وادئی سوات جہاں حسن و دل کشی کا حسین مرقع ہے، وہاں تاریخی اعتبار سے بھی بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ قدیم زمانے میں یہ اپنی خوب صورتی اور شادابی کے علاوہ اپنی مخصوص جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے بہت سے حملہ آوروں کی شکار رہ چکی ہے، لیکن یہاں کے رہنے والوں نے ہر دور میں غلامی کی زندگی پر موت کو ترجیح دی ہے اور کسی بھی دور میں کسی کے زیرِ نگین رہنا قبول نہیں کیا۔ اس مَردم خیز سرزمین نے بہت سی قابل اور تاریخ ساز شخصیات کو جنم دیا ہے، جنھوں نے اپنے غیر معمولی کارناموں کی وجہ سے تاریخ کے اوراق میں خود کو زندہ و پائندہ کردیا ہے۔
قدیمی کتب میں سوات کا ذکر مختلف ناموں سے آیا ہے، جن میں سواستوس، سواد اور اُودیانہ وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔ اُودیانہ (Udyana) سنسکرت زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں گلستان یا باغ۔ وادئ سوات کی بے پناہ خوب صورتی اور اُس کے حسین مناظر اور دل کشی کے باعث اُس کا اودیانہ نام زیادہ خوب صورت اور موزوں نظر آتا ہے۔ کیوں کہ اس نام پر سوات کو باغ اور گلستان سے تشبیہ دی گئی ہے اور اُس کا یہ نام اسم بامُسمّٰی ہے۔ یونانی مؤرخین نے، جو سکندرِ اعظم کے ساتھ یہاں آئے تھے، اپنی رسم کے مطابق اس علاقہ کا ذکر اس کے دریا کی نسبت سے کیا ہے،جو اَب دریائے سوات اور اس عہدِ قدیم میں سواستو (Suvastu) کہلاتا تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ لفظ سویتا (Sweta) سے مشتق ہے جس کے معنی سپید کے ہیں۔ یقین کیا جا سکتا ہے کہ اس علاقے کے صاف و شفاف سپید پانی کے ندی نالوں اور دریا کی وجہ سے اُسے ’’سواستو‘‘ یا ’’سویتا‘‘ پکارا گیا ہوگا، جو بعدمیں چل کر سواد، جیسا کہ مغل بادشاہ بابر کی تحریر سے ظاہرہوتا ہے، اور پھر سوات بن گیا۔
چھٹی صدی (ق۔م) سے لے کر جب یہ علاقہ ایرانی شہنشاہوں کی عظیم سلطنت کا ایک حصہ تھا، موجودہ دور تک سوات نے بڑے اہم انقلابات دیکھے ہیں۔ ڈھائی ہزار (ق۔م) میں آریائی نسل کے لوگ جب برصغیر میں داخل ہوئے، تو وہ اسی وادی سے ہو کر گزرے تھے۔ 326 (ق۔م) میں سکندرِ اعظم ایران کو فتح کرکے کابل کے راستے ہندوستان پر حملہ آور ہوا، تو وہ علاقہ کونڑ (Konar) افغانستان سے ہوتا ہوا وادئی سوات میں داخل ہوا اور سوات کے بانڈئی نامی گاؤں کے قریب دریائے سوات پار کرکے منگلور(سوات) تک پیش قدمی کی۔ سکندر اعظم اپنی فوج کے ہمراہ منگلور سے باہر ایک بڑے میدان میں مقیم ہوگیا۔ یہاں ایک زبردست معرکہ کے بعد جنگ بندی ہوئی اور سکندر اعظم اپنی من مانی شرائط منوا کر سوات میں مزید پیش قدمی کرتا ہوا آگے بڑھا اور اباسین عبور کرکے پنجاب میں داخل ہوا۔ سکندر کے زمانے میں سوات کا راجہ ارنس تھا، جسے سکندر نے شکست دی تھی۔ تاریخ میں مذکور ہے کہ سکندرِ اعظم کو اپنی فتوحات کے دوران صرف سوات اور اس کی پڑوس میں واقع علاقوں میں سخت ترین مزاحمت کا سامناکرنا پڑا تھا، جس میں وہ زخمی بھی ہوا۔
100ء میں سوات میں بُدھ مت عروج پر تھا۔ اس وقت سوات سلطنت گندھارا کا ایک اہم حصہ تھااوراس پر راجہ کنشک کی حکم رانی تھی، جس کا پایۂ تخت پشاور تھا۔
403ء میں مشہور چینی سیاح اوربُدھ مت کے مقدس مقامات کا زائر فاھیان سوات آیا۔ 519ء میں ایک اور مشہور چینی سیاح سنگ یون کافرستان سے ہوتا ہوا سوات میں داخل ہوا۔ 630ء میں چین کا ایک تیسرا معروف سیاح، بدھ مذہب کا عالم اور زائر ’’ہیون سانگ‘‘ کابل سے ہوتا ہوا سوات آیا۔ چینی سیاحوں میں آخری مشہور سیاح ’’وکنگ‘‘ تھا جو 752ء میں سوات آیا۔ ان چینی سیاحوں نے اپنے اپنے سفرناموں میں سوات کے اس وقت کے مذہبی، معاشی، تہذیبی اور ثقافتی حالات کے متعلق تفصیلاً لکھا ہے، جن سے معلوم ہوتاہے کہ اس وقت سوات میں بدھ مت کادور دورہ تھا اور یہاں کے لوگ کافی ترقی یافتہ اور خوش حال تھے۔ تاہم ہیون سانگ نے اپنی یادداشت میں لکھا ہے کہ جب وہ سوات آیا، تو اس وقت یہاں بدھ مذہب زوال پذیر ہوچکا تھا۔ وہ لکھتا ہے: ’’دریائے سو یو فا سو تو کے دونوں جانب چودہ سو قدیم خانقاہیں ہیں، لیکن ان میں سے زیادہ تر اب ویران پڑی ہیں۔ کسی زمانے میں ان میں اٹھارہ ہزار کے قریب بدھ بھکشو ہوا کرتے تھے جو کم ہوتے ہوتے صرف چند ہی رہ گئے ہیں۔‘‘
گیارھویں صدی عیسوی میں محمود غزنویؒ کی افواج باجوڑ کے راستے سوات میں داخل ہوئیں، جنھوں نے اس وقت کے راجہ گیرا نامی حکم ران کو شکست دے کر سرزمینِ سوات کو اسلام کی ابدی قندیل سے روشن و تاباں کردیا۔
1485ء میں کابل کے چغتائی ترک حکم ران الغ بیگ نے قبیلہ یوسف زئی کی سرکردہ شخصیتوں کودھوکا سے قتل کردیا۔ شیخ ملیؒ اور ملک احمد خوش قسمتی سے اس قتل عام سے بچ کر اپنے بچے کھچے قبیلے کے ہم راہ پشاور میں داخل ہو ئے اور ایک طویل لڑائی کے بعد یوسف زئی قبیلہ پشاور، مردان اور سوات پر قابض ہو گیا۔
1515ء میں سوات کے بادشاہ سلطان اویس کو تخت و تاج سے معزول کرکے سوات کے پُرانے باشندوں کو مانسہرہ، ہزارہ چلے جانے پر مجبورکردیاگیا۔
1518ء میں جب مغل بادشاہ بابُر افغانستان سے ہندوستان پر حملہ کرنے کی غرض سے جا رہا تھا، تو اس نے سب سے پہلے سوات پر لشکر کشی کی لیکن اُسے یہاں منھ کی کھانی پڑی۔ آخر یوسف زئی قبیلہ کے سردار شاہ منصور کی بیٹی سے مصلحتاً (ڈپلومیٹک) شادی کی اور یہاں کے یوسف زئی قبیلہ کے باشندوں سے صلح کرکے انھیں اپنے لشکر میں شامل کیا اور بعد میں ہندوستان کو فتح کرلیا۔
1530ء میں شیخ ملیؒ نے ویش (زمینوں کی تقسیم) کا طریقہ رائج کیا اور یوسف زئی قبیلہ میں زمینوں کی باقاعدہ تقسیم عمل میں لائی گئی۔ بابُر کے مرنے کے بعد اُس کے بیٹے ہمایوں نے سوات کو بزورِ شمشیر فتح کرنا چاہا، لیکن کامیاب نہ ہوسکا۔ اِسی طرح تاریخ کا یہ دور گزرتا ہوا اکبر بادشاہ تک آن پہنچتا ہے، جس نے 1586ء میں سوات پر حملہ کیا لیکن شکست کھا کر پسپا ہونے پر مجبور ہوا۔

1825ء میں سید احمد شہید نے ان علاقوں میں سکونت اختیار کرلی اور اپنی سرکردگی میں بہت سے مجاہدوں کو سکھوں کے خلاف جہادمیں شامل کرلیا۔ اپریل 1827ء میں وہ اپنی جہادی سرگرمیوں کو تقویت دینے کے لیے سوات آئے اور جنوری 1829ء تک زیریں سوات میں مقیم رہے، تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو سکھوں کے خلاف جہاد کے لیے آمادہ کرسکیں۔
1850ء تک سوات میں کوئی سیاسی تنظیم نہیں تھی، اس لیے اس علاقہ کی سا لمیت کے لیے اس دور کے خوانین اور رؤسا کی مشاورت سے حضرت اخوند عبدالغفور (سیدوبابا) نے پیر بابا کی اولاد میں سے سیداکبر شاہ کو 1849ء میں سوات کی پہلی شرعی حکومت کا سربراہ منتخب کیا، لیکن 11 مئی 1857ء میں ان کی وفات کے بعد سوات پھر سیاسی افراتفری اور امنِ عامہ کی اَبتری کا شکار ہوا۔
1863 ء میں امبیلہ کے مقام پر انگریزوں کے ساتھ سخت جنگ ہوئی لیکن یہاں کے باشندوں نے سخت مزاحمت کی جس کے باعث انگریز اس علاقہ میں اپنے پاؤں نہ جما سکے۔
1877ء میں اخون صاحب (سیدو بابا) وفات پا گئے۔ اخون صاحب اور سیداکبر کی اولاد میں سوات کی بادشاہت کے لیے ایک طویل کش مکش شروع ہو گئی جو دیر اورباجوڑ کی سیاسی کش مکش میں ملوث ہونے کی وجہ سے اور بھی پیچیدہ صورت اختیار کر گئی۔
1883ء میں میاں گل عبدالودود (جو بعد میں جدید ریاستِ سوات کے بانی بنے اور بادشاہ صاحب کے نام سے مشہور ہوئے) اخون صاحب کے چھوٹے بیٹے میاں گل عبدالخالق کے ہاں پیدا ہوئے ۔
1887ء میں میاں گل عبدالحنان اخون صاحب کے بڑے بیٹے ریاست بنانے میں ناکام ہوئے اور ان کی وفات کے بعد طویل عرصہ تک ان کے خاندان میں سے ریاست کے قیام کے لیے کوئی کوشش سامنے نہ آسکی۔
1895ء اور 1897ء میں انگریزوں نے ملاکنڈکے راستے سے سوات پر دو الگ الگ حملے کیے، مگر سوات کے بہادر عوام نے بھرپور مزاحمت کی۔ اِن معرکوں میں دیر، باجوڑ، بونیر اور موجودہ ملاکنڈ ایجنسی کے لوگ بھی شامل تھے۔
1903-07ء میں میاں گل عبدالرزاق اور میاں گل عبدالواحد، جو اخوند صاحب کے بڑے فرزند کے بیٹے تھے، اپنے چچا زاد بھائی میاں گل عبدالودود کے ہاتھوں قتل ہوئے۔ اب سوات کے اقتدار کے لیے میاں گل عبدالودود اور ان کے بھائی میاں گل شیرین جان کے درمیان غیرمحسوس انداز میں کش مکش شروع ہوگئی، لیکن اقتدار سنبھالنے کے بعدمیاں گل عبدالودود نے 80 افراد پر مشتمل ایک دستہ کی قیادت میاں گل شیرین جان کو سونپ دی اور انھیں شموزئی کے علاقہ گڑھی خزانہ کے قلعہ میں تعینات کیا جو کہ دیر کی سرحد پر واقع تھا۔ 11 اگست 1918ء میں دیر کی فوج اس علاقہ میں داخل ہوئی جن کی سوات کے دستہ سے جھڑپیں شروع ہوئیں۔ بار بار کمک طلب کرنے کے باوجود میاں گل شیرین جان کو سوات سے کوئی مدد روانہ نہیں کی گئی جس کے نتیجہ میں جھڑپوں کے دوران میں شیرین جان کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ اس طرح میاں گل عبدالودود کے اقتدار کے لیے مستقبل میں بننے والا خطرہ وقت سے پہلے ہی ٹل گیا اور یوں وہ اخون صاحب کی تمام روحانی اور مادی میراث کے واحد وارث قرار پائے۔ اسی طرح سیاسی اقتدار کے لیے سخت کش مکش بھی ختم ہوگئی۔
میاں گل عبدالودود کے اقتدار سنبھالنے سے پہلے سوات میں ہر طرف افراتفری مچی ہوئی تھی جس سے تنگ آکر اس وقت کے سوات کے عمائدین نے ستھانہ سے تعلق رکھنے والے سید عبدالجبار شاہ نامی شخص کو سوات میں حکومت قائم کرنے کی دعوت دی جنھوں نے 24 اپریل 1915 ء کو سوات میں باقاعدہ اقتدار سنبھالا۔ بعد میں میاں گل عبدالودود (بادشاہ صاحب) جو سیدو بابا کے پوتے بھی تھے، نے عبدالجبار شاہ سے حکومت کی باگ ڈور چھین کر 1917ء میں اپنی باقاعدہ حکومت کی بنیاد ڈالی۔ 1917ء سے 1926ء تک اندرونی طور پر ریاستِ سوات کی تشکیل و تعمیر اور اختیارات کے استحکام کے لیے تیز کوششیں شروع کی گئیں۔ سڑکیں، ٹیلی فون اور قلعہ جات وغیرہ بنائے گئے۔ بیرونی طور پر مختلف جنگوں کے ذریعے اس نوزائیدہ ریاست کی حدود وسیع کی گئیں اور از سر نو ان کا تعین کیا گیا۔ برطانوی حکومت کی طرف سے رسمی طور پر ریاست سوات کو 3 مئی 1926ء میں تسلیم کیا گیا اور میاں گل عبدالودود کی حکم رانِ سوات کی حیثیت سے تخت نشینی عمل میں لائی گئی۔1947ء میں ریاست سوات کا پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا گیا۔
12 دسمبر 1949ء کو میاں گل عبدالودود نے عنانِ حکومت اپنے فرزند شہزادہ محمد عبدالحق جہان زیب (والئی سوات) کو سونپ دیے۔ جنہوں نے سوات کو ایک جدید اور ترقی یافتہ ریاست بنانے کی پوری کوشش کی اور سوات کی تعمیر و ترقی میں ایک ناقابلِ فراموش اور زندۂ جاوید کردار ادا کیا۔
28 جولائی 1969 ء میں ریاستِ سوات کو پاکستان میں ایک ضلع کی حیثیت سے ضم کردیا گیا اور یہاں باقاعدہ طور پر ڈپٹی کمشنر اور دیگر انتظامی اہل کاروں کی تعیناتی عمل میں لائی گئی۔ (فضل ربی راہیؔ کی کتاب سوات سیاحوں کی جنت سے انتخاب)