سوات میں طالبانائزیشن

پاکستان میں ادغام کے بعد اہلِ سوات کو اُمید تھی کہ اب سوات میں نہ صرف شخصی آزادی ہوگی بلکہ حکومتِ پاکستان اسے مزید ترقی و خوشحالی سے ہم کنار کرے گی، لیکن پاکستان کی ہر حکومت نے سوات کو نظر انداز کیے رکھا۔ سوات اپنی خوبصورتی، شادابی اور حسین قدرتی مناظر کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہے لیکن حکومت نے غیرمعمولی طور پر اس اہم سیاحتی علاقے کو جدید سیاحتی سہولتوں سے آراستہ کرنے کی کو ئی سنجیدہ کوشش نہیں کی جس کی وجہ سے یہاں کے عوام میں مایوسی پھیلتی گئی۔ عدالتوں میں عوام کو انصاف سے محروم رکھا گیا اور یہاں پاٹا ریگولیشن کے نام سے انتظامی اُمور چلائے جانے لگے، جس میں انتظامیہ اورپولیس کو بہت زیادہ اختیارات حاصل تھے۔ عوامی جدوجہد کے نتیجے میں جب 12 فروری 1992ء کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم سے پاٹا ریگولیشن کا خاتمہ کیا گیا، تو سوات میں ایک قانونی خلا پیدا ہوا۔
ملاکنڈ ڈویژن میں نفاذِ شریعت کے لیے مولانا صوفی محمد نے 18 جولائی 1989ء میں ضلع دیر میں تحریک نفاذِ شریعتِ محمدیؐ کے نام سے ایک تنظیم قائم کی تھی جو فعال انداز میں نفاذِ شریعت کے لیے متحرک تھی۔ اس تحریک کے زیادہ تر جلسے سوات میں ہوتے تھے۔ جب پاٹا ریگولیشن کے خاتمہ کے بعد ملاکنڈ ڈویژن میں قانونی خلا پیدا ہوا، تو مولانا صوفی محمد نے نفاذِ شریعت کے ذریعے اس خلا کو پُر کرنے کے سلسلے میں اپنی تحریک میں مزید تیزی پیدا کی۔ اس سلسلے میں تحریک کے سرگرم کارکنوں نے 2 نومبر 1994ء میں ضلعی عدالتوں اور سیدو شریف ایئرپورٹ کو اپنے قبضہ میں لے کر پورے سوات میں حکومت کی عمل داری عملاً ختم کردی، لیکن اس وقت حکومت نے حکمت سے کام لیا اور ریاست کے خلاف یہ بغاوت شریعہ ریگولیشن 1994ء، فرنٹیئر کانسٹیبلری اور فرنٹیئر کور کی مدد سے ختم کردی گئی۔ بہتر حکمت عملی کی وجہ سے اس میں کوئی بڑی خوں ریزی نہ ہوئی۔
9/11 کے بعد جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا، تو مولانا صوفی محمد طالبان کی مدد کے لیے اپنے دس ہزار ساتھیوں کے ساتھ باجوڑ کے راستے امریکہ کے خلاف جہاد کے لیے افغانستان چلے گئے لیکن عسکری تربیت اور کوئی باقاعدہ منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ سے تحریک نفاذِ شریعت محمدی کے کارکن یا تو قتل کیے گئے، یا انھیں گرفتار کرلیا گیا اور جو وہاں سے زندہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے، انھیں پاکستان واپس آتے ہوئے 16 نومبر 2001ء کومولانا صوفی محمد سمیت پولی ٹیکل حکام نے گرفتار کرلیا۔ جس کے بعد انھیں ڈیرہ اسماعیل خان جیل میں رکھا گیا۔ مولانا صوفی محمد کے داماد اور سوات میں تحریکِ طالبان کے سربراہ ملا فضل اللہ کو بھی افغانستان سے واپسی کے بعد ان کے ساتھ گرفتار کر لیا گیا تھا۔ 12 جنوری 2002ء میں حکومت نے ’’تحریک نفاذِ شریعت محمدیؐ‘‘ پر پابندی لگا دی۔ 16 نومبر 2007ء کو مولانا صوفی محمد کو اے این پی کی حکومت نے رہا کردیا۔
2003ء میں ملا فضل اللہ نے سوات کے ایک نواحی گاؤں مام ڈھیرئی میں ایف ایم ریڈیو کا آغاز کیا۔ 2004ء میں اس ریڈیو کے تحت انھوں نے بچوں کی پولیو مہم اور لڑکیوں کی تعلیم کی مخالفت شروع کی۔ 2006ء میں ملا فضل اللہ نے اپنے معتقدین کو الیکٹرانک اور موسیقی کے آلات مثلاً ٹیلی وِژن، وی سی آر اور سی ڈی پلیئر وغیرہ جلانے کی ترغیب دی۔ بڑی تعداد میں لوگ اپنے ان آلات کو اجتماعی طور پر جلانے لگے۔ مقامی انتظامیہ نے اسی سال ملا فضل اللہ کے ایف ایم ریڈیو کا نوٹس لیا اور اس کے خلاف کارروائی کی، لیکن مقامی انتظامیہ کو اس سلسلے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ انتظامیہ کو ملا فضل اللہ کے خلاف فیصلہ کن اقدام نہ اٹھانے کا حکم اس وقت کی مرکزی حکومت کی طرف سے دیا گیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ تحریک پھیلتی گئی اور اس میں باقاعدہ اسلحہ کی نمائش شروع ہوگئی۔ اس کے بعد ملا فضل اللہ باقاعدہ طور پر مقامی پولیس اور پاک فوج کو چیلنج کرنے لگے۔ لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں فوجی آپریشن کے خلاف ملا فضل اللہ نے شدید ردِ عمل کا اظہار کیا اور آپریشن ابھی پایۂ تکمیل تک بھی نہیں پہنچا تھا کہ 3 جولائی 2007ء کو مٹہ (سوات) کے پولیس سٹیشن پر پہلا راکٹ حملہ کیا گیا، جس میں ایک پولیس اہل کار جاں بحق اور کئی زخمی ہوگئے۔


2003ء میں ملا فضل اللہ نے سوات کے ایک نواحی گاؤں مام ڈھیرئی میں ایف ایم ریڈیو کا آغاز کیا۔ 2004ء میں اس ریڈیو کے تحت انھوں نے بچوں کی پولیو مہم اور لڑکیوں کی تعلیم کی مخالفت شروع کی۔

جامعۂ حفصہ کے آپریشن کے بعد سوات میں باقاعدہ خود کش حملوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ جب پورے سوات میں حکومت کی عملداری ختم ہوگئی، تو حکومت نے باقاعدہ طور پر سوات میں فوجی آپریشن کا اعلان کیا۔ 4 نومبر 2007ء کو سوات میں میجر جنرل ناصر جنجوعہ کی سرکردگی میں ریگولر آرمی بھیجی گئی۔ 24 نومبر 2007ء کو سوات آپریشن کا باقاعدہ چارج پاک فوج کے حوالے کر دیا گیا۔ سوات آپریشن کے انچارج میجرجنرل ناصر جنجوعہ نے اہلِ سوات سے وعدہ کیا کہ دسمبر 2007ء میں فوج آپریشن مکمل کرکے سوات میں امن قائم کرے گی اور اسی مہینے وادئی سوات کو سیاحوں کے لیے کھول دیا جائے گا، لیکن فوجی آپریشن کے باوجود سوات میں بداَمنی اور عسکریت پسندی ختم ہونے کی بہ جائے بڑھتی رہی۔
2008ء سوات کی تاریخ میں ایک خونین باب کی حیثیت رکھتا ہے۔ سال کے آغاز میں چھوٹے موٹے بم دھماکے تو ہوتے رہتے تھے، لیکن 29 فروری 2008ء کو سوات سے تعلق رکھنے والے ڈی ایس پی جاوید اقبال کی نمازِ جنازہ پر ایک خودکش یا ریموٹ کنٹرول بم دھماکا ہوا جس میں پچاس سے زیادہ لوگ شہید اور سو کے قریب زخمی ہوئے۔ یہ اہلِ سوات کے لیے غیرمعمولی طور پر ایک بہت بڑا المیہ تھا۔ ہر گھر سے آہوں اور سسکیوں کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔
سوات میں بداَمنی اور شورش بڑھتی گئی۔ وادی کی 80 فی صد علاقے پر عسکریت پسندوں نے قبضہ کرلیا تھا اور جب نیا سال 2009ء کا سورج طلوع ہوا، تواس کے جلو میں اہلِ سوات کے لیے نئی آزمائشیں موجود تھیں۔ آخر سوات کا مرکزی شہر مینگورہ بھی عسکریت پسندوں کی پہنچ سے باہر نہیں رہا اور یوں پورے سوات پر عسکریت پسندوں نے قبضہ جما لیا۔ حکومت نے دہشت گردوں کے خلاف ’’راہِ راست‘‘ کے نام سے حتمی فوجی آپریشن کا اعلان کیا اور فوج نے اسی سال مئی کے اوائل میں مینگورہ سمیت پورے سوات کے عوام کو چند گھنٹوں کے اندر اندر سوات چھوڑنے کا حکم صادر کیا۔ ا ہلِ سوات نے اپنے بھرے پُرے گھر، رواں دواں کاروبار اور جنت جیسی وادی کو نہایت بے سروسامانی کی حالت میں چھو ڑنا شروع کیا۔ یہ سیکڑوں یا ہزاروں لوگو ں کا کارواں نہیں تھا بلکہ لاکھوں لوگوں پر مشتمل ہجرت تھی۔ جس کسی کے پاس گاڑی کی سہولت تھی، وہ گاڑیوں میں سوار ہوئے لیکن جن لوگوں کے پاس سواری نہیں تھی وہ اپنے بیوی بچوں اور ضعیف والدین کے ساتھ پیدل ہی ایک نامعلوم منزل کی طرف روانہ ہوگئے۔ راستے میں کئی المیوں نے جنم لیا۔ زیادہ تر لوگ بیس تیس کلومیٹر تک پیدل سفر کرتے رہے۔ جب وہ سوات کی حدود سے باہر نکل گئے، تو انھیں سواری کی سہولت میسر آئی۔ تب مردان، صوابی اور پشاور کے پختونوں نے اہلِ سوات کے لیے اپنے در و دیوار وا کیے اور اپنے مصیبت زدہ بھائی بہنوں کو اپنے گھروں، حجروں اور سکولوں میں پناہ دی۔ بہت سے لوگ کیمپوں میں بھی پناہ گزیں ہوئے۔ اہلِ سوات قریباً تین مہینوں تک آئی ڈی پیز بنے۔ پاک فوج نے کامیاب آپریشن کرکے سوات کو دہشت گردوں سے پاک کیا اور اہلِ سوات کو واپس آنے کی اجازت دے دی گئی۔
اس شورش کے دوران میں سوات کے ہزاروں بے گناہ لوگ بم دھماکوں اور فوجی آپریشن کے دوران میں مارٹر گولوں کا نشانہ بن گئے۔ ہزاروں گھر اور کاروباری مراکز صفحۂ ہستی سے مٹ گئے، تین سو سے زائد تعلیمی ادارے بارود اور آتش گیر مادے کی نذر ہوئے جب کہ درجنوں رابطہ پل بموں سے اڑائے گئے۔ سیاحت کی صنعت کو بے پناہ نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ بہت سے ہوٹل بمباری کی زد میں آئے اور ملم جبہ ہوٹل کی خوبصورت عمارت اور سیاحوں کے لیے قائم چیئرلفٹ بھی دہشت گردی کا نشانہ بن کر تباہ ہوئے۔
عسکریت پسندوں سے نجات کے بعد ابھی سوات کے لوگوں کو ایک اور آسمانی آفت کا سامنا کرنا تھا۔ 28 جولائی 2010ء کو سوات میں تباہ کن سیلاب نے رہی سہی کسر پوری کر دی۔ عسکریت پسندی نے مجموعی طور پر سوات کو اتنا نقصان نہیں پہنچایا تھا جتنا نقصان اس سیلاب میں اہلِ سوات کو پہنچا۔ سیکڑوں گھر دریا بُرد ہوگئے۔ ایک سو سے زائد ہوٹل صفحۂ ہستی سے مٹ گئے۔ باغ ڈھیرئی سے کالام تک بیشتر سڑک بالکل غائب ہوگئی اور جہاں جہاں بڑے پُل تھے، کالام سے چکدرہ تک سب جامبیل کوکارئی کی ندی اور دریائے سوات کی مشترکہ منھ زور موجوں کی نذر ہوگئے۔ 2006ء سے لے کر 2010ء تک اہلِ سوات ایک سخت آزمائش سے گزرتے رہے، تاہم اہلِ سوات نے اس دوران میں جس استقامت، بہادری اور حب الوطنی کا ثبوت دیا، وہ تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔
اس وقت اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے سوات میں مکمل امن و امان ہے۔ معمول کی زندگی بحال ہوچکی ہے اور سیاحت کی دَم توڑتی صنعت کو نئی زندگی مل رہی ہے۔ یہ سب کچھ سوات کے لوگوں کی قربانیوں، مقامی پولیس اور پاک فوج کے ایثار کی وجہ سے ممکن ہوا۔ اس جنگ میں جہاں عوام نے جانی و مالی قربانیاں دیں، وہاں پولیس اور پاک فوج کے جوانوں نے بھی اپنی جانیں نثار کیں۔  (فضل ربی راہیؔ کی کتاب "سوات سیاحوں کی جنت” سے انتخاب)