میں نے پلکوں سے درِ یار پہ دستک دی ہے
میں وہ سائل ہوں، جسے کوئی صدا یاد نہیں
آؤ، اک سجدہ کریں عالمِ مدہوشی میں
لوگ کہتے ہیں کہ ساغرؔ کو خدا یاد نہیں
ان خوبصورت اشعار کے خالق اردو کے ممتاز شاعر ساغرؔ صدیقی کا انتقال 18 جولائی 1974ء کو ہوا۔
آپ کا اصل نام محمد اختر تھا جب کہ ساغرؔ تخلص رکھتے تھے۔ وکی پیڈیا کے مطابق شروع میں تخلص ناصرؔ مجازی تھا لیکن جلد ہی اسے چھوڑ کر ساغرؔ صدیقی ہوگئے۔ آپ نے غزل، نظم، قطعہ، رباعی، ہر صنف سخن میں خاصا ذخیرہ چھوڑا ہے۔ آپ خود اسے کیا چھپواتے، ناشروں نے اپنے نفع کی خاطر اسے چھاپ لیا اور اسے معاوضے میں ایک حبّہ تک نہ دیا۔
چھے مجموعے آپ کی زندگی میں لاہور سے چھپے۔ "غمِ بہار، زہرِ آرزو (1946ء)، لوحِ جنوں (1971ء) اور سبز گنبد اور شب آگئی (1972ء)۔”
آپ نے جنرل ایوب کے اصرار پر اُن سے ملنے سے انکار کیا اور یہ شعر سگریٹ کی خالی ڈبیا کے کاغذ پر لکھ کر بھیج دیا کہ
جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس عہد کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے
