میرے سامنے بیٹھے نوجوان نے بائیں ہاتھ سے سگریٹ سُلگایا، منھ سے دھوئیں کا مرغولہ چھوڑا اور دائروں کی صورت میں ہوا میں اُچھال دیا۔ ماتھے پر پھیلی سلوٹیں یک جا کیں، آنکھوں کی پتلیاں سکیڑیں اور پھر میرے چہرے پر مرکوز کر دیں۔ سارے جہاں کا تفکر اپنے چہرے پر لادا اور گویا ہوا: ”آخر تم مولوی لوگ کب سدھروگے؟ تم کب تک عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگائے رکھوگے؟ دیکھو! ساری دنیا لبرل ہو رہی ہے، سوچ کے دائرے وسیع ہو رہے ہیں۔ دنیا اب فردِ واحد کے بارے میں نہیں سوچتی، اب تو ہر بات قوم کے مفاد میں کی جاتی ہے۔ جس سے سب کا بھلا ہو۔ یہ دور مکالمے کا ہے جذباتیت کا نہیں، اب تو جنگیں بھی میز پر بیٹھ کر لڑی جاتی ہیں۔ ایک تم ہو کہ جب بھی کوئی بات اسلام یا پیغمبر کے بارے میں کی جاتی ہے، تم جذباتی ہو جاتے ہو۔ مرنے مارنے پر تُل جاتے ہو۔ یہ خود ساختہ محبت چھوڑ دو، حقائق کی دنیا میں آؤ، براڈ مائنڈڈ بنو، یہ زمانہ آزادی اظہارِ رائے کا ہے۔ جو بولتا ہے اُسے بولنے دو، اگر تمہیں کچھ غلط محسوس ہوتا ہے، تو اسے دلیل سے سمجھاؤ۔” وہ بے تکا بولتا جا رہا تھا۔ بالآخر میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا، میں نے اسے ہاتھ کے اشارے سے چپ کرایا اور بولا:
”برادرم! میں نے تمہاری باتیں غور سے سن لی ہیں۔ اب میری بات کا جواب دو۔ اگر یہ دور آزادیِ اظہارِ رائے کا ہے، تو آپ کے ممدوح مغربی ممالک میں "ہولوکاسٹ” کے خلاف بولنے پر پابندی کیوں ہے؟ اگر یہ دور مکالمے کا ہے، تو مغرب نے اسامہ بن لادن، صدام حسین اور معمر قذافی سے مذاکرات کرنے کی بجائے گولی کی زبان میں کیوں بات کی؟ اگر یہ دور فردِ واحد کے بارے میں سوچنے کا نہیں، تو پیرس کے جریدے ”کلوزر” کو ایک لاکھ یورو جرمانہ کیوں دینا پڑا، جب اُس نے برطانوی شہزادے ولیم کی بیگم ”کیٹ” کی نیم برہنہ تصویر شائع کی؟ برازیل کے عام سے جج نے ”گوگل” کے صدر "فیبیوژوزے سِلوا کوئلیو” کی گرفتاری کا آرڈر کیوں دیا؟ حالاں کہ اُس کا قصور اتنا سا تھا کہ اس نے مقامی میئر کے امیدوار بارے بنائی گئی ویڈیو ہٹانے سے انکار کر دیا تھا؟ حقوقِ انسانی کی تنظیمیں اور اقوام متحدہ کے ادارے CERD اور HRC ہولوکاسٹ کے خلاف بولنے پر پابندی عائد کر سکتی ہیں، تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف بولنے پر کیوں نہیں لگا سکتیں؟ ان اداروں کی مجرمانہ خاموشی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے گذشتہ تین عشروں سے بیسیوں مرتبہ گستاخی کی ناپاک جسارت ہو چکی ہے۔ سب سے پہلے سن 2004ء میں ہالینڈ کے ایک بدبخت انسان "Theo Vangogh” نے گستاخیِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم پر مشتمل ایک فلم بنائی اور پھر کتے کی موت مارا گیا۔ پھر سن 2005ء میں ایک ڈینش اخبار نے یہ فتنہ اٹھایا۔ 2006ء میں ناروے اور ڈنمارک کے اخبارات نے اس میں حصّہ لیا اور پھر تو گویا لڑی ٹوٹ گئی۔ آئے روز گستاخی کا ارتکاب ہونے لگا۔ 2007ء میں انٹرنیٹ پر اسلام مخالف مواد "اَپ لوڈ” ہوا، 2010ء میں فیس بُک پر ”ڈرا محمد” کے نام سے خاکے بنانے کا مقابلہ ہوا۔ 29 اگست 2002ء میں بگرام (افغانستان) میں امریکی فوجیوں نے قرآن مجید کے پانچ سو نسخے آگ لگا کر شہید کر دیے۔ 11 ستمبر 2012ء کو 50 لاکھ ڈالر کی اسرائیلی امداد سے امریکہ میں ”مسلمانوں کی معصومیت” نامی فلم بنائی گئی، جس پر پوری دنیا میں احتجاج ہوا، اور اب پھر "نیدرلینڈ” میں یہی شیطانی کھیل کھیلا جا رہا ہے۔”
میں اپنے اردگرد سے بے خبر جذبات کی رو میں بہتا جا رہا تھا کہ کسی نے میرے مونڈھے کو زور سے دبایا۔ میں نے نظر اٹھائی، میرے آس پاس بھیڑ لگ گئی تھی۔ کچھ نوجوانوں کے چہروں پر سوالیہ نشان تھے کہ آخر میں کہنا کیا چاہتا ہوں؟ وہ اشاروں کنایوں میں پوچھنے بھی لگ گئے۔ میں نے سامنے بیٹھے نوجوان کی جانب اشارہ کیا، جو غصے سے کپکپا رہا تھا۔ اس کے ہونٹ پھڑپھڑانے لگے، اس نے غصے میں سگریٹ "ایش ٹرے” سے مسلی اور اپنے ترکش سے آخری تیر نکال کر پھینکا۔ کہنے لگا: ”اس کا مطلب یہ ہوا کہ تمہارے پاس دلیل ختم ہو چکی ہے، جو تم مرنے مارنے کی دھمکیاں دیتے ہو؟”
مجھے اس کی کم عقلی پر حیرت ہونے لگی۔ میں نے ملائمت سے کہا: ”دیکھ میرے بھائی! پہل ہماری جانب سے نہیں ہوئی، بلکہ انہی کی جانب سے ہوئی ہے۔ انہوں نے جان بوجھ کر ہمارے جذبات سے کھیلنے کی کوشش کی ہے۔ دراصل دلائل کی کمی اُن کے پاس ہے جو بیچارے اسلام جیسے سچے اور سُچے دین کی دلائل کے سامنے جب ڈھیر ہو جاتے ہیں، تو گالی گلوچ پر اُتر آتے ہیں۔ دلائل سے اسلام کو جھوٹا ثابت کرنے کی بجائے اپنے حسد اور خبث باطن کا اظہار جھوٹے خاکے بنا بنا کر کرتے ہیں۔ جب ان سے کچھ بن نہیں پڑتا، تو اسلام کی ہجوگوئی شروع کر دیتے ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی ذاتِ اقدس پر کیچڑ اچھالنا شروع کر دیتے ہیں۔ سارے عالَم میں خاکے بنانے کے لیے انھیں رسولؐ اللہ کی ذات ہی کیوں ملتی ہے؟ کیا کبھی انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام، کنفیوشس، گوتم بدھ اور زرتشت کے خاکے بنانے کے لیے بھی مقابلہ کیا؟ نہیں…… اور ہرگز نہیں…… معلوم ہوا، یہ ان کی صاف صاف فکری شکست ہے، جسے وہ تسلیم کریں یا نہ کریں نفسیاتی میدان میں وہ ہم سے یہ جنگ ہار چکے ہیں۔ ورنہ ہم اگر چاہیں تو ان سب کو کعب بن اشرف اور ابن خطل کی طرح چٹکیوں میں مسل دیں۔ کیوں کہ ہمارے رب نے کسی کے بارے میں اتنے سخت الفاظ نہیں فرمائے، جتنے گستاخِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں فرمائے ہیں: ”جو بدمزاج، درشت خو ہے، مزید برآں بداصل بھی ہے۔” (القلم) لیکن یہ ہماری شرافت ہے کہ محض احتجاج پر گزارا کر لیتے ہیں۔
باقی رہے تمہارے جیسے لوگ، جو نام کے مسلمان اور کرتوت کے اعتبار سے منافق ہیں، تو اللہ فرماتا ہے: ”آپ دیکھیں گے کہ جن کے دلوں میں (نفاق کی) بیماری ہے، وہ دوڑ دوڑ کر ان (کفار) میں گھس رہے ہیں اور کہتے ہیں ہمیں خطرہ ہے، ایسا نہ ہو کہ کوئی حادثہ ہم پر پڑ جائے۔” (المائدہ) اس نوجوان نے شکست خوردہ انداز میں اپنا بیگ اٹھایا اور بس کی جانب چل دیا۔
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے ۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔