عمران خان نے 25 اپریل 1996ء کو لاہور میں پاکستان تحریک انصاف کے قیام کا اعلان کیا۔ تحریک انصاف کو قائم ہوئے ابھی چند ماہ ہی ہوئے تھے کہ صدر مملکت نے اٹھاون ٹو بی کا استعمال کرتے ہوئے بے نظیر حکومت کو رخصت کرکے نئے انتخابات کا اعلان کردیا۔ چوں کہ تحریک انصاف کے قیام سے عمران خان لوٹ مار کرنے والے حکمرانوں کا احتساب اور ان سے قوم کی ایک ایک پائی وصول کرنے کا وعدہ کرتے چلے آ رہے ہیں۔ اس لیے 1997ء کے قومی الیکشن میں پاکستان تحریک انصاف میں وہ لوگ شامل ہوکر امید وار بن گئے جن کا سیاست سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ البتہ بعض لوگ ایسے بھی شامل ہوکر امیدوار بن بیٹھے جن کا خیال تھا کہ عمران خان پورے ملک میں شہرت رکھتے ہیں۔ ان کی شہرت کی بدولت انھیں الیکشن میں کامیابی نصیب ہوگی، لیکن اللہ کی قدرت کہ شہرت کے باوجود عمران خان اور نہ تحریک انصاف کے کسی امیدوار ہی کو کامیابی نصیب ہوئی۔ جو لوگ عمران خان کی شہرت کی وجہ سے تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے، وہ تو پارٹی چھوڑ کر چلے گئے اور جو لوگ عمرا ن خان کے پیش کیے گئے نظریے کو مد نظر رکھتے ہوئے عمران خان کا ساتھ دینے پر تیار ہو گئے تھے، وہی لوگ ملک و قوم، اپنے بچوں اور اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے کی خاطر تحریک انصاف میں ڈٹے رہے۔ دوسری سیاسی پارٹیوں کے عمائدین تحریک انصاف کے ورکروں پر آوازے کستے رہے۔ کبھی تحریک انصاف کو ’’تانگا پارٹی‘‘ کہا گیا اور کبھی بچوں کی پارٹی ہونے کے طعنے دیے گئے۔یہ ایک حقیقت ہی تو تھی کہ ہر ضلع میں تحریک انصاف میں بہت کم تعداد میں لوگ یا ورکرز تھے۔ تحریک انصاف کے جلسے میں دوسری پارٹیوں کی کارنر میٹنگ سے بھی کم لوگ ہوتے تھے اور ان میں بھی زیادہ تر تعداد کم عمر نوجوانوں کی ہوتی تھی۔ اسی وجہ سے تحریک انصاف کو بچوں کی پارٹی کہا جاتا تھا۔ لیکن ایک سوچ اور نظریے کے تحت عمران خان نے ہمت ہاری اور نہ ان کے ورکروں نے۔ اپنے مقصد کے حصول میں مگن رہے۔
اب ایک عرصہ سے سنتے چلے آ رہے ہیں کہ آئی ایس آئی کے سابق ڈی جی پاشا نے عمران پر کچھ ایسا دم پھونک مارا ہے کہ 2010ء کو مینارِ پاکستان لاہور پر کامیاب جلسے کے بعد ان کی ترجیحات بھی بدلیں اور روایتی سیاست دانوں کو پارٹی میں شامل کرنے کی کوششیں شروع کیں۔ حالاں کہ اس وقت تک عمران خان روایتی سیاست دانوں کو پارٹی میں شامل کرنے کے حق میں نہیں تھے۔ عمران خان اکثر کہا کرتے تھے کہ وہ ان سیاست دانوں کے لوٹ مار کا جواب نہیں دے سکتے۔ لیکن مینارِ پاکستان کے جلسے کے بعد ان روایتی سیاست دانوں کو تحریک انصاف میں یہ کہہ کر شامل کرتے رہے کہ تحریک انصاف میں شامل ہونے کو فرشتے تو نہیں آ سکتے، بس یہی لوگ ہی شامل ہوں گے۔ اگر لیڈر چور لیٹرا نہ ہو، تو دوسرے چھوٹے موٹے لیڈرز کچھ بھی نہیں کرسکتے۔ وہ میرے گائڈلائن پر چلیں گے۔

پاکستان مسلم لیگ نون، پاکستان پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی پارٹیوں کے پنچھی اُڑ اُڑ کر پاکستان تحریک انصاف کے منڈھیر پر آ آ کر بیٹھنے لگے ہیں اور عمران خان وقت ضائع کیے بغیر انھیں "مشرف بہ تحریک انصاف” کر رہے ہیں۔ (Photo: Dunya News)

2013ء کے قومی انتخابات تک بعض روایتی سیاست دان پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہو چکے تھے۔ الیکشن میں بلوچستان کے علاوہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے امیدواروں نے کامیابی بھی حاصل کی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ الیکشن میں دھاندلی کے خلاف عمران خان کے دھرنے، قومی خزانہ اور قومی وسائل لوٹنے والوں کے احتساب کے نعرے نے عوام میں شعور و آگہی ٖضرور پیدا کی، جو آج اپنے سابقہ علاقائی نمائندوں سے پانچ سال کا حساب مانگ رہے ہیں، لیکن اس کے ساتھ عمران خان میں بھی ایک تبدیلی ضرور آئی کہ انھیں جاگتے میں وزیر اعظم بننے کے خواب نظر آنے لگے ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ خواب اسٹبلشمنٹ نے عمران خان کو دکھائے ہیں۔ شائد ایسا ہی ہوا ہو۔ کیوں کہ پاکستان مسلم لیگ نون، پاکستان پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی پارٹیوں کے پنچھی اُڑ اُڑ کر پاکستان تحریک انصاف کے منڈھیر پر آ آ کر بیٹھنے لگے ہیں اور عمران خان وقت ضائع کیے بغیر انھیں "مشرف بہ تحریک انصاف” کر رہے ہیں۔ ان کے گناہ دیکھے گئے اور نہ قومی دولت کی لوٹ مار۔ انھیں احتساب کے عمل سے گزار کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ کیوں عمران خان کے کان میں یہ بات ڈال دی گئی ہے کہ الیکٹ ایبلز اور دولت رکھنے والوں کے بغیر اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنا ممکن نہیں۔ تب ہی تو انھیں الیکٹ ایبلز کو پارٹی میں شامل ہونے پر کوئی اعتراض نہیں۔
اب جب کہ 25 جولائی 2018ء کو قومی انتخابات ہونے جا رہے ہیں، تو عمران خان نے ٹکٹوں کے اجرا میں بھی پارٹی کے نظریاتی ورکرز کو نظر انداز کرتے ہوئے اکثر ٹکٹ "الیکٹ ایبلز” کو جاری کیے۔ وہ بھی ان کو جو پاکستان مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی سے تحریک انصاف میں آئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پورے پاکستان میں ہر جگہ تحریک انصاف کے ٹکٹوں کی تقسیم کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں اور بنی گالہ پر دھرنے دیے جا رہے ہیں۔ لیکن عمران خان نے وعدے کے مطابق ٹکٹوں کے اجرا پر نظرِ ثانی نہیں کی۔ عمران خان کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ لوگوں میں شعور و آگہی آ چکی ہے۔ وہ صرف الیکٹ ایبلز اور دولت والوں کو ووٹ نہیں دیتے بلکہ اب نظریہ اور اپنے مستقبل کی خاطر ووٹ دیتے ہیں۔
ہماری دعا ہے کہ تحریک انصاف کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں اکثریت ملے اور حکومت بنانے میں کامیاب ہو، لیکن کیا صمصام شاہ، شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین، فردوس عاشق اعوان، بابر اعوان، سکندر بوسن، اعظم سواتی، شیر اکبر، رمیش کمار، پرویز خٹک وغیرہ سے تبدیلی کی امید یا توقع کی جا سکتی ہے؟ ان میں زیادہ تر وہی الیکٹ ایبلز ہیں جو جنرل ضیاالحق، جنرل پرویز مشرف، مسلم لیگ قاف، مسلم لیگ نون،پیپلز پارٹی اور دوسری سیاسی پارٹیوں وابستہ رہے ہیں اور اب پی ٹی آئی میں شامل ہو چکے ہیں۔ اگر یہی سیاسی قائدین عوام کے لیے کچھ کرنا چاہتے، تو کب کا کر چکے ہوتے۔یہ سب اپنے مفادات کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ میرے نزدیک ان سے تبدیلی کی توقع رکھنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔

……………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔