پی کے 9 سوات سے کامیاب ہونے والے پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار اور سابقہ صوبائی وزیر برائے کھیل و آبپاشی ’’محمود خان‘‘ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سوات سے تعلق رکھنے والے خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ بن گئے۔ محمود خان کی وزیر اعلیٰ کے لیے نامزد ہونے کی خبر کو سوات کے عوام نے مثبت انداز سے لیا۔ اہلِ سوات نے جہاں ایک طرف تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان کے اس فیصلے کو سراہتے ہوئے اس کا بھرپور انداز میں خیر مقدم کیا۔ وہاں دوسری طرف ایک حلقہ ایسا بھی سامنے آیا جس کا مؤقف ہے کہ مذکورہ فیصلے میں سوات کے مینڈیٹ، عمران خان کی سوات سے محبت، سواتی عوام کے مطالبے، غرض کسی بھی خیر سگالی جذبے کا آٹے میں نمک جتنا کردار بھی نہیں، بلکہ یہ خالصتاً ایک سیاسی فیصلہ ہے جو ممکنہ طور پر پارٹی کے اندرونی معاملات اور لابنگ کی صورت میں کیا گیا۔
’’بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی‘‘
کے مصداق وزارت اعلیٰ کے لیے سوات کے نمائندے کی نامزدگی کے فیصلے کی پسِ پردہ وجوہات کے پیچھے بھاگنے کی بجائے اس فیصلہ کو سراہنا اور اس کا خیر مقدم کرنا ہی ہمارے مفاد میں ہے۔ تاہم چند ایسے ضروری امور ہیں جن پر بات کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ نامزوزیر اعلیٰ کو یہ بخوبی علم ہوگا کہ ملکی جمہوری تاریخ میں کسی بھی وزیر اعلیٰ کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے، تو یہ اندازہ ہوگا کہ ہر وزیر اعلیٰ نے اپنے دورِ حکومت میں اپنے آبائی علاقے کو خصوصی توجہ دی ہے۔ ایم ایم اے دور میں اکرم درانی نے بنوں جیسے محروم علاقے میں کافی سے زیادہ کام کیے۔ امیر حیدر خان ہوتی نے مردان میں انفراسٹرکچر سمیت کئی دیگر شعبوں میں اس کو تیز رفتار ترقی دلائی۔ جس میں عبد الولی خان سپورٹس کمپلیکس، مردان جیل اور دیگر نمایاں کام شامل ہیں۔ حالیہ سبک دوش ہونے والے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے آبائی علاقہ نوشہرہ پر خصوصی توجہ مرکوز کیے رکھی۔ اب سوات کے عوام اپنے وزیر اعلیٰ سے بھی یہی امیدیں باندھے ہوئے ہیں کہ ان کے علاقے سے تعلق رکھنے والے ’’وزیرموصوف‘‘ محروم اور یتیم سوات کو خصوصی توجہ دیں گے اور سابقہ وزرائے اعلیٰ کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے سوات کو ترقی کی راہ پر گامزن کریں گے۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ ساتھ یہاں کے لوگ محمود خان کے حوالے سے ان کا تلخ ماضی بھی نہیں بھولتے۔ محمود خان نے بحیثیت صوبائی وزیر برائے کھیل، سوات کے لیے نہ ہونے کے برابر کام کیا۔ سوات سیدو شریف کے اہم گراؤنڈ ’’گراسی‘‘ کی حالتِ زار آخر تک قابل افسوس رہی۔ وہ تو بھلا ہو سوات بیوٹیفیکیشن پراجیکٹ کا، کہ جس کی وجہ سے گراسی گراؤنڈ صحیح معنوں میں گراؤنڈ دِکھنے لگا۔ ایک وقت میں مٹہ میں اعلیٰ طرز پر سپورٹس کمپلیکس بنانے کی باتیں ہونے لگی تھیں، لیکن منسٹر صاحب اس کے لیے زمین ڈھونڈنے میں اس قدر سست نظر آئے کہ مذکورہ کمپلیکس کے لیے مختص فنڈ ہی واپس ہوگیا۔ اس کے علاوہ تحریک انصاف کی حکومت میں کھیلوں کا سامان سوات آیا، تو مستحقین کی بجائے یہ پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں اور رہنماؤں کی خدمت میں پیش کیا گیا۔
منسٹر صاحب کی کارکردگی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ سوات کے مرکزی بیڈ منٹن ہال میں ایک حادثہ کے نتیجے میں دستیاب دو واش رومز مکمل طور پر ناقابلِ استعمال ہوگئے۔ حیرت انگیز طور پر صوبائی وزیر برائے کھیل کے پورے دور حکومت میں اپنے ہی صوبے کے ایک ہال کے دو واش رومز تک نہ بن سکے۔ اور شایہ یہ بھی پہلی بار ہوا کہ صوبے کے وزیر برائے کھیل کے اپنے ہی ضلع میں سپورٹس آفیسر موجود نہیں تھا۔ مذکورہ سیٹ پر پہلے کسی سرکاری استاد کو بٹھادیا گیا اور اس کے بعد فٹ بال کے کسی سربراہ کو یہ قلم دان سونپا گیا، جس کی وجہ سے صرف خانہ پُری تو ہوئی، البتہ کام کوئی نہ ہوا۔
قارئین، محمود خان کھیل کے ساتھ ساتھ محکمہ آبپاشی کے بھی صوبائی وزیر تھے۔ اس ضمن میں اَپر سوات میں تواچھے خاصے کام کیے گئے، لیکن لوئر سوات کو یکسر نظر انداز کیا گیا۔ سوات میں ندی (خوڑ) نے گذشتہ سیلاب میں کافی تباہی مچائی تھی۔ محمود خان نے اَپر سوات میں ندی کنارے حفاظتی پشتے تعمیر کروائے لیکن لوئر سوات کی کسی بھی ندی(خوڑ) پرکوئی حفاظتی پشتہ تعمیر نہیں کیا گیا۔ میرے خیال سے اس ضلع کا اتنا تو حق بنتا تھا کہ اپنا وزیر ہونے کی وجہ سے یہاں اس ضمن میں خاطر خواہ کام کیے جاتے۔
ان تمام مایوسانہ اور تلخ تجربات کے باجود اہلِ سوات ایک بار پھر پُرامید ہیں کہ اب سوات کی محرومیوں کا اِزالہ ہمارا ’’خپل وزیر اعلیٰ‘‘ کرے گا۔’’خپل‘‘ یعنی ’’اپنا‘‘ جو اپنے پورے ضلعے کے لوگوں کا دکھ درد رکھے گا۔

پچھلی بار محمود خان کھیل کے ساتھ ساتھ محکمہ آبپاشی کے بھی صوبائی وزیر تھے۔

اب سوات میں موجود مسائل کے حوالے سے نومنتخب وزیر اعلیٰ محمود خان سے چند گزارشات ہیں، جن کے حوالے سے اہلِ سوات اپنے علاقہ کے وزیر اعلیٰ سے بڑے مان کے ساتھ امید رکھتے ہیں کہ یہ مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کیے جائیں گے۔ یہاں کا سب سے بڑا اور حل طلب مسئلہ صحت سے متعلق ہے۔ سوات کے مرکزی سیدو شریف اور سنٹرل ہسپتالوں پر صرف سوات نہیں بلکہ آس پاس کے ضلعوں کا بوجھ بھی ہے۔ یہاں بونیر، شانگلہ، لوئر دیر اور اَپر دیر جیسے ضلعوں سے مریض آتے ہیں۔ اس کے علاوہ سوات کی اپنی آبادی بھی بہت زیادہ ہے۔ سیدو شریف ٹیچنگ اسپتال کی عمارت تیار ہے، لیکن یہ ہسپتال تاحال آپریشنل نہ ہوسکا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ سنٹرل ہسپتال میں مریضوں کے ہجوم کی وجہ سے یہاں آئے روز مریضوں اور لواحقین کا احتجاج دیکھنے کو ملتا ہے۔ یہاں مناسب سہولیات کی کمی ہے، صفائی اور دیگر انتظامی امور میں بھی کوتاہی اور لاپروائی دیکھنے کو ملتی ہے۔اس لیے سب سے پہلے یہی گزارش ہے کہ سوات میں صحت کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کیے جائیں۔ صحت کے لیے سوات کو خطیر فنڈز جاری کیے جائیں، تاکہ چار چار اضلاع کا بوجھ اٹھانے والے اس ضلع میں توانائی آئے، جس سے عوام کو بھی آسانی ہوگی۔ سیدو گروپ آف ہاسپٹلز کی نئی عمارت کو جلد سے جلد آپریشنل کیا جائے، تاکہ سنٹرل ہسپتال کا بوجھ کم ہو۔ سنٹرل ہسپتال میں ہنگامی بنیادوں پر ترقیاتی کام کیے جائیں۔ بالائی علاقوں میں بنیادی صحت کے مراکز کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔ بالائی علاقوں میں پہلے سے موجود ہسپتالوں اور صحت کے مراکز میں سہولیات اور سٹاف کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔
دوسرا اہم مسئلہ تعلیم کا ہے۔ کالجز کی کمی کی وجہ سے ہر سال سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں طلبہ رہ جاتے ہیں۔ اس لیے یہاں زیادہ سے زیادہ تعلیمی ادارے بنانا لازمی ہے۔ لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے یکساں طور پر کالجز بنائے جائیں، تاکہ طلبہ کی مشکلات میں آسانی ہو اور انہیں معیاری تعلیم میسر ہوسکے۔کم از کم مزید دو لڑکیوں اور دو لڑکوں کے ڈگری کالجز کا قیام یقینی بنایا جائے۔ سوات کی طرح اس کی یونیورسٹی بھی یتیم ہے۔ یہاں کے طلبہ کی قابلیت اور اہلیت کو دیکھتے ہوئے یونیورسٹی کو ہنگامی بنیادوں پر معیاری اور اعلیٰ طرز کی بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں، تاکہ طلبہ کا ٹیلنٹ ضائع نہ ہو۔ کیوں کہ سوات یونیورسٹی شاید پورے ملک کی پسماندہ ترین یونیورسٹیوں میں سے ایک ہے، جس کی ابھی تک اپنی کوئی عمارت نہیں۔ سیدو میڈیکل کالج میں ڈینٹل سیکشن کا قیام عمل میں لایا جائے۔ اس کالج میں اتنی اہلیت ہے کہ یہاں باقاعدہ دینٹل سیکشن کا آغاز ہوسکے۔ صحت اور تعلیم کے چوں کہ بنیادی اور اہم مسائل ہیں، اس لیے اس حوالہ سے خصوصی نظرِ کرم کی جائے۔
تیسری گزارش سیاحت کے حوالے سے ہے۔ سوات سیاحت کے لیے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں مشہور ہے، لیکن دوسری طرف یہ وادی انفرا سٹرکچر اور سیاحوں کے لیے سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے بھی جانی جاتی ہے۔ اس لیے اندرونِ سوات سڑکیں فوری طور پر تعمیر کی جائیں۔ چکدرہ تا کالام روڈ اس میں اہم کردار ادا کرے گی۔ سیاحتی سپاٹس تک جانے والی سڑکیں ترجیح ہونی چاہئیں۔ یہاں موجود بدھ مت دور کے آثار کا تحفظ ہونا چاہیے۔ یہ آثار ابھی تک بہت سارے لوگوں اور سیاحوں کی نظروں سے اوجھل ہیں۔ اگر یہ کہیں کسی ترقی یافتہ ملک میں ہوتے، تو وہ انہیں ٹوورسٹ سپاٹس کا درجہ دے کر سیاحوں کو اس جانب راغب کرتے اور اپنی سیاحت کو فروغ دیتے، لیکن یہاں سوات میں یہ بے یارو مددگار پڑے ہوئے ہیں جنہیں کوئی دیکھنا بھی پسند نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے معدوم ہونے کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ سوات موٹر وے کا جلدی بننا بھی یہاں کی سیاحت کو فروغ دے سکتا ہے۔ دیگر سیاحتی مقامات جیسے ملم جبہ، کالام، بحرین، مدین، میاندم وغیرہ کو خصوصی توجہ دی جائے اور وہاں ترقیاتی کام کیے جائیں۔ اگر سیاحتی علاقوں میں خاطر خواہ کام کیے گئے، تو سیمسن گروپ کی طرح دیگر بین الاقوامی سرمایہ کار کمپنیاں بھی سوات کا رُخ کریں گی۔ کھیل کے حوالے سے جتنے زیادہ میدان بنیں گے، اتنا ہی یہ یہاں کے کھلاڑیوں آگے جائیں گے۔ ایک اعلیٰ طرز کا سپورٹس کمپلیکس تو ویسے بھی آپ کے ذمہ سوات کا ’’اُدھار‘‘ ہے۔
آخری اور اہم گزارش یہ ہے کہ کہیں آپ سوات کو دو حصوں میں تقسیم نہ فرما دیں۔ یہ سوات کے لیے ناقابلِ تلافی نقصان ہوگا۔ مردان کی آبادی سوات سے زیادہ ہے، لیکن امیر حیدر خان ہوتی نے وزیر اعلیٰ بن کر مردان کو تقسیم نہیں کیا بلکہ اپنے ضلع میں سہولیات کو بڑھاوا دیا۔ لہٰذا آپ کو بھی ایسا ہی کرنا چاہیے اور کسی کی باتوں میں آنا نہیں چاہیے۔ اس سے بہتر ہوگا کہ آپ اپنی تمام تر توانائیاں سوات کو دو دھڑوں میں تقسیم کرنے کی بجائے یہاں زیادہ سے زیادہ سہولیات مہیا کرنے پر صرف کریں اور اس ضلع کی محرومیوں کا ازالہ کریں۔
وزیر اعلیٰ صاحب صحت، تعلیم اور سیاحت کے حوالے سے سوات کو متعدد مسائل کا سامنا ہے اور یہی سوات کے بنیادی مسائل ہیں۔ ان تینوں شعبوں میں اگر محولہ بالا گزارشات میں سے پچاس فیصد پر بھی عمل ہوا۔ تو یہ آپ کا سوات پر بڑا احسان ہوگا۔ سوات کے لوگ آپ کو یاد رکھیں گے اور تاریخ میں آپ کا نام سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔ اور اگر آپ سوات کو ملنے والے اس تاریخی موقعہ سے بھی فائدہ نہیں اٹھاتے تو نہ صرف اہل سوات بلکہ ہماری آئندہ نسلیں بھی آپ کو قصور وار ٹھہرائیں گی۔

……………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے ۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔