یہ ہماری نوجوانی کے دن تھے۔ نیا نیا اُردو میں ماسٹر کیا تھا۔ جنون تھا کہ اُن سے بھی ملا جائے جن کی ہم کتابیں پڑھتے ہیں۔ اسی سلسلے میں، مَیں اور میرا ادبی دوست عادل تنہاؔ پشاور بھی گئے۔ جہاں عزیز اعجاز اور نذیر تبسم کے بعد اظہار اللہ اظہارؔ سے بھی ملے۔ آخر الذکر موصوف اُن دنوں اپنے پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھنے کی وجہ سے بکھری کتابوں کے بیچوں بیچ مقید پڑے رہتے تھے۔ ہم چوکھٹ تک تو پہنچ گئے لیکن درشن کی اُمید موہوم تھی۔ اُن کے والد پروفیسر انعام اللہ جان قیسؔ اُنہی دنوں مکہ یونیورسٹی سے ریٹائرڈ ہوکر آئے تھے، نے ہمیں مہمان خانے میں بٹھایا۔ کیا نفیس انسان تھے۔ بڑی چاہ سے ملے۔ میٹھا پانی بھی پلایا۔
چائے میں تعارف چاہا، تو یہاں ایک لطیفہ ہوگیا۔ وہ یوں کہ جب میں نے کہا کہ خاکسار کو تصدیق اقبال بابو کہتے ہیں، تو کہنے لگے، ’’یہ بابو آپ کا عرف ہے یا تخلص؟‘‘ میں نے کہا ’’دونوں‘‘ تو کہنے لگے، ’’یہ نام تبدیل کردینا۔‘‘ میں نے ہمت کرکے کہا، ’’کیوں؟‘‘ تو کہنے لگے، ’’بنگالی میں بابو، بکری کو کہتے ہیں۔‘‘ ایسے میں تنہا کا قہقہہ رُک نہ سکا اور میں آنکھیں مٹکانے لگا۔
اسی سمے مہمان خانے میں اِک پُرکشش نوجوان وارد ہوتا ہے، جس کے ماتھے پہ بکھرے گہرے اور منتشر بال بڑے بھلے لگ رہے تھے۔ جگ رتے اور بیسار مطالعے کے آثار اُن کی آنکھوں سے ہویدا تھے۔ جن کا قدمیانہ، چہرہ گول مٹول، رنگ دودھیا، ہونٹ عنابی، بدن گداز، آنکھیں مخمور اور گال قدرے اُبھرے ہوئے تھے۔ عمر اُن کی پینتیس سے چالیس کے لگ بھگ رہی ہوگی۔ جب بولے، تو نذیر تبسم کی طرح لفظوں کے دریچے کھولنے لگے اور لب و لہجے میں خوشبو گھولنے لگے یا بہ قول وزیر آغا ’’لفظوں کی چھاگلیں اُنڈیلنے لگے۔‘‘ یہ اظہار اللہ اظہارؔ تھے جو اُن دنوں بھی اسلامیہ کالج پشاور کے پروفیسر تھے اور آج بھی ہیں۔ اپنے پی ایچ ڈی کے تحقیقی کام کی انتہائی مصروفیت کے باوجود بھی ہم سواتیوں، ملاقاتیوں کا سن کر لطف فرمانے آگئے۔ پون گھنٹا کی ملاقات میں ہمیں نہال ہی تو کر گئے۔ اس بندے کو خدانے بلا کا حافظہ دے رکھا ہے۔ الفاظ تو جیسے اُن کے غلام ہوں۔ اردو کے ساتھ پشتو ادبیات پہ بھی خوب گرفت ہے۔ کلام سنا، سنایا گیا۔ ہماری کچھ اصلاح بھی کی اور کہا کہ مشقِ سخن چھوٹی بحر ہی کی بھلی لگتی ہے۔ کچھ کتابیں خرید کر پڑھنے کا بھی مشورہ دیا۔ جن میں فکرِ اقبال، اردو ادب کی تاریخ اور شرحِ دیوانِ غالب (سلیم یوسف چشتی) کے نام یاد ہیں۔ نیز علمی لغت کی بھی تعریف کی۔ رخصت ہوتے انہوں نے اپنی چار عدد کتب عنایت کیں جن میں پشتو کی ’’آوازونہ او دائرے‘‘ جب کہ اردو میں ’’نیا اور پرانا غالب‘‘ کے علاوہ ’’لمس کا خواب زندہ رہنے دے‘‘ اور ’’گرفت‘‘ شامل تھیں۔ بقیہ کتابیں میں نے خرید کر پڑھیں، لیکن موٹی عقل کا کیا کیجیے کہ کچھ پلے پڑے، تو بات بنے۔ البتہ ’’گرفت‘‘ کے دو شعر آج بھی ذہن سے چپکے ہوئے ہیں کہ
اُس کی منطق درست ہے لیکن
ہم سے اُلٹے سفر نہیں ہوتے
اور یہ بھی کہ
بات کچھ اور ہے پس پردہ
روٹھنا اس قدر ہے ناممکن
بہ قولِ گوہر نوید ’’ انہوں نے بڑی تیزی سے، بہت قلیل عرصے میں بلندی کا سفر طے کیا ہے۔‘‘

پشتو اور اردو کی کتابوں کو ملا کر آپ کی کتابوں کی تعداد دو درجن کے لگ بھگ بن جاتی ہے۔ جو شاعری کے علاوہ تنقید اور تحقیق کا احاطہ کرتی ہیں۔ جہاں تک میں نے محسوس کیا ہے، اُن کے اندر ایک دردیلا، امن پسند اور رومان پسند انسان موجود ہے، جو ہر اونچے نیچے، چھوٹے بڑے اور جانے انجانے کو انسانیت کی نظر سے دیکھتا ہے۔ یہاں تک کہ جب کوئی واجبی سا شاعر بھی اپنا مسودہ بغل میں دبائے آجائے، تو اس کی بھی حوصلہ افزائی ہی کرتے ہیں۔ ناک بھوں نہیں چڑھاتے بلکہ دو چار لفظ لکھ بھی دیتے ہیں۔ فرازؔ کی طرح وہ بھی بڑے خوش قسمت ہیں کہ اُن کے آنگن میں بھی کئی بلبلیں اُترتی ہیں اور دفتر کے باغات تو بھرے رہتے ہیں۔ ظالم اختر شیرانی کی طرح کئی ایک کے نام تک بھی لکھ ڈالتے ہیں جس میں امتل، عاصمہ، تہمینہ اور گل مالہ قابل ذکر ہیں۔ ایک جگہ لکھتے ہیں
عاصمہ کی نشیلی آنکھوں نے
درد کو تارا تارا چمکایا
یا
تہمینہ کی آواز میں نغمے ہیں ازل کے
آپ کی شاعری کا مطالعہ کریں، تو اس میں کئی ایک موضوعات سامنے آتے ہیں۔ انسان اور انسانیت کا دکھ، ملک و قوم کا درد، حال اور ماضی کا احوال، قلبی واردات اور حسن و عشق کے موضوعات کے علاوہ ظالم اور جابر طاقتوں کے خلاف مزاحمت کا رنگ بھی بہ خوبی دکھائی دیتا نظر آتا ہے۔
گویا آپ نے بھی فیضؔ کی طرح لیلیٰ اور لیلائے وطن کے نغمے گائے ہیں لیکن سوچ کا دائرہ پاکستان ہی رکھا، روس نہیں۔ مثلاً:
وہ جس کی راہنمائی میں دل جلایا تھا
اُسی نے قتل کیا اقتدار میں آکر
بنگلہ دیش کی جدائی کا دُکھڑا روتے ہوئے یوں لکھتے ہیں
بے بسی نے ہمیں پتھر کا بنایا اظہارؔ
ہم نے آنگن کے اُجڑ جانے کا غم دیکھا ہے
اپنے شہر کی ترجمانی کرتا یہ شعر بھی ملاحظہ ہو:
جس نے اس شہر کو اِک آہ میں تبدیل کیا
نام اس جبر کا ’’حالات‘‘ نہیں رکھ سکتا
یا یہ کہ
فاختائیں جہاں مصروف تھیں شرمانے میں
کالی بلی بھی وہاں طاق میں اِک بیٹھی تھی
اور یہ بھی کہ
چھین کر تتلیوں کی بے خوابی
اُس نے اپنا ہی گھر اُجاڑا ہے
مادی زندگی میں انسان کی ہماہمی سے لے کر مشینوں کی آمد اور پھر رشتوں کی لاتعلقی جیسے تلخ موضوعات بھی آپ کی شاعری کا حصہ ہیں۔ آپ کی شاعری میں جگنو، خوشبو، پرندے، اور شجر جیسے استعارے جا بجا دکھائی دیتے ہیں۔ مثلاً:
پرندے کوچ کرتے جارہے ہیں
محبت کا کوئی امکان نہیں ہے
یا یہ کہ
پرندے امن کی شاخوں سے اُڑتے جاتے ہیں
اُتر رہا ہے یہ کیسا عذاب آنگن میں؟
لیکن آپ حالات سے مکمل مایوس بھی نہیں دوسری جگہ رجائیت، اُمید اور حوصلے کا درس دیتے ہوئے رنگِ اقبالؔ میں لکھتے ہیں کہ
بس آؤ موج میں اور آسمان پہ چھا جاؤ
کہ زمزمے کا جہاں تو اِسی اُٹھان میں ہے
……………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔