کہیں کشمیر، فلسطین نہ بن جائے

کشمیر ایک بار پھر ہڑتالوں اور احتجاج سے بھڑک رہا ہے۔ کشمیریوں کو خدشہ ہے کہ ایک منصوبے کے تحت بھارتی آئین کی دفعہ 35-A کے خاتمے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ دفعہ جموں و کشمیر کے شہریوں کی عددی بالا دستی اور تشخص کو یقینی بناتی ہے۔ آئین کی یہ شق غیر ریاستی شہریوں کو جموں و کشمیر میں منقولہ جائیداد خریدنے، سرکاری ملازمت حاصل کرنے اور غیر مشروط سرمایہ کاری کا حق نہیں دیتی۔ حتیٰ کہ کوئی ریاستی باشندہ سرکاری اسکالر شپ یا امداد کا بھی حق دار نہیں ہوتا۔ ریاستِ جموں و کشمیر کی خواتین جو غیر ریاستی مردوں سے شادی کرتی ہیں، ان کی اولاد بھی اسٹیٹ سبجیکٹ کے حق سے محروم ہو جاتی ہے۔ آسان الفاظ میں وہ جموں و کشمیر کے شہری نہیں رہتے۔
یہ کوئی نیا قانون نہیں بلکہ مہا راجا ہری سنگھ کے دورِ حکومت سے چلا آ رہا ہے۔ اس زمانے میں مہا راجا کی مہربانیوں اور کرم نوازیوں کی وجہ سے پنجاب سے آنے والے تعلیم یافتہ اور ہنر مند افراد اچھی ملازمت حاصل کر لیتے تھے۔ حتیٰ کہ پنڈتوں تک کو جو اعلیٰ ذات کے ہندو کہلاتے تھے، بھی معمولی سرکاری نوکری سے زیادہ کا اہل نہیں سمجھا جاتا تھا۔ ایک زبردست تحریک چلی جس نے حکومت کو مجبور کیا کہ وہ اسٹیٹ سبجیکٹ کے نام سے ایک قانون متعارف کرائے۔ سنہ 1927ء میں طے پایا کہ مقامی شہریوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے بیرونی علاقوں سے آنے والے افراد کی حوصلہ شکنی کی جائے گی۔ کشمیر پر قبضے کے بعد اس قانون کو بھارت کے آئین کا حصہ بنا دیا گیا اور اسے دفعہ 35-A کہا جانے لگا۔
بھارت نے دفعہ 370 کے ذریعے دفاع، خارجہ امور اور مواصلات کے علاوہ باقی تمام معاملات میں ریاستِ جموں و کشمیر کے اختیارات کو تسلیم کیا۔ یہ بھی طے پایا کہ ان تین معاملات کے علاوہ باقی کوئی بھی قانون جموں و کشمیر اسمبلی کی منظوری کے بنا ریاست میں نافذ العمل نہیں کیا جائے گا۔ جموں و کشمیر نے اپنا الگ آئین بنایا۔ سرکاری عمارتوں پر ریاستی جھنڈا بھی لہرایا گیا۔ صدر اور وزیر اعظم کے عہدے بھی تخلیق کیے گئے۔ ابتدائی چھے سات برس تک ریاست داخلی امور میں بڑی حد تک آزاد رہی۔ پرانے لوگ آج بھی وہ دن یاد کرتے ہیں جب بھارتی ٹرک ڈرائیور اجازت نامہ (پرمٹ) دکھا کر مقبوضہ جموں وکشمیر کی حدود میں داخل ہوتے تھے۔
رفتہ رفتہ داخلی خود مختاری کا قصہ تمام ہوتا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آزادکشمیر میں بھی اسٹیٹ سبجیکٹ کا قانون من وعن نافذ کیا گیا۔ چناں چہ کوئی غیر ریاستی باشندہ یہاں بھی زمین خرید سکتا ہے، نہ سرکاری نوکری کا اہل ہے۔ گلگت بلتستان میں بھی یہ قانون ستر کی دہائی تک موجود رہا۔ راشٹریہ سیوک سنگھ اس انتظام سے مطمئن نہ تھی۔ وہ پچاس کی دہائی ہی سے شیخ عبد اللہ کی جادوئی شخصیت اور سیاست کی ناقد تھی۔ ان کا مقبول سلوگن تھاـ:’’ایک دیش دو ودھان، دو پردھان، دو نشان نہیں چلیں گے، نہیں چلیں گے۔‘‘
جموں میں ’’آر ایس ایس‘‘ کا مرکز مہا راجا ہری سنگھ کے زمانے میں قائم ہوا اور اسے ہر زمانے میں نادیدہ حلقوں کی سرپرستی دستیاب رہی۔ ’’آر ایس ایس‘‘ کے سیاسی ونگ بھارتیا جنتا پارٹی نے اپنے قیام کے آغاز ہی سے جموں و کشمیر پر اپنی توجہ مرکوز رکھی۔ ریاست کی خصوصی آئینی حیثیت کا خاتمہ کر کے اس کا قومی دھارے میں ادغام اس کا خواب ہے۔ جناب اٹل بہاری واجپائی برسراقتدار آئے، تو پاکستان اور کشمیریوں کے ساتھ نئے رشتے استوار کرنے کے لیے انھوں نے پرویز مشرف کے ساتھ دوستی اور خیر سگالی کا ڈول ڈالا۔

جموں میں ’’آر ایس ایس‘‘ کا مرکز مہا راجا ہری سنگھ کے زمانے میں قائم ہوا۔

نریندر مودی ایک بہت مختلف شخصیت ہیں۔ واجپائی کی طرح اعتدال پسند ہیں، نہ امن کے پرچارک۔ وہ آر ایس ایس کے صدر مقام ناگ پور کے قابل اعتماد حلیف ہیں۔ بنیادی طور پر ایک ایسے کار سیوک ہیں جو اپنا نصب العین آنکھوں سے اوجھل نہیں ہونے دیتا۔ بی جے پی کی موجودہ حکومت بہت پہلے دفعہ 35-A کے خاتمے کا اعلان کر چکی ہوتی۔ دقت یہ ہے کہ بھارتی آئین کی کسی بھی شق کا اطلاق جموں و کشمیر کی اسمبلی کی منظوری کے بغیر نہیں کیا جا سکتا۔ 35-A کے خاتمے کے لیے بی جے پی کو جموں و کشمیر اسمبلی میں اکثریت چاہیے۔
گذشتہ ریاستی ا لیکشن میں اکثریت حاصل کرنے کی خاطر بی جے پی نے ہر حربہ استعمال کیا لیکن یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا۔ چناں چہ متبادل کے طور پر ایک این جی او کے ذریعے بھارتی سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارت کی مرکزی حکومت نے اس قانون کے تحفظ کے سرکاری طور پر جواب دعویٰ داخل کرنے کی بجائے اسے عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جو اس بات کا عندیہ ہے کہ مرکزی حکومت اس قانون کے دفاع میں دلچسپی نہیں رکھتی۔
مبصرین شک کا اظہار کرتے ہیں کہ سرپم کورٹ میں مقدمہ بھی مرکزی حکومت کی ایما پر دائر کیا گیا، تا کہ مرضی کا فیصلہ حاصل کیا جاسکے۔ سپریم کورٹ اس ماہ کے آخر پر ایک بار پھر اس کیس کی سماعت کرنے کو ہے۔ شہریوں کو خطرہ ہے کہ اگر سپریم کورٹ نے اس دفعہ کو ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا، تو پھر جموں و کشمیر کی الگ شناخت اور آبادی کا تناسب بگڑ جائے گا۔ فلسطین کی طرح جموں و کشمیر میں بھی بھارتی شہری اور خاص کر سرمایہ دار طبقہ زمینیں خرید لے گا۔ عام لوگ روپے کی لالچ اور خاص کر بھاری رقم کے عوض اپنے کھیت کھلیانوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے ۔ رفتہ رفتہ کشمیری ہی نہیں بلکہ بدھ مذہب کے پیرو کار بھی اپنی ہی سرزمین پر اجنبی ہوں گے ۔
جموں کے ڈوگرہ بھی اس خدشے کو محسوس کرتے ہیں۔ انھوں نے سپریم کورٹ میں جاری مقدمہ کے خلاف احتجاج رکارڈ کرایا ہے۔ مزاحمتی جماعتیں بھی احتجاجی تحریک میں حصہ لے رہی ہیں۔ کیوں کہ انھیں احساس ہے کہ اگر ایک مرتبہ ریاست جموں و کشمیر کا تشخص تحلیل ہوگیا، تو پھر آزادی کی جدوجہد مزید کٹھن ہو جائے گی۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ بھارتی میڈیا میں بھی ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جنھوں نے اپنی حکومت کی خاموشی کو آڑے ہاتھوں لیا۔ علاوہ ازیں دنیا میں اب کشمیریوں کی آواز کی گونج سنائی دینا شروع ہوگئی ہے۔ چند دن قبل نیویارک ٹائمز نے اپنے صفحۂ اوّل پر ایک تفصیلی مضمون کشمیر پر شائع کیا۔ نیویارک ٹائمز کو امریکیوں کی بائبل کہا جاتا ہے۔ اس میں جو کچھ چھپتا ہے، رائے عامہ بغیر تحقیق کے من و عن قبول کرلیتی ہے۔ نیشنل جیوگرافی نے بھی ایک طویل مضمون میں پیلٹ گن کے ناروا استعمال کے باعث بینائی کھونے والے نوجوانوں کی دل دھلا دینے والی کہانی بیان کی۔ الجزیرہ نے بھی کئی ایک پہلوؤں پر دستاویزی فلمیں دکھائیں۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کونسل سیکرٹریٹ نے 4 9 صفحات پر مشتمل رپورٹ شائع کی جس میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے تمام پہلوکو اجاگر کیا گیا۔ عالمی سطح پر بتدریج کشمیریوں کے لیے ہمدردی کی لہر پیدا ہونا شروع ہو گئی ہے۔ جمود ٹوٹ رہا ہے۔ عالمی ذرائع ابلاغ اور ادارے کشمیر پر بات کر رہے ہیں۔ کشمیریوں کی کہانی ان کی زبانی بھی سنائی دی جا رہی ہے۔ بہت سارے صحافی اور لکھاری بھی عالمی اخبارات میں لکھ رہے ہیں کہ کس طرح ان کی آواز کو دبایا جا رہا ہے۔ منی شنکر آئر نے چند دن قبل اپنے ایک مضمون میں لکھاکہ مذاکرات نہ کرنے سے اگر مسائل حل ہوسکتے، تو بی جے پی کے گذشتہ ساڑھے چار سالہ دور حکومت میں حل ہو چکے ہوتے ۔ امید ہے کہ یہ دباؤ دہلی کو کشمیریوں کے مطالبات پر توجہ دینے پر مجبور کرے گا۔

……………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے ۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔