مشہور روسی مصنف رسول حمزہ توف نے ’’میرا داغستان‘‘ نامی اپنی ایک کتاب میں بھیڑیے کے شکار کا ایک دلچسپ واقعہ بیان کیا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ تین شکاریوں کے تعاقب کے بعد بھیڑیا ایک غار میں جا چھپا۔ شکاری اپنی رائفلوں سے غار کے تنگ دہانے کا نشانہ لے کر انتظار کرنے لگے کہ بھیڑیا غار سے باہر آئے اور ہم انہیں شکار کرلیں، لیکن بھیڑیا بھی بے وقوف نہ تھا۔ وہ بڑے اطمینان سے اپنی پناہ گاہ میں آرام کرتا رہا۔ اب صورتحال یہ تھی کہ ہار اسی کی ہونی تھی جو صبر کھو بیٹھتا۔ آخر تین میں سے ایک شکاری انتظار سے اُکتا گیا۔اس نے بھیڑیے کو باہر نکالنے کے لیے غار کے دہانے میں سر ڈال دیا۔ اس کے ساتھی خاصی دیر تک انتظار کرتے رہے اور یہ سمجھ نہ سکے کہ آخر شکاری نے کیوں اندر جانے کی کوشش کی اور نہ سر باہر نکالنے کی۔ بالآخر ساتھیوں نے اسے واپس گھسیٹنے کی کوشش کی اور جب اسے کھینچ کر باہر نکالا، تو پتہ چلا کہ سر غائب ہے۔ اب باقی دو شکاریوں میں یہ بحث چھڑ گئی کہ جب اس نے غار کے اندر گھسنے کی کوشش کی، تو اس کے پاس سر تھابھی یا نہیں؟ جب وہ سربریدہ لاش گاؤں واپس لائی گیا اور وہاں کے لوگوں کے سامنے سارا واقعہ سنایا گیا، تو اس پر ایک معمر بزرگ کہنے لگے کہ بھیڑیے کے غار میں گھسنے کا اس نے جو فیصلہ کیا، اسے دیکھتے ہوئے وہ سمجھتا ہے کہ ایک عرصہ پہلے وہ سر سے محروم ہوچکا تھایا بچپن میں ہی اس کے پاس سر نہ تھا۔ لوگوں نے سوچا کہ اس سوال کا مستند جواب اس کی بیوہ ہی سے مل سکتا ہے، مگر بیوہ نے جواب دیا کہ مجھے بھی معلوم نہیں کہ اس کے پاس سر تھا یا نہیں؟ بلکہ وہ صرف اتنا جانتی ہے کہ اس کا شوہر ہر سال اپنے لیے ایک پاپاخ خریدا کرتا تھا۔
جب میں اپنے ملک کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے بعض واقعات کو دیکھتا ہوں، تو مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم اکثر اسی بے سر شکاری کی طرح بے صبری سے کام لے کراپنی مشکلات کو کم کرنے کی بجائے دشوار گزار اور خطرناک رستوں کا تعین کرتے ہیں۔ حال ہی میں ہمارے دفترِخارجہ نے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور وزیراعظم عمران خان کے درمیان ایک ٹیلیفونک رابطے کے بعد ایک بیان دیا کہ عمران خان اور مائیک پومپیو کے درمیان پاکستان میں دہشت گردوں کے حوالے سے کوئی بات نہیں ہوئی، لیکن بعد میں امریکی حکام نے کہا کہ وہ اپنی خبر پر قائم ہیں او ر عمران خان کے ساتھ دہشت گردی پر بات ہوئی ہے۔پھر جب ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی نے عمران خان کو مبارک باد دینے کے لیے ٹیلی فون کیا، تو پھر ہماری طرف سے بیان آیا کہ عمران خان او ر مودی کے درمیان دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کے حوالے سے بات ہوئی ہے، لیکن جس طرح ہم مائیک پومپیوسے منسوب ایک بات رد کرچکے تھے، بالکل اسی طرح بھارتی حکام نے عمران خان او نریندرمودی کے درمیان مذاکرات والی بات سے انکار کیا۔ اگر ہم صبر سے کام لیتے اور پاکستان او ربعض ممالک کے درمیان اعتماد کے فقدان کا بِگل خود نہ بجاتے، تو بہتر ہوتا۔ اگر ٹیلی فون پر عمران خان کے ساتھ دہشت گردی پر بات نہ بھی کی گئی ہو، تو ۵ ستمبر کو جب مائیک پومپیو پاکستان آئیں گے، تو اس وقت ضرور اس حوالے سے بات ہوگی۔ اس طرح عمران خان نے اقوام متحدہ کے اجلاس میں بھی جانا ہے اور انہیں وہاں پر دہشت گردی کے حوالے سے افغانستان، بھارت اور امریکہ کا بیانیہ سننا ہے اور ساتھ ساتھ انہیں وہاں پراس حوالے سے پاکستان کا بیانیہ پیش کرنا ہے۔

خارجہ پالیسی کی تشکیل میں ہمارے ریاستی اداروں کا ایک دوسرے پر اعتماد بہت ضروری ہے۔

اب امریکی حکام کی پاکستان آمد سے پہلے یا ہمارے وزیر اعظم عمران خان کا اقوام متحدہ یا امریکہ کے دورے سے پہلے ہم نے خود ایک عدم اعتماد کی فضا قائم کی ہے۔ ٹیلی فون پر مبارک باد کے پیغامات میں سے پاکستان،بھارت اور امریکہ نے اپنی اپنی خارجہ پالیسی کے مطابق مطالب نکالے ہیں۔ میں صرف پاکستان کی بات کروں گا اور وہ یہ کہ خارجہ پالیسی کے حوالے سے ہمیں بے صبری کے عالم میں ردعمل پر مبنی بیانات سے گریز کرنا چاہیے۔ ہمیں ایک طویل المیعاد خارجہ پالیسی بنانے پرکام کرنا چاہیے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں سے اپنے لیے اس طرح کے بڑے مسئلے پیدا کرنا اور اس پر فضول وقت اور دماغ خرچ کرنے سے بہتر ہے کہ منتخب حکومت، پارلیمان اور ریاست کے مقتدر ادارے مل بیٹھ کر ایک ایسی خارجہ پالیسی بنائیں، جس کے نتیجے میں ساری دنیا میں ہمارے دشمنوں کی بجائے ہمارے دوستوں میں اضافہ ہو جائے۔ بیرونی ممالک کے ساتھ صدقِ دل اور خلوصِ نیت سے مسائل کے حل کی کوشش کرنی چاہیے۔ ہمارے ملک کے اپنے ادارے اور پارلیمان میں موجود سیاسی قوتیں مل بیٹھ کر ایک ایسی جان دار خارجہ پالیسی کو تشکیل دیں کہ دنیا کے سارے ممالک ہمارے بیانیے کی طرف راغب ہوں اور وہ ہماری بات سننے کے لیے تیار ہوں۔
خارجہ پالیسی کی تشکیل میں ہمارے ریاستی اداروں کا ایک دوسرے پر اعتماد بھی بہت ضروری ہے۔ ان کو ایک دوسرے کا وجود صدقِ دل سے تسلیم کرنا چاہیے۔ اگر ملک کا ایک ادارہ کسی دوسرے ادارے کو بھیڑیا سمجھتاہو، تو اس قسم کے ماحول میں پھر کسی دشمن کے شکار کی بجائے خود بے سر لوگوں کا شکار ہی ہوتاہے۔ اندرونی او ر بیرونی بد اعتمادی کی اس دلدل سے نکلنے کے لیے عمران خان کی کابینہ کو بہت کام کرنا ہوگا۔ آنے والے چند مہینے اس حوالے سے بہت اہم ہیں۔
دیکھنا ہوگا کہ اقوامِ متحدہ میں عمران خان کس طرح دنیا کے ان ممالک کو اعتماد میں لے گا جن کے ساتھ پاکستان کے مسئلے مسائل ہیں۔ ملک کی داخلہ او خارجہ پالیسی محض ٹویٹ اور بیان بازی سے نہیں بلکہ پالیسیاں بنانے میں پارلیمان او ر دفاعی اداروں کے لوگوں کو اعتماد میں لینے کے ساتھ ساتھ یونیورسٹیوں میں بھی ان امور پرعلمی کام اور ریسرچ کرنا چاہیے۔ عمران خان نے وزیر اعظم ہاؤس اور گورنر ہاؤسز میں یونیورسٹیوں کے قیام کے اعلانات کیے تھے،لیکن میرے خیال میں یہ ایسے حساس علاقوں میں ہیں، جہاں پر عام طالب علموں اور ان کے والدین کا آنا جانا ممکن نہیں۔ میرے خیال میں اگر ان اہم عمارتوں میں دفاعی، اقتصادی اور بین الاقوامی معاملات کے ریسرچ مراکز قائم کیے جائیں، جہاں پر انتہائی محدود پیمانے پر میرٹ کی بنیاد پر آٹھ دس سکالرز بہترین طرزِ حکوت او ر کامیاب داخلہ و خارجہ پالیسی پر علمی کام کریں، تو بہتر ہوگا۔
میں رواں سال اپریل کے مہینے میں ہالینڈ میں میڈیا کے حوالے سے ایک کورس کے لیے گیا تھا۔ سوشل میڈیا پر جھوٹی خبروں کی روک تھام کے ایک ماہر چارلس کریل ہمیں پڑھانے کے لیے انگلینڈ سے آئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ انگلینڈ کے پارلیمنٹ میں سوشل میڈیا اور روایتی میڈیا مارکیٹوں میں جھوٹی خبروں کی روک تھام کے لیے ایک پارلیمانی کمیٹی بنائی گئی ہے۔ان کے مطابق اس کمیٹی کا مقصد قوم کو جھوٹی خبروں کے اثرات سے بچانا ہے او رجذباتی مواد اور جھوٹی خبروں کے تناظرمیں اپنے لوگوں کی ذہنی اور جذباتی کیفیت کو کنٹرول میں رکھنا ہے۔ چارلس کریل اس پارلیمانی کمیٹی کے ساتھ بطور ایک ماہر اور ریسرچر کام کرتے ہیں۔ انہوں نے تین دن تفصیل سے ہمیں اس پارلیمانی کمیٹی کے کام کے بارے میں پڑھایا، تو میرے خیال میں اگر وزیر اعظم ہاؤس اور گورنر ہاؤسز میں اس قسم کے ماہرین کے مراکز قائم کیے جائیں اور خارجہ، داخلہ اور اقتصاد جیسی اہم پارلیمانی کمیٹیوں کے لیے اگر ماہرین کی خدمات حاصل کی جائیں، تواس سے ملک کی تقدیر شاید بدل سکتی ہے۔

………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے ۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔