موت اور زندگی کے درمیان

’’ہم نے تمہیں پیدا کیا ہے، پھر کیوں تصدیق نہیں کرتے؟ کبھی تم نے غور کیا یہ نطفہ جو تم ڈالتے ہو اس سے بچہ تم بناتے ہو یا اس کے بنانے والے ہم ہیں؟ ہم نے تمہارے درمیان موت کو تقسیم کیا ہے۔ اور ہم اس سے عاجز نہیں کہ تمہاری شکلیں بدل دیں اور کسی ایسی شکل میں تمہیں پیدا کردیں جس کو تم نہیں جانتے۔‘‘ (سورۃ الواقعہ 61)
ہمارا رب ان آیات میں انسانوں کی پیدائش کے حوالے سے اُس کی ہٹ دھرمی پر اُسے کچھ یاد دلارہا ہے کہ آخر تم اس بات کی تصدیق کیوں نہیں کرتے کہ ہم ہی تمہارے رب اور معبود ہیں اور ہم تمہیں دوبارہ بھی پیدا کرسکتے ہیں؟
صاحب تفہیم القرآن کے بہ قول: ’’دنیا کی تمام دوسری چیزوں کو چھوڑ کر انسان اگر صرف اسی ایک بات پر غور کرے کہ وہ خود کس طرح پیدا ہوا ہے، تو اُسے نہ قرآن کی تعلیم توحید میں کوئی شک رہ سکتا ہے، نہ اُس کی تعلیم آخرت میں۔ انسان آخر اسی طرح تو پیدا ہوتا ہے کہ مرد اپنا نطفہ عورت کے رحم تک پہنچادیتا ہے مگر کیا اس نطفہ میں بچہ پیدا کرنے کی اور لازماً انسان ہی کا بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت آپ سے آپ پیدا ہوگئی ہے یا خدا کے سوا کسی اور نے پیدا کردی ہے؟ اور کیا یہ مرد کے یا عورت کے یا دنیا کی کسی دوسری طاقت کے اختیار میں ہے کہ اس نطفے سے حمل کا استقرار کرادے؟ پھر استقرار حمل سے وضع حمل تک ماں کے پیٹ میں بچے کی درجہ بدرجہ تخلیق و پرورش اور ہربچے کی الگ صورت گردی اور ہر بچے کے اندر مختلف ذہنی و جسمانی قوتوں کو ایک خاص تناسب کے ساتھ رکھنا جس سے وہ ایک خاص شخصیت کا انسان بن کر اُٹھے، کیا یہ سب کچھ ایک خداکے سوا کسی اور کا کام ہے؟ کیا اس میں کسی اور کا ذرہ برابر بھی کوئی دخل ہے؟ کیا یہ کام ماں باپ خود کرتے ہیں یا کوئی ڈاکٹر کرتا ہے؟ یا وہ انبیاء اور اولیاء کرتے ہیں جو خود اسی طرح پیدا ہوتے ہیں؟ یا سورج اور چاند اور تارے کرتے ہیں جو خود ایک قانون کے غلام ہیں؟ یا وہ فطرت (Nature) کرتی ہے جو بجائے خود کوئی علم، حکمت ارادہ اور اختیار نہیں رکھتی؟ کیا پھر یہ فیصلہ بھی کرنا خدا کے سوا کسی کے اختیار میں ہے کہ بچہ لڑکی ہو یا لڑکا؟ خوب صورت ہو یا بدصورت؟ طاقت ور ہو یا کمزور؟ اندھا، بہرا، لولا لنگڑا ہو یا صحیح الاعضاء، ذہین ہو یا کند ذہن؟ پھر کیا خدا کے سوا کوئی اور یہ طے کرتا ہے کہ قوموں کی تاریخ میں کس وقت، کس قوم کے اندر کس اچھی یا بری صلاحیتوں کے آدمی پیدا کرے جو اُسے عروج پر لے جائیں یا زوال کی طرف دھکیل دیں؟
اگر کوئی شخص ضد اور ہٹ دھرمی میں مبتلا نہ ہو، تو وہ خود محسوس کرے گا کہ شرک یا دہریت کی بنیاد پر ان سوالات کا کوئی معقول جواب نہیں دیا جاسکتا۔ ان کا معقول جواب ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ انسان پورا کا پورا خدا کا ساختہ و پرداختہ ہے اور جب حقیقت یہ ہے، تو خدا کے ساختہ و پرداختہ اس انسان کو کیا حق پہنچتا ہے کہ اپنے خالق کے مقابلے میں آزادی و خود مختاری کا دعویٰ کرے یا اُس کے سوا کسی دوسرے کی بندگی بجا لائے؟
توحید کی طرح یہ سوال آخرت کے معاملہ میں بھی فیصلہ کن ہے۔ انسان کی تخلیق ایک ایسے کیڑے سے ہوتی ہے جو طاقتور خوردبین کے بغیر نظر تک نہیں آسکتا۔ یہ کیڑا عورت کے جسم کی تاریکیوں میں کسی وقت اُس نسوانی انڈے سے جا ملتا ہے جو اُسی کی طرح ایک حقیر سا خورد بینی وجود ہوتا ہے۔ پھر ان دونوں کے بننے سے ایک چھوٹا سا زندہ Cell بن جاتا ہے جو حیات انسانی کا نقطۂ آغاز ہے اور یہ خلیہ بھی اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ خوردبین کے بغیر اس کو نہیں دیکھا جاسکتا۔ اس ذرا سے خلیے کو ترقی دے کر اللہ تعالیٰ نو مہینے اور چند روز کے اندر رحم مادر میں ایک جیتا جاگتا انسان بنا دیتا ہے۔ اور جب اس کی تخلیق مکمل ہوجاتی ہے، تو ماں کا جسم خود ہی اسے دھکیل کردنیا میں اودھم مچانے کے لیے باہر پھینک دیتا ہے۔ تمام انسان اسی طرح دنیا میں آئے ہیں اور ہم شب و روز اپنے ہی جیسے انسانوں کی پیدائش کا یہ منظر دیکھ رہے ہیں۔ اس کے بعد صرف ایک عقل کا اندھا ہی یہ کہہ سکتا ہے کہ جو خدا آج اس طرح انسانوں کو پیدا کررہا ہے، وہ کل کسی وقت اپنے ہی پیدا کئے ہوئے ان انسانوں کو دوبارہ کسی اور طرح پیدا نہ کرسکے گا۔
اور پیدائش کی طرح موت بھی اللہ کے اختیار میں ہے۔ ہم یہ طے کرتے ہیں کہ کس کو ماں کے پیٹ میں مرجانا ہے اور کسے کس عمر تک پہنچ کر مرجانا ہے جس کی موت کا جو وقت ہم نے مقرر کردیا ہے اس سے پہلے دنیا کی کوئی طاقت اسے مار نہیں سکتی اور اس کے بعد ایک لمحہ کے لیے بھی زندہ نہیں رکھ سکتی۔
مرنے والے بڑے بڑے ہسپتالوں میں بڑے سے بڑے ڈاکٹروں کی آنکھوں کے سامنے مرتے ہیں بلکہ ڈاکٹر خود بھی اپنے وقت پر مرجاتے ہیں۔ کبھی کوئی نہ موت کے وقت کو جان سکا ہے، نہ آتی ہوئی موت کو روک سکا ہے۔ نہ یہ معلوم کرسکا ہے کہ کس کی موت کس ذریعہ سے کہاں کس طرح واقع ہونے والی ہے۔

…………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے ۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔