ترکی زبان میں "قزل” کا مطلب سُرخ اور "باش” کا مطلب سَر ہے۔
قزلباش کو ان قیدیوں کی اولاد خیال کیا جاتاہے جنہیں تیمور نے صفوی کے شیخ حیدر کے سپرد کیا تھا۔ وہ خود کو ممیز کرنے کے لیے سرخ ٹوپیاں پہنتے تھے اور فارسی افواج کے بہترین سپاہی شمار کیے جاتے تھے۔
اِبسٹن ان کے بارے میں لکھتے ہیں: "قزلباش مشرقی قفقاز (کاکیشیا) سے تاتاری گھڑ سواروں کا ایک قبیلہ ہیں جو اس قدیم فارسی فوج اور قوت کی ریڑھ کی ہڈی تھے جس کے ساتھ نادر شاہ نے انڈیا پر چڑھائی کی۔ متعدد اعلیٰ مغل وزیر قزلباش تھے، جن میں اورنگزیب کا مشہور وزیر میر جملہ قابلِ ذکر ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ان کا نام اس مخصوص طرز کی ٹوپی کی وجہ سے پڑ گیا جو وہ پہنتے ہیں اور جس کو فارس کی صوفی (Sophi) سلطنت کے بانی ایک شیعہ نے اپنے فرقہ کے نشانِ امتیاز کے طور پر ایجا کیا تھا۔ اس کے بیٹے شاہ طماسپ (طوماسپ) نے اس وقت ہمایوں کو یہ ٹوپی پہننے پر مجبور کیا جب وہ دربارِ فارس میں پناہ گزین تھا۔ صرف کابل شہر میں کوئی 1200قزلباش گھرانے ہیں جنہیں نادر شاہ نے وہاں آباد کیا۔ وہ اب بھی اہم عسکری آبادی تشکیل دیے ہوئے ہیں اور مقامی سیاست پر خاصا اثر و اختیار رکھتے ہیں۔ سارے افغانستان میں بھی وہ بہت عام ہیں۔”
فرشتہ، قزلباش کو دوسرے کسی بھی مصنف کی نسبت زیادہ قدیم النسل بتاتا ہے۔ "قندھار کے تور کمان سرخ ٹوپیاں پہننے کی وجہ سے (1044ء میں) قزلباش کہلاتے تھے۔”
("ذاتوں کا انسائیکلو پیڈیا” از ای ڈی میکلیگن/ ایچ اے روز، مترجم یاسر جواد، شائع شدہ بُک ہوم لاہور، صفحہ نمبر 293 سے ماخوذ)