وہ ممالک جن کی ترقی اور خوشحالی کے گن پوری دنیا گاتی ہے، اگر ہم گہرائی سے ان ممالک کے ماضی اور حال تک کے سفر کا بغور مطالعہ کریں، تو اندازہ ہوجاتا ہے کہ معاشی تنگ دستی، مذہبی یا رنگ و نسل کے نام پر انتہا پسندی سے وہ لوگ کیسے باہر نکلے؟اور انہوں نے ایک پُرامن معاشرہ اور مضبوط معیشت کے طور پر دنیا کے نقشے پر اپنی چھاپ کیسے چھوڑی؟ اس بارے مطالعہ کرنے سے ہمیں بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ ان تمام ترقی پذیر ممالک نے سب سے پہلے اگر کسی چیز کو ترجیح دی، تو وہ ہے زیورِ تعلیم۔
تعلیم وہ قیمتی زیور ہے جس سے اس معاشرے میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں بدلاؤ لایا جاسکتا ہے ۔ پر افسوس کہ بدقسمتی سے ہمارا ملک تعلیم کی دوڑ میں بہت پیچھے ہے۔ پڑوسی ممالک میں بھی تقریباً یہی حال ہے، جس سے ہم سب کی ذہنیت اور طرزِزندگی کا باآ سانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ہمارے پڑوسی ملک جسے ہم ’’دشمن ملک‘‘ بھی کہہ کر نہیں تھکتے، کا بھی یہی حال ہے۔
دوسری جانب پڑوسی ملک بھارت کے بھی ہمارے بارے میں خیالات کچھ ٹھیک نہیں۔ گذشتہ دنوں پاکستان کے نو منتخب وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے اپنی حلف برداری کے موقعہ پر اپنے کچھ ذاتی دوستوں، جن میں ملکی اور غیر ملکی بھی شامل تھے، کو دعوت نامے جاری کیے گئے۔ ان میں ماضی کے بھارتی کرکٹرز بھی شامل تھے۔ باقی ماندہ میں کسی نے نجی مصروفیات کی وجہ سے معذرت کرلی اور کسی نے انتہا پسند ہندوؤں کے ڈر سے اپنا پلان بدل لیا۔ خیر، ہم سکھ پہلے تو وعدہ نہیں کرتے، پر اگر کرلیں، تو پھر نبھانا بھی خوب جانتے ہیں۔ اور اگر ایسے میں بات ہو دوست کی خوشی میں شریک ہونے کی، تو پھر اس میں رنگنے کے لیے کچھ بھی کر جاتے ہیں۔ بھارت کے باقی مہمانوں کی جانب سے معذ رت کے بعد سابق بھارتی کرکٹر اور پنجاب کابینہ کے رکنِ اسمبلی نوجوت سنگھ سدھو نے اس موقعہ پر کہا کہ ’’اپنے یار کی حلف برداری میں شرکت ضرور کروں گا۔ نتائج جو بھی آئیں گے، دیکھ لوں گا۔‘‘ سدھو نے اپنا وعدہ پورا کیا۔ حلف برداری کی تقریب میں نوجوت سنگھ سدھو کو وی وی آئی پی پروٹوکول دیا گیا۔ اس موقعہ پر پاکستانی فوج کے سپہ سالار نے سدھو کو گلے لگا کر امن کی راہ پر چلنے کا پیغام دیا، جو ہمیشہ کی طرح اتنہا پسند ہندوؤں کو ایک آنکھ نہ بھایا۔ پورے ہندوستان میں ’’سدھو غدار‘‘، ’’سدھو دیش دروہی‘‘ کے نعرے بلند ہونے لگے۔ ’’بجرنگ دل‘‘ نامی انتہا پسند تنظیم نے تو سدھو کے سر پر انعام بھی رکھ دیا۔ پاکستان کے خلاف دن رات زہر اگلنے والے بھارتی میڈیا نے بھی اس مہم میں بھرپور حصہ لیا۔ بھارت جو ایک طرح سے دنیا کے سامنے اپنا گھناؤنا چہرہ چھپانے میں دن رات مصروف ِ عمل ہے، پر اس کی حقیقت سب کے سامنے آہی گئی۔
قارئین کرام، پندرہ بیس دن پہلے کی بات ہے، جب این ڈی ٹی وی کے ایک صحافی ’’دیپندر ناتھ‘‘ نے مجھ سے رابطہ کیا۔ پہلے تو پاکستان کے پہلے سکھ نیوز اینکر بننے پر مجھے مبارک باد دی، حال چال پوچھا اور اس کے بعد اپنے گھسے پٹے سوالات کی بوچھاڑکردی۔ ان کاہر سوال میرے دل کو چیر کے گزرتا گیا۔ میں نے ان کے ہر سوال کا جواب بڑے تحمل سے دیا۔ خیر، میں حسبِ روایت امن اور شانتی کی باتیں کرتا رہا۔ میرا ماننا ہے کہ کوئی قوم تب تک ترقی نہیں کرسکتی، جب تک اس کے معاشرے میں امن و استحکام نہیں آجاتا۔ ہمارے سامنے کئی مثالیں موجود ہیں۔ ہماری پشتو میں ایک کہاوت ہے کہ ’’ داجنگ دی لری ورک شی اور دا جنگ دی بری ورک شی ‘‘ یعنی جنگ کی جیت ہو یا ہار، بھاڑ میں جائے۔ کیوں کہ دونوں میں صورت میں یہ قوموں کی بربادی کا ذریعہ ہی بنتی ہے۔

خیر ،بات ہورہی تھی دیپپندر ناتھ کی، تو میں نے بڑے تحمل سے اس کے ہر چبھتے سوال کا جواب دیا۔ پر جب محسوس ہوا کہ گھی سیدھی انگلی سے نہیں نکلنے والا، تب انگلی ٹیڑھی کرنا پڑی۔ بار بار اقلیت کے ساتھ ناروا سلوک اور دہشت گرد کا فقرہ دہرایا جاتا رہا۔ آخر میرا بھی صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ میرے اندربھی حب الوطنی کاجذبہ جاگ اٹھا۔ میں نے ان سے کہا کہ جناب ،مجھے یہ بتائیں کہ دنیا کے کون سے وزیر اعظم نے اپنے ہی عوام کو زندہ جلایا ہے؟ ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کا قاتل اور سنہ 84ء کے فساد میں’’آر ایس ایس‘‘ کا نمائندہ بن کر سکھوں کے خلاف ہندؤں کو بھڑکانے والا، جس کے ہاتھ معصوم انسانوں کے خون سے رنگے ہوں، ایسے وزیر اعظم یا ’’پردھان منتری‘‘ کو آپ کی جنتا یعنی آپ کے عوام نے چنا ہے، جسے سرچ انجن ’’گوگل‘‘ (Google) بھی دہشت گرد قرار دے چکا ہے۔ تو آپ اس سے اندازہ لگا لیں کہ آپ کی جنتا کا ذہنی معیار کیا ہے؟ کیا آپ کے عوام کو پتا نہیں تھا کہ آر ایس ایس یا کوئی اور اتنہا پسند ہندو دہشت گرد تنظیموں کی مالی معاونت کون سی پارٹی کرتی ہے؟ کیا مودی کے آنے سے وہاں کے سکھوں اور مسلمان کی زندگی اجیرن نہیں ہوئی؟ کیا کلبھوشن یادیو ہمارے ملک میں ناریل کا تیل بیچنے آیا تھا؟
قارئین کرام، این ڈی ٹی کے صحافی کے ساتھ ہوئی اپنی ساری گفتگو کالم کی تنگ دامنی کی وجہ سے یہاں رقم نہیں کی جاسکتی، اس لیے آمدم برسرِ مطلب، سدھو پاجی نے اس موقعہ پر ایک بات کیا خوب کہی کہ اگر ہم دونوں ممالک اپنے عوام کو امن اور بھائی چارے کا سبق پڑھائیں، دونوں ممالک دوستی کا ہاتھ بڑھائیں اور اپنے بارڈر کھولیں، تو یقین مانیں، دونوں ممالک کی غربت میں پسے عوام جلد ہی غربت کی اس جھنجٹ سے نکل کر خوشحالی کی زندگی گزاریں گے۔
پر لگتا یہی ہے کہ نوجوت سنگھ سمیت ان دونوں ملکوں میں رہنے والے وہ تمام لوگ جو امن، بھائی چارے اور دوستی کی آس لگائے بیٹھے ہیں، وہ کچھ عناصر کو ایک آنکھ نہیں بھا ر رہے۔ کوئی نہیں چاہتا کہ ان دونوں ملکوں کے حالات سدھر جائیں۔ دراصل یہ وہی لوگ ہیں جو عالمی قوتوں کے کہنے پر دن رات اسی مہم اور تخریب کاریوں میں سر گرم رہتے ہیں، جو کبھی مذہب اور دھرم کے نام پر اس نفرت کو ہوا دیتے ہیں، تو کبھی دوسرے حیلے بہانوں سے۔ پر ایسی انتہا پسند سوچ رکھنے والے عناصر بھول جاتے ہیں کہ اس دھرتی پر سدھو پاجی جیسے امن کے متوالے بھی رہتے ہیں۔ جنہیں یہ پکا یقین ہے کہ امن کے دشمن، تخریب کارانہ سوچ رکھنے والے ان عوامل کا دل بھی ایک دن امن اور شانتی کے پرچار سے موم بن جائے گا۔ اور وہ دن دور نہیں جب دونوں ممالک کے عوام نفرت کی ان سرحدوں کو پاٹ کر ایک دوسرے کے غم اور خوشیوں میں شریک ہوں گے۔
بس یہی دعا ہے کہ اللہ تعالی پوری دنیا کو امن کا گہوارہ بنائے۔ کیوں کہ زندگی اللہ کی طرف سے دیا گیا ایک انمول اور خوبصورت تحفہ ہے۔
……………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے ۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔