علیم خان کا قصور کیا ہے؟

یوں لگتا ہے کہ جیسے قسمت کی دیوی علیم خان پر مہربان ہو کر دوسرے ہی لمحے نظریں بدل گئی۔ کل تک وہ پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لیے تحریک انصاف کا اکلوتا انتخاب بن گئے تھے، لیکن پھر پارٹی کے اندر موجود اُن کے مخالفین نے وہ غل مچایا کہ الامان۔ گھر کی بات گھر تک رہتی، تو شاید زیادہ حزیمت نہ ہوتی مگر بعض انصافی بند کمرے کی اس خبر کو لے کر چہیتے صحافیوں تک پہنچ گئے۔ شور مچ گیا کہ پنجاب کا وزیر اعلیٰ ایک ایسا شخص بننے جا رہا ہے جو نیب زادہ ہے۔ اس کے خلاف کئی انکوائریاں چل رہی ہیں۔ غل غپاڑہ کرنے والے یہ بھول گئے کہ یہ نیب زادہ پارٹی کے ٹکٹ سے قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشست پر لاہور سے امیدوار بھی تھا، اس کو پارٹی ٹکٹ نوازتے ہوئے اس اصولی جماعت کے قاعدے ضابطے کہاں چلے گئے تھے؟
قارئین، میں علیم خان سے کبھی نہیں ملا، مگر ان کی صلاحیتوں کا معترف ہوں۔ انہوں نے لاہور میں مسلم لیگ (ن) کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے اس مضبوط قلعے کو ماضی میں پرویز مشرف جیسا آمر بھی وسائل پانی کی طرح بہانے کے باوجود بھی تسخیر نہ کرسکا تھا، مگر علیم خان کی حکمتِ عملی نے یہاں بھی میاں برادران کو ایڑیاں رگڑنے پر مجبور کردیا۔ لاہور میں تحریکِ انصاف کا جو رنگ جما ہے، اس سے اندازہ ہو رہا ہے کہ مستقبل میں ن لیگ شاید لاہور سے دو، چار نشستیں بھی نہ بچا پائے اور اس تبدیلی کا سہرا علیم خان کے سر ہے، جنہیں اب ان کے اپنے ہی ساتھی ناکردہ گناہوں کی صلیب پر چڑھانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگارہے ہیں۔

یہ کہنا بجا ہوگا کہ لاہور میں پاکستان تحریکِ انصاف کا جو رنگ جما ہے اس میں علیم خان کی قربانیاں شامل ہیں۔

علیم خان کی وزارت اعلیٰ کے لیے نامزدگی کے راستے میں روڑے اٹکانے والوں کی تاویلیں بھی انتہائی بھونڈی ہیں۔ وجۂ اعتراض نیب کی انکوائریوں کو قرار دینے والے یہ بھول گئے کہ پارٹی سربراہ عمران خان خود نیب کی انکوائری بھگت رہے ہیں۔ اگر اسی اصول کو کسوٹی سمجھا جائے، تو پھر تو عمران خان بھی وزارت عظمیٰ کے لیے اہل نہیں۔ نیب کا کردار سب جانتے ہیں اور اس ادارے میں سیاست دانوں کے خلاف نت نئی انکوائریاں کیوں کھولی جاتی ہیں؟ یہ اب اس ملک کا بچہ بچہ جان گیا ہے۔ لہٰذا تحریک انصاف کو اپنے مخلص کارکن کے گلے پر چھری پھیرنے کے لیے اب کوئی اور ڈھنگ کا بہانہ تجویز کرنا پڑے گا۔
قارئین، اس ملک میں سازشیں کوئی نئی بات نہیں۔ اقتدار کی راہداریاں ایسے درجنوں واقعات کی شاہد ہیں، جب ارد گرد موجود بہ ظاہر دوستوں نے اگلے کے خلاف وہ جال بُنے کہ پھر ان سے جان چھڑانا ممکن نہ تھا۔ زیادہ دور کیوں جائیں، مخدوم شہاب الدین کا قصہ تو ابھی کوئی نہ بھولا ہوگا۔ یوسف رضا گیلانی کو سپریم کورٹ نے سزا دی، تو وزارت عظمٰی کی نشست خالی ہوگئی۔ پیپلز پارٹی نے مشاورت سے مخدوم شہاب الدین کا نام فائنل کیا لیکن ان کا نام سامنے آنا تھا کہ کہرام مچ گیا۔ سارے ادارے انگڑائی لے کر اُٹھ بیٹھے اور اینٹی نار کوٹکس والے تو ہتھکڑیاں لے کر گرفتاری کے لیے پہنچ گئے۔ تب خبر ہوئی کہ موصوف ایفی ڈرین کیس میں مطوب ہیں۔ مجبوراً پیپلز پارٹی کو ان کے نام سے دستبردار ہونا پڑا اور متبادل راجہ پرویز اشرف نے اقتدار کا تاج پہن لیا۔ راجہ پرویز اشرف کے وزیر اعظم بنتے ہی اینٹی نارکوٹکس سمیت تما م اداروں نے فائلیں درازوں میں پھینکیں اور پھر راوی چین ہی چین لکھنے لگا ۔
عمران خان اپنے دوست اور پارٹی رکن علیم خان سے پیار کرتے ہیں۔ یقینا ان کی خواہش ہوگی کہ وہ ہی وزارت اعلیٰ کے تخت پر براجمان ہوں، مگر وہ ساری طاقتیں جو اپنی مرضی کا وزیر اعلیٰ چاہتی ہیں، یقینا ایسا ہونے نہیں دیں گی اور آنے والے دنوں میں وہ واویلا مچائیں گی کہ کہرام بپا کردیں گی۔ اس لیے علیم خان کو ابھی سے اس دوڑ سے نکل جانا چاہیے، ورنہ وہ دن دور نہیں جب نیب کی ٹیمیں مقامی پولیس کے ہمراہ ان کے ٹھکانوں پر چھاپے مار رہی ہوں گی۔ کیوں کہ اس ادارے کو ماضی کے ایک آمر نے اسی لیے تخلیق کیا تھا اور اس کی کارکردگی اس سے زیادہ کبھی دکھائی نہیں دی۔

………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے ۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔