توصیفی سند وصول کرتے سمے جب مجھے اپنے تاثرات حاضرین کے گوش گزار کرنے کا کہا گیا، تو ذہن میں اِک کوندا سا لپکا۔ دفعتاً میں دو دہائی پیچھے چلا گیا، جب محرومیاں مجھے کھانے کو دوڑتی تھیں۔ پھر وقت کے ساتھ ساتھ وہ محرومیاں جانے کب خوف کا جامہ پہن کر مجسم ہوگئیں اور ذہن میں لاتعداد خانے بنا کر بظاہر چھوٹی نظر آنے والی اِس کھوپڑی کو ’’بھوت بنگلہ‘‘ کی شکل دے گئیں۔ اس کے بعد زندگی کے جس موڑ پر جب بھی کوئی کٹھن وقت یا مشکل گھڑی سامنے آتی، تو ذہن کے کسی نہ کسی خانے سے کوئی نہ کوئی محرومی اُچھل کر سامنے آتی اور زور سے ’’بَو‘‘ (واضح رہے کہ’’بَو‘‘ وہ مخصوص آواز ہے، جو پشتو زبان میں کسی کو ڈرانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے) کی آواز لگا کر میرے اوسان خطا کرتی۔ پھر زندگی نے نیا موڑ لے لیا، جب مجھے پیر و مرشد ’’بابا جی‘‘ مل گئے اور یوں رفتہ رفتہ ایک ایک ڈر اور ایک ایک خوف پر ان کی راہنمائی کی وجہ سے قابو پاتے گئے۔
بابا جی عجب ہستی ہیں، ’’عجب ثم العجب‘‘۔ ان سے ملتے ملتے ہم بھی عجب ہوگئے۔ ’’عجب‘‘ یوں کہ آپ سارے جہاں کا درد سینے میں لیے پھرتے ہیں، ہم جیسے محرومیوں کے شکار لوگوں کو زندگی گزارنے کا ڈھنگ سکھاتے ہیں۔ امیرؔ مینائی کا ذیل میں دیا گیا شعر اُن کی اپنی شخصیت پر صادق اترے یا نہ اترے، مگر میرا دعویٰ ہے کہ یہ بابا جی کی شخصیت پر پورا اُترتا ہے۔ شعر ملاحظہ ہو:
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیرؔ
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
’’ثم العجب‘‘ یوں کہ کب سے دیے سے دیا جلاتے چلے آ رہے ہیں، اس قحط الرجال میں بھی مقدور بھر معاشرے کو ’’انسانوں‘‘ کی ترسیل کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہیں اور بدلے کے طور پر آپ کے راستے میں روڑے اٹکائے جا رہے ہیں، آپ پر طنز کے نشتر برسائے جا رہے ہیں، مگر مجال ہے کہ آپ کے ماتھے پر بَل تک پڑی ہو۔
بابا جی کی ایک خوبی پر قربان ہونے کو جی چاہتا ہے۔ وہ یہ کہ جہاں کوئی اصولی بات ہوتی ہے، آپ پیش پیش ہوتے ہیں۔ اور جہاں معمولی سی بھی بے اصولی دِکھتی ہے، تو آپ کا ناریل چٹخ جاتا ہے۔ حضرت کون ہیں، کہاں کے رہنے والے ہیں، کیوں اپنے آپ کو پردہ کے پیچھے رکھ کر ہم جیسے نوآموزوں کو اسٹیج پر رکھ کر اور داد و تحسین کے ڈونگرے برستے دیکھ کر خوش ہوتے ہیں؟ اس راز سے پردہ اٹھانا حضرت کی زندگی میں ممکن نہیں۔ کیوں کہ وہ پردہ کے پیچھے رہنا پسند فرماتے ہیں۔ پروردگار انہیں لمبی زندگی عطا فرمائے کہ ہم جیسے درجنوں محرومیوں کے شکار ان کے دم قدم سے لڑنے کا ڈھنگ سیکھ چکے۔
آمدم برسرِ مطلب، سوات کی تاریخ میں پہلی بار ’’ماؤنٹین ویلڈرنیس‘‘ (Mountain Wilderness) اور ’’ایس پی ایس ٹریکنگ کلب‘‘ (SPS Trekking Club) کے باہمی تعاون سے دو دن پر مشتمل ’’راک کلائمبنگ ٹریننگ‘‘ (Rock Climbing Training) کا انعقاد کیا گیا جس میں سوات ٹریکرز (Swat Trekkers) گروپ کے 18 افراد نے شرکت کی۔ اس ٹریننگ میں ہمیں اپنے ایک اور خوف "Acrophobia” (یعنی بلند مقام سے خوف کھانا) سے چھٹکارا مل گیا۔ اس پروگرام کو کامیاب بنانے میں اُس شخصیت کا پورا پورا ہاتھ ہے، جو اس بار بھی پردے کے پیچھے ہی رہی۔
مذکورہ ٹریننگ کے لیے ماسٹر ٹرینرز کے فرائض لاہور سے آئے ہوئے افضل شیرازی صاحب نے احسن طریقے سے انجام دیے اور رہی سہی کسر ان کی معیت میں آئے ہوئے محمد توقیر اور محمد زنیب صاحب نے پورا کردی۔ اس حوالہ سے افضل شیرازی صاحب کے تاثرات یہاں رقم کرنے کے لائق ہیں۔
افضل شیرازی فرماتے ہیں: ’’میں ایک عرصہ سے سوشل میڈیا کے مختلف صفحات پر دیکھتا چلا آ رہا ہوں کہ سوات میں اب کافی لوگ ہائیکنگ اور ٹریکنگ کی طرف راغب ہوچکے ہیں۔ اس لیے ہماری خواہش تھی کہ ’’راک کلائمبنگ ٹریننگ‘‘ کا یہاں سوات میں انعقاد ہو۔ پھر جب ہم یہاں آئے اور دو دن یہاں سوات کے 18, 20 منتخب شدہ جوانوں اور نوجوانوں کو ٹریننگ دی، تو آج میں دعویٰ کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ یہاں کی ٹریننگ اب تک دی جانے والی ٹریننگز میں سب سے بہترین رہی۔ اس بات کا اندازہ اس ایک نکتے سے لگائیں کہ یہاں دو دن میں ایک لمحہ کو بھی مجھے یہ محسوس نہیں ہوا کہ کوئی ٹریننگ سے اُکتا گیا ہو۔ جوان اور خاص کر نوجوانوں کا جذبہ دیکھنے لائق تھا۔ یہ دو روزہ ٹریننگ تو صرف ایک ابتدا ہے، ہماری خواہش ہے کہ ہم آئندہ بھی سوات آئیں اور یہاں کے امن پسند لوگوں کو اپنے تجربات کی روشنی میں ’’راک کلائمبر‘‘ بنائیں۔ سوات کو اس حوالہ سے پروردگار نے بطورِ خاص نوازا ہے۔ یہاں فلک سیر، میاں گل چوٹی اور مانکیال کی طرح دیگر کئی چوٹیاں اور چٹان ہیں، جو ابھی تک باقی ماندہ دنیا کی نظروں سے دور ہیں۔ اگر سوات کا یہ نوجوان طبقہ آگے چل کر ذکر شدہ چوٹیوں کو سر کرلے، تو از چہ بہتر؟‘‘
اس حوالہ سے سوات کے سینئر صحافی فضل خالق صاحب کے تاثرات بھی کوٹ کرنے کے لائق ہیں۔ بقول ان کے، ’’اگر سوات کی بات کی جائے، تو یہاں پر چھوٹے بڑے پہاڑ ہیں، چٹان ہیں، بڑے بڑے پتھر ہیں اور سب سے بڑھ کر چوٹیاں ہیں۔ خدا تعالیٰ نے وادئی سوات کو اس حوالہ سے بڑی فیاضی کے ساتھ نوازا ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور خوشی کی بات یہ ہے کہ یہاں پر جوان اور پھر خاص کر نوجوان نسل میں یہ شعور زندہ ہے کہ وہ ہائیکنگ اور ٹریکنگ کرتے ہیں اور اپنی جنم بھومی کے فطری حسن سے لطف اٹھاتے ہیں۔ ہم ایک عرصہ سے سوات کے پہاڑوں میں موجود بڑے بڑے پتھروں کو دیکھتے چلے آ رہے ہیں۔ کئیوں کے ساتھ ہم تصاویر بھی کھینچ چکے ہیں، جنہیں ہم وقتاً فوقتاً سوشل میڈیا فیس بک، ٹویٹر، گوگل پلس وغیرہ پر شیئر بھی کرچکے ہیں۔ مگر ہم یہ بالکل نہیں جانتے تھے کہ قدرت کی عظمت کی نشانی ان شاہکار پتھروں پر لوگ ایک خاص ہنر کے ساتھ چڑھتے بھی ہیں جسے ’’راک کلائبمنگ‘‘ کہتے ہیں۔ ہم فلموں میں کسی ہیرو یا ہیروین کو خود کو رسّی کے ساتھ باندھتے ہوئے دیکھتے تھے جو کسی بڑے پتھر پر چڑھتے یا اس سے نیچے اترتے دکھائے جاتے تھے۔مجھے تو ایمان کی حد تک یقین ہوچلا تھا، کہ ایسا بس صرف فلموں میں ہی ممکن ہے۔ ہم ’’ماونٹین ویلڈرنس‘‘، ’’ایس پی ایس ٹریکنگ کلب‘‘ اور ’’ٹی ایل ایچ‘‘ (دی لیڈر شپ ہب) کے بے حد مشکور ہیں جن کے باہمی تعاون سے آج سوات میں دو روزہ ’’راک کلائمبنگ ٹریننگ‘‘ کا انعقاد ممکن ہوا۔ ‘‘
……………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے ۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔