دھاندلی کا رونا آخر کب تک؟

جمہوری نظام میں سیاسی جماعتوں کا معیار عام انتخابات میں پڑنے والا ووٹ ہوتا ہے۔ 2018ء کے عام انتخابات میں عمران مقبول سیاسی لیڈر اور تحریک انصاف سب سے بڑی پارٹی اُبھرکر سامنے آئی۔ اگرچہ 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات کے بارے میں دھاندلی کے سنگین الزامات سامنے آئے ہیں، مگر یہ پہلی بار ہوا ہے کہ اکثر سیاسی جماعتوں نے الیکشن کی شفافیت اور ان کے آزادانہ اور غیرجانب دارانہ ہونے کا اظہار کیا ہے۔اور تو اور تحریک انصاف کے ہارنے والے امیدوار بھی انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگا رہے ہیں۔
قارئین، پاکستانی انتخابات میں دھاندلی کا رونا پہلی بار نہیں رویا جارہا۔ انتخابات میں ہر ہارنے والی سیاسی جماعت انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دیتی ہے۔ جب 1977ء میں عام انتخابات ہوئے، تو دوسری بار منتخب پاکستان پیپلز پارٹی پر دھاندلی کے الزامات لگائے گئے۔دائیں بازو کی نوجماعتوں کے اتحاد ’’ پاکستان قومی اتحاد ‘‘ نے انتخابات کے نتائج کو یکسر مسترد کرہوئے احتجاج شروع کیا۔ جس کے نتیجہ میں فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کو اقتدار پر شب خون مارنے کا موقع ملا۔ جنرل ضیاء الحق نے اقتدار پر قبضہ کرتے ہوئے 90 دن میں انتخابات کرانے کا وعدہ کیا اور ان کے 90 دن کا وعدے 11 سال میں وفا نہ ہوسکا۔ اللہ نے ’’سی ون تھرٹی‘‘ (C 130) جہاز کے ایک حادثہ میں جنرل ضیا ء الحق کو موت دی اور یوں پاکستان کی جان مارشل لا سے چھوٹ گئی۔
1988ء کے عام انتخابات میں بے نظیر بھٹو کو اقتدار ملا لیکن 1990ء کو صدر غلام اسحاق نے اس کی حکومت برطرف کی۔ پیپلز پارٹی کا راستہ روکنے کے لیے خفیہ ایجنسیوں نے کئی سیاسی جماعتوں پر مشتمل آئی جے آئی تشکیل دی۔ یوں 1990ء کے انتخابات میں میاں محمد نواز شریف وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ 1993ء کو میاں محمد نواز شریف کی حکومت ختم کی گئی اور نئے انتخابات میں دوبارہ پاکستان پیپلز پارٹی کامیاب ہوئی۔ بے نظیر بھٹو حکومت کے خاتمہ پر 1997ء کے انتخابات میں دو بار پاکستان مسلم لیگ نون نے کامیابی حاصل کی، جب کہ 1999ء کو جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف حکومت پر شب خون مارا اور انھیں جلا وطن کیا۔ اس کے بعد 2002، 2008 اور 2013ء میں عام انتخابات ہوئے، تو ان میں ہارنے والی ہر سیاسی جماعت نے دھاندلی کا الزام لگایا۔ ہارنے والے دھاندلی کا شور تو مچاتے رہے، لیکن ان کا شور صرف واویلا تک محدود رہا اور دھاندلی کا راستہ روکنے کے لیے عملی اقدامات یعنی قانون سازی نہیں کی۔ کیوں کہ انھیں یقین تھا کہ دھاندلی کا راستہ روکنا اپنی کامیابی کا راستہ روکنے کے برابر ہے۔

1988ء کے عام انتخابات میں بے نظیر بھٹو کو اقتدار ملا لیکن 1990ء کو صدر غلام اسحاق نے اس کی حکومت برطرف کی۔ 

البتہ پاکستان تحریک انصاف نے 2013ء کے انتخابات میں ہونے والی دھاندلی کے خلاف 14 اپریل 2014ء کو ڈی چوک اسلام آباد میں 126 دن کا تاریخی دھرنا دیا۔ پھر بھی حکمران مسلم لیگ نون کی حکومت نے دھاندلی کا راستہ روکنے کے لیے کوئی قانون سازی نہیں کی۔ آج پاکستان تحریک انصاف کے علاوہ(جس نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی) تمام سیاسی جماعتیں پاکستان مسلم لیگ نون، پاکستان پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، پختونخوا ملی پارٹی، جے یو آئی، جماعت اسلامی، قومی وطن پارٹی، ایم کیو ایم اور دیگر جماعتیں دھاندلی کے الزامات لگا رہی ہیں کہ 2018ء کے قومی انتخابات میں انھیں دھاندلی سے ہرایا گیا ہے۔ اس کے خلاف احتجاج کا پروگرام ترتیب دینے کے لیے ایم ایم اے کے صدر مولانا فضل الرحمان نے آل پارٹیز کانفرنس طلب کی۔ کانفرنس کے اختتام پر مولانا فضل الرحمان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ہم انتخابی نتائج کو یکسر مسترد کرتے ہیں۔ ہمارے نو منتخب ارکین اسمبلی حلف نہیں اُٹھائیں گے اور تحریک انصاف کے ارکین اسمبلی کوحلف لینے کے لیے اسمبلی میں جانے نہیں دیں گے، لیکن پاکستان مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی نے اسمبلی جا کر حلف لینے اور پارلیمنٹ کے اندر جدوجہد کرنے کا اعلان کیا، تو مولانا فضل الرحمان کی خواہشات اور کیے کرائے پر پانی پھر گیا۔ اگر سیاسی جماعتیں دھاندلی روکنے کے لیے قانون سازی کر چکی ہوتیں، تو آج وہ دھاندلی کا رونا نہ روتیں۔

ایک یہ کہ دھاندلی کاشور تو سب مچاتے ہیں لیکن جب ٹی وی چینلز کے پروگرام میں کوئی اینکر پرسن ان سے ثبوت پیش کرنے کا کہتا ہے، تو ان کاجواب یہ ہوتا ہے کہ یہ بچے بچے اور ساری دنیا کو معلوم ہے کہ الیکشن میں بد ترین دھاندلی ہوئی ہے۔ دھاندلی کا علم تو اللہ اور دھاندلی کرانے والوں کو ہوگا کہ دھاندلی کہاں کہاں اور کیسے کی گئی ہے؟ البتہ دھاندلی سے جیتنے کے خواہشمندبعض پاکستانی سیاستدان انتخابات کے دن پُرتشدد واقعات اورہڑبونگ کوجمہوریت کا حسن سمجھتے ہیں۔ آزادنہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کے لیے ہر قسم کی آزادی کو اپنا جمہوری حق تصور کرتے ہیں جب کہ اس بار پولنگ والے دن پولنگ سٹیشنوں پر سیکورٹی اہلکاروں کی تعیناتی کی وجہ سے دھاندلی کا رونا رونے والے خود دھاندلی نہ کرسکے۔ انتخابات سے کئی برس قبل فوت ہونے والوں کا ووٹ بھی پول نہ ہوسکا اور جعلی شناختی کارڈوں پر بھی ووٹ پول نہ کر سکے۔ تب ہی تو نالوں سے کئی بوری شناختی کارڈز اور جعلی بیلٹ پیپرز برآمد ہوئے۔
جس سیاسی جماعت کو یہ محسوس ہوجائے کہ انھیں انتخابات میں کامیابی نصیب نہیں ہوگی، تو وہ قبل از وقت دھاندلی کا شور برپا کر دیتے ہیں، جس کا واضح مطلب یہ ہوتا ہے کہ اگر نتیجہ ان کے خلاف آیا، تو تسلیم نہیں کیا جائے گا اور یہ کہ اگر انھیں دو تہائی اکثریت نہیں دلا سکتے، تو کم ازکم ہمیں کسی صورت پارلیمنٹ پہنچایا جائے۔
عمران خان الیکشن کمیشن کو آزاد کرنے اور دھاندلی کو روکنے کی باتیں کرتے تو ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنے دورِ اقتدار میں الیکشن کمیشن کو آزادی دلانے اور دھاندلی کو روکنے کے لیے قانون سازی کرتے ہیں یا نہیں۔ اگر تحریک انصاف نے قانون سازی نہیں کی، تو یہ پاکستان کی بڑی بد قسمتی ہوگی۔ کیوں کہ عوام نے عمران خان سے بہت سے توقعات وابستہ کر رکھی ہیں۔

……………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے ۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔