور اس کی تلوار مل نہ جاتے۔ تیمور میں البتہ کئی خوبیاں تھیں جن کی وجہ کوئی بھی مسلمان اس کو یاد کرکے خوش ہوسکتا ہے۔ کیوں کہ وہ نماز پڑھتا تھا اور قرآن پاک کے ساتھ ساتھ فقہی امور پر کافی دسترس بھی رکھتا تھا۔
امیر تیمور کی زندگی پڑھ کر تو بندہ حیران رہ جاتا ہے۔ کیوں کہ ایک پاؤں سے لنگڑے اس انسان نے ایک پوری زندگی گھوڑے کی زین پر ایک ہاتھ میں کلہاڑا اور دوسرے ہاتھ میں تلوار پکڑ کر گزاری۔ امیر تیمور تاریخ کے بہت بڑے فاتح گزرے ہیں۔ اس کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ کرنا مشکل کام ہے۔ وہ قرآنِ پاک کے حافظ بھی تھے اور ایک جید عالم دین بھی۔ قرآنِ پاک کی سورتوں کو الٹا یعنی آخر سے پڑھ سکتے تھے، جس ملک کو فتح کرتے وہاں کے علما کو جمع کرکے ان کے ساتھ مناظرے کرتے اور ہمیشہ تیمور ہی کا پلڑا بھاری رہتا۔ اپنی خود نوشت ’’میں تیمور ہوں‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’میں نے اپنے لیے ایک مسجد بنوائی تھی، جس کو لشکر کے ساتھ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جاتا اور ہمیشہ پانچ وقت کی نماز اُسی مسجد میں ادا کرتا۔ میں نے کبھی خود کو اپنی فوج سے الگ اور اہم نہیں سمجھا اور یہی وجہ ہے کہ جہاں لشکر پڑاؤ ڈالتا میرا اور باقی سپاہیوں کا ایک ہی جیسا خیمہ ہوتا۔ میں ہمیشہ یہی سمجھتا رہا کہ کسی بھی سپہ سالار کے لیے سب سے اہم دو چیزیں ہوتی ہیں، ایک اُس کا سپاہی اور دوسرا اُس کا دشمن۔ میں نے ہمیشہ دشمنوں سے زیادہ اپنے لوگوں پر نظریں رکھیں اور جب مجھے لگا کہ میرے اپنے مجھ سے غداری کر سکتے ہیں، تو پھر میں نے ایک اصول بنایا جو آخر تک میری کامیابی کی ضنمانت بنا رہا۔ میں غدار لوگوں کی جیتے جی کھال اُترواتا، اس سے وہ نہ مرتے، تو پھر میں ان کو گرم اور جلتے ہوئے تیل میں ڈال دیتا ۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا کہ دوبارہ کبھیمجھ سے کوئی غداری کی جرأت نہ کرتا۔ میں نے کبھی سرکش دشمن کو سر اٹھانے کا موقع نہیں دیا۔ لوگ شراب پی کر مدہوش ہوجاتے اور میرے لیے مدہوش ہونے کا لمحہ وہ ہوتا، جب اپنے دشمن کے کٹے ہوئے سر سے اُبلتا ہوا خون دیکھتا اور یہی وہ عظیم لمحہ ہوتا جب میں اپنے گردوپیش سے بالکل بے خبر ہوجاتا اور انتہائی اطمینان سے میرے دل کی دھڑکنیں تیز ہوجاتیں۔‘‘
شائد یہی وجہ تھی کہ امیر تیمور نے انتہائی معمولی بات پر آل مظفر کا خاتمہ کیا اور بغیر کسی خاص وجہ کے انقرہ کی لڑائی میں بایذید یلدرم کو شکست بھی دی۔ خامیاں تیمور میں بھی تھیں۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ لوٹ مار میں اس کا کوئی ثانی نہیں تھا لیکن ایک خوبی تھی جس کی وجہ سے تاریخ نے اس کو عزت دی اور وہ خوبی تھی دشمن کو دشمن ہی سمجھنا اور اس سے کسی خیر کی توقع نہ رکھنا۔
قارئین، ان تینوں سپہ سالاروں میں دشمن کے بارے میں ’’تیموری اپروچ‘‘ مجھے پسند آیا۔ آپ مجھ سے اختلاف کرسکتے ہیں، لیکن دشمن جب ہر حد سے آگے نکل جاتا ہے، تو پھر ’’تیموری اپروچ‘‘ بہت ضروری ہوتا ہے۔ حق اور باطل کے پیمانے پر رکھے بنا اگر’’تیموری اپروچ‘‘ کا صحیح مطالعہ کیا جائے، تو یہ بات طشت از بام ہوجائے گی کہ دشمن بارے اس کی سوچ ہمیشہ دشمنوں والی ہی رہی۔ وہ دشمن کے حوالے سے کبھی کسی مصلحت کا شکار نہیں ہوئے۔
میں اتنی لمبی چوڑی تمہید شائد نہ باندھتا اگر اقوامِ متحدہ کے ادارے ہیومن رائٹس کمیشن کے سیکریٹری کے کشمیر کے حوالے سے وہ الفاظ نہ سنتا جن کو سن کر انسانی روح کانپ اٹھتی ہے۔ وہ سامعین کو مخاطب کرکے زار زار رونے لگتے ہیں، جب بھارتی فوج کی درندگی کا ذکر کرکے کہتے ہیں کہ ان ظالموں نے دس ہزارمظلوم کشمیری عورتوں کو زبردستی زد و کوب کیا ہے، جن میں ستر سال کی بوڑھی عورتیں بھی ہیں اور نوجوان لڑکیاں بھی۔ اور دنیا میں کوئی نہیں جو بھارت کو اس ظلم سے روک لے۔
اس باب کی کہانیاں کب تک اسی طرح روح پرور رہیں گی؟ مسئلہ یہ ہے کہ ہم بحیثیت قوم اس باب کی کہانیوں سے مزے لیتے ہیں۔ ہم نے کبھی ان رُوح فرسا داستانوں میں خود کو اور اپنے اہل و عیال کو نہیں دیکھا اور یہی وجہ ہے کہ غیر مسلم اس تکلیف کو محسوس کرلیتے ہیں، لیکن ہماری تو شائد آہیں اورآنسو سب خشک ہوچکے ہیں ۔
اس کشمیر کی داستانیں تو احساس رکھنے والوں کا خون تک خشک کردیتی ہیں۔ کیا ایسا تو نہیں کہ ہم جیتے جاگتے جانور نما انسان بن گئے ہیں۔ ذہنی وسعتوں کی بات ہے، وگرنہ امت کی مثال تو ایک جسم کی ہے۔ ایک حصے میں درد ہوتا ہے، تو دوسرا تڑپ اٹھتا ہے۔ یہ کس ایک جسم کی بات ہورہی ہے؟ یہاں تو نہ جسم ایک ہے نہ درد ۔ اور کوئی فکر نہیں تو کم سے کم امت کو یہ احساس تو آجائے نا کہیں ’’ختم اللہ علی قلوبہم‘‘ والی بات ہم پر صادق تو نہیں آ رہی۔ یہ احساس بھی اگر نہیں آ رہا، تو چند لمحے ’’عذاب الیم‘‘ پر ہی تھوڑی بہت تحقیق کرلینی چاہیے اور اگر اس سے بھی کام نہ چلا تو یہ دعا ضرور مانگنی چاہیے کہ اللہ ہمارے دشمنوں پر نہیں ہم پر کوئی امیر تیمور ہی مسلط کردیں، جو ہمیں وہ سزا دے جو وہ غداروں کو دیا کرتے تھے۔
ہم اس سزا کے حقدار بن چکے ہیں۔ کیوں کہ ہمارے اندر مومنانہ فراست اور انسانی عقیدت کا جذبہ ختم ہوچکا ہے۔ ہم ڈٹ کر سامنے کھڑا ہونے سے تو ڈر رہے ہیں، لیکن ہمارے اندر کا احساس بھی زنگ آلود ہوچکا ہے اور انسان کے اندر جب انسانیت زنگ آلود ہوجاتی ہے، تو پھر صرف تلوار کی تیز دھار ہی درکار ہوتی ہے۔ دشمن اور دوست کی تمیز نہ کرنا ہماری سب سے بڑی ناکامی ہے اور ہم جب تک اس ناکامی کا اعتراف اور اس ناکامی کا سدباب نہیں کریں گے، تب تک ہم مسلمان بس مرتے رہیں گے، کٹتے رہیں گے۔

………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے ۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔