اُس خاص روداد کو، جس کو کوئی نو سال پہلے لکھنااپنے اوپر لازم گردانا تھا، مناسب وقت پر لکھ نہ پائے۔ ہم نادم ہیں۔ انتخابات سر پرہیں۔ تیس مار خان بھونگیاں مار رہے ہیں۔ کسی کے کان بہرے نہ ہوں، تو وہ سن لیں کہ ایک جماعت کے جنگجو تو ہر صورت جیتنے کے لیے دیگر پارٹیوں کے کارکنوں کی ماں بہن ایک کر رہے ہیں، اُن کو ہیرامنڈی بھیجنے اور عزتیں نیلام کرنے کے طعنے دیے جا رہے ہیں۔ ’’محکمہ زراعت‘‘ کے بے زُبان اہلکاروں کے نام پر خلائی مخلوق بھی میدان میں کود کر اپنے انداز میں امیدواروں اور ووٹروں کو ڈرا دھمکا رہی ہے۔ ایک مخصوص ’’گینگ‘‘ کو اس یتیم و یسیر ملک کی باگ ڈور دلانے کی خاطرمختلف ریاستی و غیر ریاستی عناصر کی طرف سے برہنہ انتخابی انجینئرنگ کا جو پارہ اس الیکشن میں چڑھا ہوا دیکھا، تو الامان و الحفیظ۔ وہ تاریخ میں کبھی دیکھا نہ سنا۔ ایک طرف جلسے جلوس منعقد کرنے اور ہر قسم کی دھونس دھاندلی کی مادر پدر آزاد قسم کی آزادی۔ دوسری طرف جلسے کیا، وقت پربات نہ کرنے کی بھی پابندی۔ کسی کو عدالتی دہشت کے ذریعے ہراساں کیا جا رہا ہے، کسی کو خود کش بمباری کے ڈسپلے سے۔ کوئی ’’زرعی ادارے‘‘ کی بندوق کے زور پر جھاگ کی طرح بیٹھ گیا ہے اورکسی کو پیسے اور وزارت کے چکر میں ورغلایا، بہلایا،پھسلایا اور جیپ میں بٹھاکرسمجھایا گیا ہے۔ بے لگام طاقتوں کا ایک طوفانِ بد تمیزی ہے جس کے ساتھ مخلوقِ خدا برسرِ پیکار ہے۔ کیا یہ لوگ خود کو خدا کے سامنے بھی جواب دہ سمجھتے ہیں؟ یقین تو نہیں آتا۔ پھر ریحام خان کی کتاب کے چھپنے کے بعد بد مست بوڑھوں کی کسی قسم کی ندامت کی بجائے، مزید سینہ زوری سے سامنے آنا اور انتخابی قواعد و ضوابط کے پرخچے اُڑانا، بجائے خود الیکشن کمیشن کے منھ پر ایک زوردار تھپڑ مارنے کے مترادف ہے، لیکن شائد اُن پر کوئی قاعدہ کوئی ضابطہ لاگو نہیں ہوتا۔ یہ لوگ طاقت، دولت اورشہرت کی بھوک کو مٹانے کے لیے ہر قسم کا حربہ اپنانے کو جائز سمجھتے ہیں۔ اِن کی یہ حرکات دیکھ کر مشتاق احمد یوسفی مرحوم کی کتاب ’’آبِ گم‘‘ کا ایک پیراگراف یاد آتا ہے، جس سے دل کو یک گونہ اطمینان سا ملتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’ایک پیاس تو وہ ہوتی ہے جو گھونٹ دو گھونٹ پانی سے بجھ جاتی ہے اور ایک تونس ہوتی ہے کہ جتنا پانی پیو، پیاس اتنی ہی بھڑکتی جاتی ہے۔ ہر گھونٹ کے بعد زبان پر کانٹے پڑتے چلے جاتے ہیں۔ آدمی، آدمی پر منحصر ہے۔ کسی کو کایا موہ، کسی کو زر، زمین کی پیاس لگتی ہے۔ کسی کو علم اور شہرت کی۔ کسی کو خدا کے بندوں پر خدائی کی اور کسی کو عورت کی پیاس ہے، جو بے تحاشا لگے چلی جاتی ہے۔ یہ پیاس دریاؤں، بادلوں اور گلیشئروں کو نگل جاتی ہے اور سیراب نہیں ہوتی۔ انسان کو دریا دریا، سراب لیے پھرتی ہے اور بجھائے نہیں بجھتی۔ العطش، العطش!! پھر ہوتے ہوئے یہ اَن بجھی پیاس خود انسان ہی کو پگھلا کے پی جاتی ہے۔‘‘
لگتا ہے وہ وقت آیا ہی چاہتا ہے کہ عیش و نشاط کے یہ بھوکے گروہ پگھل جائیں گے۔ ’’اُمید سے ہونا‘‘ کوئی کفر نہیں۔
’’حالاتِ بالا‘‘ نے بڑا آزردہ کیا۔ تب اتنی لمبی تمہید باندھنی تھی، باندھ لی۔ اس تناظر میں ضروری ہے کہ وہ خاص روداد لکھ کراس اہم موقع پر عام لوگوں کی مناسب رہنمائی کی ایک حقیر سی کوشش تو کی جائے، جو کئی حوالوں سے بعض دوستوں کے لیے باعثِ تکلیف ہوگی، لیکن اپنے اوپر عائد شدہ قرض نہیں اُتاریں گے، تو ملامت کا سایہ ذہن پر حاوی ہوکر تادیر ساتھ ساتھ چلتا رہے گا۔ باقی مرضی اپنی اپنی، ووٹ اپنا اپنا۔ ہم پر لازم ہے کہ سچ بات پر خود بھی غور کریں اور اُسے عام لوگوں تک پہنچانے کا فریضہ بھی ادا کریں۔
یہ بات ہے 2009ء کی۔ جب بد نصیب وادئی سوات کے اٹھارہ لاکھ لوگوں کو چند سو دہشت گردوں نے یر غمال بنالیا۔ ریاستی مشینری نیم دلی سے متحرک تو ہوئی، لیکن دہشت گردی بجائے کم ہونے کے، منصوبے کے مطابق بڑھتی گئی۔ ہزاروں معصوم لوگ اس سفاکانہ کھیل جس کو بھولنا ناممکن ہے، کا ایندھن بنے۔ سیکڑوں لوگ صفحۂ ہستی پر جیتے جی گُم ہوگئے، معدوم ہوگئے۔ دل کی بیماری کے وائرس نے درجنوں جانوں کو دبوچا۔ رائج و غیر رائج ظلم وستم کا ہر وہ حربہ اپنایا گیا، جس سے چہار سُو دہشت اور وحشت پھیلتی اور پھیلتی چلی جاسکتی تھی۔ خدا ستیا ناس کرے ایسے ظلم و ستم سوچنے والوں کا، ڈیزائن کرنے والوں کا اور اُس کو عملی جامہ پہنانے والوں کا، اُن کے خاندانوں، ’’نشینوں‘‘ اور ’’جانشینوں‘‘ کو کبھی سُکھ چین نصیب نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ بادشاہ اُن کو زندگی میں سکون کے لیے ایسے ترسائے، جس طرح اُنہوں نے ہمیں ایک عرصے سے ترسایا اور اب تک ترسا رہے ہیں۔ جنگ پھیلتی گئی اور لوگ ’’آئی ڈی پیز‘‘ بن کر در بہ در کی ٹھوکریں کھا نے لگے۔ خواتین، بچے اور بزرگ کھلے عام میدانوں، کھیتوں، ٹینٹوں، سکولوں اور دیگر عمارات میں پڑے ذلیل و رسوا ہوتے رہے۔ ایک ہو کا عالم تھا۔ ایک انہونی تھی جو واقع ہوئی۔ ایک آدھ تھیلے آٹے وغیرہ کی مفت وصولی کے لیے لوگ راشن مراکز پر شدید گرمیوں میں پہروں پہروں، قطاروں میں کھڑے رہے۔ حالت کچھ یوں تھی جس کو یاد کرکے اب بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
یادِ ماضی عذاب ہے یا رب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
اِ س سلسلے میں اُسی سا ل اکیس جون کے دوپہر اسلام آباد کے فرنٹیر ہاؤس میں ایک طرف سوات قومی جرگہ کا اجلاس جاری تھا۔ افضل خان لالا (مرحوم و مغفور) سوات سے اسلام آباد آئے توعلاج کی غرض سے تھے، لیکن انہوں نے جرگہ میں شرکت بھی کی۔ انجینئر امیر مقام صاحب اور جرگہ کے روحِ رواں مختیار یوسف زئی، الحاج زاہد خان، ضیاء الدین یوسف زئی اور خورشید کاکا جی کے علاوہ ساٹھ پینسٹھ کے قریب چیدہ چیدہ مشران و عمائدین بھی اس موقع پر موجود تھے۔ جہاں تک یاد پڑتا ہے، اجلاس کا مقصد پاکستان کے اُس وقت کے صدرِ مملکت جناب آصف علی زرداری سے ہونے والے ملاقات کے لیے ایک لائحہ عمل بنانا تھا، یا شائد وہ اس سے بعد کی بات ہے۔ دوسری طرف سوات کے حالات اور طالبائزیشن کے تناظر میں اگلے سے اگلے دن یعنی تیئس جون کو پشتون تھینک ٹینک ’’آریانہ انسٹی ٹیوٹ فار ریجنل ریسرچ اینڈ ایڈوکیسی‘‘ ( اے آئی آر آر اے) نے اسلام آباد قومی لائبریری ہال میں یک روزہ قومی کانفرنس منعقد کرنے کا اہتمام بھی کیا تھا۔ جناب رضا ربانی، پرویز ہود بھائی، افراسیاب خٹک اور عبد الرحیم مندوخیل، ہاشم بابر، سید عالم مسعود، فضل رحیم مروت، حاصل بزنجو، مختار باچہ، خادم حسین اور انیس ہارون صاحب کے علاوہ دیگر شخصیات بھی اس کانفرنس کے مقررین میں شامل تھے۔ سفارت کار، قومی و بین الاقوامی میڈیا کے نمائندے، پروفیسرز، غیر حکومتی اداروں کے ارکان، سول سوسائٹی کے سرگرم اراکین اور ملک کی طلبہ تنظیموں کے عہدے دار سیمینار کے مندوبین کی حیثیت سے مدعو تھے۔ کانفرنس کی سفارشات کی روشنی میں ایک اہم ڈاکومنٹ کی تیاری مطلوب تھی، جو دہشت گردی کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے میں معاون اور دٹھوس تجاویز پر مبنی ہو۔ حقائق تک پہنچنے کے لیے جسے خطے کے متعلقہ ایکٹرز تک پہنچایا جا سکے۔تمام تیاریاں مکمل تھیں، لیکن اخراجات کے لیے درکار فنڈز میں کوئی اسّی ہزار روپے کی کمی تھی، جس کے لیے ہم اپنی طرف سے بھرپور کوششیں کر رہے تھے۔ قومی جرگہ کے مشران جن میں سوات کے نامی گرامی خوانین بھی موجود تھے، کا اجلاس اختتام پزیر ہونے کو تھا کہ ہم پچھلی نشست سے اُٹھے اور پورے ہاؤس کو ایک دن بعدمنعقد ہونے والی کانفرنس کی اہمیت کے بارے میں بریف بھی کیا، اِس میں شمولیت کی دعوت بھی دی اور مالی مدد کی درخواست بھی کی۔ بات کرکے ہم بیٹھ گئے۔ عین اُس وقت ایک شخص، ہاں صرف ایک شخص نے درکار رقم دینے کا اعلان بھی کیا اور پروگرام میں خود شرکت کرنے کی حامی بھی بھری۔ اگلے دِن وہ شخص بہ نفسِ نفیس حاضر ہوئے، پورا دن ساتھ بیٹھے بھی رہے، ایک ایک لیکچرمیں دلچسپی بھی لی، تجاویز بھی دیتے رہے اور پروگرام کے آرگنائزرز کو داد بھی دیتے رہے۔ اُس نشست میں باتوں کے دوران میں یہ بھی اندازہ ہوا کہ آئی ڈی پیز کی مدد کے لیے انہوں نے کتنے جتن کیے اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ کو اس سلسلے میں کتنا راغب کیا۔ آج وہ شخص سوات سے صوبائی اسمبلی کا اُمید وار ہے،کامیاب ہو جائے، تو یقینا وہ اپنی پارٹی کی طرف سے صوبے کے نامزد وزیر اعلیٰ بھی ہوں گے۔ وزیرِ اعظم کے عہدہ کے لیے متوقع اُمید وار شہباز شریف کو انہوں نے مجبور کیا کہ وہ سوات سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑیں، جو علاقے کے لیے اعزاز کی بات ہے۔ اُنہوں نے پچھلے پانچ سالوں میں اسمبلی کا ممبر نہ ہوتے ہوئے بھی سوات اور شانگلہ میں اتنے ترقیاتی کام کیے عام حالات میں، جس کا تصور بھی محال ہے۔ سوئی گیس کو گھر گھر پہنچانے کے لیے اربوں روپے کے منصوبے، کالام تک ایکسپریس وے کی شروعات ، سی پیک میں سوات اورملاکنڈ کے لیے کیا پورے صوبے کے لیے کئی منصوبوں کی کامیاب وکالت، سوات میں خواتین یونیورسٹی بنانے کا منصوبہ، سنگوٹہ میں نواز شریف کڈنی ہسپتال جس سے روزانہ سیکڑوں لوگ مستفید ہو رہے ہیں اور سیکڑوں لوگوں کو روزگار اور کاروبار کے مواقع ملے ہیں۔ انہوں نے بجلی کی فراہمی کے نظام میں بہتری لانے کے لیے گرڈ سٹیشنز کو اَپ گریڈ کیا، جو آئندہ چند دنوں میں آپریشنل ہو کر سوات کو تاریکی سے نجات دلائیں گے۔ ایسے میں جب ہمارے لوگ اُن کو ’’نان لوکل‘‘ کے طعنے دے کر ووٹروں کو کنفیوز کرتے ہیں، تو دُکھ ہوتا ہے۔ ہر وقت متحرک اور دن رات ترقی کی فکر میں سرگرم قومی لیڈرانجینئر امیر مقام میں بہت سی خامیاں بھی ہوں گی۔ کیوں کہ وہ بھی ہماری طرح انسان ہی ہیں اور دوسروں کی طرح اُن پر بھی کئی الزامات ہیں۔ لیکن ذرا نظر دوڑائیں، اس ملک میں کون ہے جو ہر حوالے سے پاک و صاف اور صادق و امین ہے؟ وہ سوات اور شانگلہ کو ایک وطن سمجھتے ہیں۔ سوات کو اپنی جنم بھومی مانتے ہیں اور اس پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ وہ اس مٹی سے کتنی محبت کرتے ہیں، یہ وہ جانے، خدا جانے یا ہم جانیں۔ مختیار خان یوسف زئی، ملک ریاض خان، خورشید کاکا جی، میاں گل شہر یار امیر زیب، واجد علی خان، حبیب علی شاہ اور محمد امین صاحب بھی اپنے حلقہ ہائے نیابت میں کام کے لوگ سمجھے جاتے ہیں جو منتخب ہو کر اپنی مٹی کی بے لوث خدمت کر سکتے ہیں۔ مرضی آپ کی ہے کہ کس کو کس مقام پر کھڑا کرنا ہے۔ واہ قاسمی جی……!
خدا کرے کہ میری ارض پاک پر اُترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے وہ کھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گذرنے کی بھی مجال نہ ہو
یہاں جو سبزہ اُگے وہ ہمیشہ سبز رہے
اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو

………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے ۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔